جہلم(چوہدری عابد محمود +عبدالغفارآذاد)جہلم گزشتہ ایک صدی سے برصغیر میں رمضان المبارک کے دوران سحری کیلئے ڈھول اور گھی کے خالی ٹین کے کنستر زور زور سے بجا کر روزے داروں کو جگانے کے قدیم روایتی کلچر نے دم توڑ نا شروع کررکھا ہے جب سے سوشل میڈیا نے معاشرہ کو اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔اس وقت سے قدیم تمام کلچر ختم ہونا شروع ہو چکے ہیں، 2010تک ماہ صیام میں مختلف نوجوانوں پر مشتمل گروپ ڈھول بجا کر گلی محلوں میں گھوم کر ڈھول بجاتے ”روزے دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا“ آوازوں کے ساتھ جگاتے تھے مساجد سے بھی روزہ دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا ہے کے اعلانات کئے جاتے تھے نوجوانوں پر مشتمل ٹولیاں ہر سال رمضان شروع ہوتے ہی گھی کے خالی کنستر بجاتے گلی محلوں میں گھومتے روزے داروں کو ٹین بجا کر جگاتے اور عید کے دن گلی محلے گھوم کر گھر گھر سے عیدی وصول کرتے تھے۔اب یہ سلسلہ موبائل، وٹس ایپ اور فیس بک نے ختم کر دیا ہے،اب تو مساجد سے بھی روزے دارو اٹھو سحری کا وقت ہوگیا کی اعلانات بھی سننے کو نہیں ملتے، شہر میں ہر سال رمضان میں ٹین کے گھی کے خالی کنستر بجا کر روزے داروں کو جگانے والے یاسر نے بتایا کے اس کے دادا نے یہ کام شروع کیا تھا قیام پاکستان سے قبل دادا جان اپنے دوست ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہر سحری سے 2 گھنٹے قبل روزہ داروں کو جگاتے، دادا کے بعد والد نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔اب چند سال قبل موبائل فونز نے سحری کے وقت جگانے کی جگہ لے لی ہے جس کیوجہ سے سحری کے وقت جگانے والے افراد بھی بے روزگاری کی زندگیاں جی رہے ہیں۔
