ترین تو گیو

Spread the love

بیرسٹر امجد ملک

پی ٹی آئی سے ترین تو گئے۔ ‏انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔ ‏بڑے افسوس سے دیکھنا اور کہنا پڑ رہا ہے اور عمران خان کو سہنا پڑ رہا ہے کہ انکی اے ٹی ایم اب پی ٹی آئی میں نہیں رہی ۔ اب ہر پارلیمانی سواری اپنے سامان کی نیب ،ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن (اصلی) سے خود حفاظت کرے۔ اب کہیں بھی کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم کے احتساب اور قانون کے پہیے کے زریعے سزا اور جزا کے معاملات کے متعلقہ انکے اپنے بیانات اب پھر انکے سامنے ہوں گے۔ وہ کچھ بھی کہ اور کرسکتے ہیں یو ٹرن کا آپشن بھی موجود ہے۔ کوئی ادارہ کسی بھی نقصان کا زمہ دار نہ ہوگا۔ زمہ داری ساری معذرت کے ساتھ رنگ روڑ جیسے انکشافات کے زریعے عمران خان پر ڈالی جائے گی۔ جہانگیر ترین پیٹریاٹ گروپ بھی قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ ایک پارٹی کا سابقہ جنرل سیکرٹری اتنا طاقتور ہوسکتا ہے کہ وہ حکومت بنانے کے لئے ممبران کی ترسیل کے لئے جہاز دے سکتا ہے، حکومت بچانے کے لئے الیکٹبل لا سکتا ہے اور گرانے کے لئے وہی مال سود سمیت مالکان کو واپس بھی کرسکتا ہے۔ یہ ہے کل حقیقت تبدیل شدہ پاکستان کی موجودہ سرکار کی۔ اصل مسلہ جو سرکار کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ جہانگیر خان ترین کے جانے سے اور ایک ان ہاؤس پاور پلے گروپ کی تشکیل سے عمران خان فیڈرل اور پنجاب میں ایوان کا اکثریتی اعتماد کھو بیٹھیں گے اگر پیٹریاٹ نے حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تو وہ وزیراعظم کیا عوام میں جانے والا کوئی بھی اقدام بھی عدم اعتماد کے زریعے بلاک کرسکتے ہیں۔ جمعہ کے بعد پاکستان اور حکومت کو اقتصادیات کے علاوہ سیاسیات کے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ افواہیں گرم ہیں لیکن موجودہ سرکار یو ٹرن کی ماسٹر ہے۔ ترین فیکٹر کو دیکھو اور انتظار کرو کے تحت دیکھنا چاہیے۔ یہ گروپ عمران خان کے بیانئے میں ڈینٹ ڈالے گا کیونکہ یا تو عمران خان کرپٹ اور بلیک میل کرنے والوں کو نکالے اور حکومت سے ہاتھ دھو ئے یا اسمبلیاں برخواست کرے اور نئے انتخابات کا اعلان کرے۔ دونوں صورتوں میں گھوڑا اور میدان حاضر ہوگا اور الیکشن کا میدان گرم ہوگا۔ اگست ستمبر میں انتخابات کرائے جاسکتے ہیں ۔مقتدر حلقے اس بے یقینی کو مزید گہرا کریں گے اور پارلیمان کے پانچ سال پورے کرنے کو ترجیح دیں گے تاکہ گراؤنڈ رولز کنڑول اور طے کرسکیں۔ یہاں حکمت اور دانش کااستعمال ضروری ہوگا کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ بحرالحال تحریک انصاف کے اوپر ہی انکی اے ٹی ایم مشین زور دار دھماکے سے گر گئی ہے اور وزن زیادہ ہے اب سرکار کا ٹائیں ٹائیں فش لگتا ہے۔ اب سیلیکٹرز جنازے کا بندوبست بھی خود ہی کریں گے اور مولوی کا انتظام بھی خود ہی کرنا ہوگا کیونکہ مدد کو ؀اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا (فیض)۔

عمران خان کے دست راست اور تارکین وطن کے معاملات پر وزیراعظم کے مشیر ولایت پلٹ زلفی بخاری نے بھی رنگ روڑ اسکینڈل میں کرپشن کی افواہوں کے بعد استعفی دے دیا ہے۔ جن کی جان اس طوطے میں ہے۔ اسکے لئے تو نیب،ایف آئی اے،اعلی حکام کی پھرتیاں قابل دید ہوں گی -کھڑے پیر نکالیں گے نام اگر اب تک ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رہ گیا ہوگا۔کرپشن کرپشن کی گردان الاپتے سجے کھبے دائیں بائیں ہر طرف کرپشن مافیا نکل رہا ہےلیکن بندہ ایماندار ہے۔صبر ہی ہے اور نیب خاموش ہے کیونکہ وہ فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں خاص طور پر جس کیس میں کوئی ویڈیو بھی بن سکے۔اب وزارت اوورسیز پاکستانیز بغیر وفاقی وزیر کے ہے۔ ‏اب سو لاکھ اوورسیز پاکستانیوں کا اتنی بڑی اسمبلی سے بھی کوئی وزیر مقرر ہوگا کہ سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ایک طرف تارکین وطن کے لئےووٹوں اور سیٹوں کی شنیددوسری طرف تین سالوں سے وفاقی وزیر کے بغیر او پی ڈی حکومتی دعووں کا منہ چڑا رہی ہے۔ نہ وزیر اور نہ عوامی چئیرمین اوپی ایف ایسا کب تک چلے گا؟ لیکن اس گھمسان کے رن میں بھی حکومت ناجائز تجاوزات کو نہیں بھولی اور ملتان میں جاوید ہاشمی کے کچھ بیانات کے بعد انکا متنازعہ نقشے پر گھر مسمار کردیا گیا ۔ جاوید ہاشمی پاکستانی قوم کا سفید بالوں والا ضمیر اور سول سوچ کا نمائیندہ ہے اور اپنے قبیل کا کور کمانڈر ہے۔ طاقتورسوچ تاریخی نفرت کی وجہ سے اسکی مخالف ہے اور وہ اس اجارہ داری کی مخالفت ہی نہیں بلکہ اسکا پرچار بھی کرتا ہے۔اسکے ساتھ حسن سلوک 22 کروڑ عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ٹریلر ہے اور پیار کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔ لیکن ریاست کو سمجھانا چاہیے کیونکہ ات خدا دا ویر ہے۔

اسلام آباد میں افواہیں گرم ہیں ۔ پنڈی رنگ روڑ نے نیند یں اڈا دی ہیں ۔پنجاب اور بلوچستان حکومتیں زد میں ہوں گی۔ بجٹ ناکام ہوا تو وفاق بھی جائیگا۔ اگر اسمبلیاں ٹوٹتی ہیں تو نگران حکومتیں بنائیں اور صاف شفاف اور منصفانہ نئے انتخابات کروائیں ۔ یہ مسلمہ مصدقہ اور آئینی حل ہے۔ چوہدری نثار علی خان نگران وزیراعلی پنجاب بن سکتے ہیں اگر انکو مقتدر حلقوں کی حمائت حاصل ہے۔ اگر ان ہاؤس تبدیلی لانا مقصود ہے تو چوہدری نثار کو اسی صورت میں پنجاب کا وزیراعلی قبول کرناچاہیے اگر پی ڈی ایم یا ن لیگ کا مشترکہ وزیراعظم کم از کم دو سال کے لئے آزادانہ کام کرسکے گا اور نئے انتخابات تک کام کرنے کی کھلی اجازت ہوگی۔ وگرنہ اپوزیشن نے جہاں اتنا انتظار کیا ہے تھوڑا اور انتظار کرلیں یہ ملبہ کسی سے نہیں اٹھایا جائیگا۔ پنجاب میں انتخابات تک کسی بھی قسم کی گڑ بڑ کا ڈائرکٹ نقصان بھی مسلم لیگ ن لیگ کو ہی ہوگا۔ سو فائدہ نقصان برابر سوچ کر ہی قدم اٹھانا چاہیے۔ مسلم لیگ کو اس موقعہ پر شفاف انتخاب اور لیڈرشپ کی باعزت واپسی کے لئے راستے بنانے چاہیے اور ووٹ کی عزت کے لئے لڑنا چاہیے۔ صاف سادہ نگران حکومتوں پر بات کرنا چاہیے۔ باقی کام تمام عوام اور ووٹ خود کرے گی۔

امت مسلمہ کو کشمیر کے بعد فلسطین کا مسلہ درپیش ہے اور مسلمان ممالک ابھی تک بے یقینی اور لاغر پن کا شکار ہیں۔ اسرائیل کا القدس پر حملہ قابل مذمت ہے۔لیکن اس سے پہلے کہ یہ واقعہ مشرق وسطی میں آگ اور خون کا کھیل دوبارہ شروع کردے ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی رمضان المبارک کے مہینے میں ایسے غیر ذمہ دارانہ, اکسانےوالے اور بے حس فعل کا فوری نوٹس لے۔ مساجد اور مقامات مقدسہ کا تقدس ہر حال میں مقدم ہونا چاہئیے۔ قبلہ اوّل پر حملے پر عالمی رہنماؤں کو غلط کو غلط کہنا چاہئیے۔سعودی عرب کو آگے بڑھ کر نمائندگی کرنی چاہئیے. اور پہلے او آئی سی اور پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ کو بھرپور طریقے سے اٹھانا چاہیے اور بین الاقوامی سطح پر رد عمل اور اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہئیے ۔ یہی اسلامی بلاک کی لیڈرشپ کا تقاضا ہے۔ ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ فکسطین ایک محکوم اور اسرائیل ایک جابر اور قابض فورس ہے ۔ بین الاقوامی دنیا کو فلسطین کو آزاد ریاستی درجہ دیتے ہوئے ایک دوسرے کیساتھ پرامن ہمسائیہ کے طور پر رہنے میں مدد دینا ہی اصل بین الاقوامی حل کی طرف پیش قدمی ہوگی۔ مسلم لیگ ن کو پارلیمان کے زریعے او آئی سی اور سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو خط لکھنا چاہیے حل کی تجویز دینی چاہیے ۔ ترکی ایسی تجاویز پہلے ہی دے رہا ہے۔ پاکستان کو مسلم ممالک کے سربراہان ترکی سعودی عرب مصر قطر بحرین ایران شام اردن،ملائشیا ، دبئی اور باقی جی 20 کے سربراہان کو خط لکھنے چاہیے ہیں تاکہ پتہ چلے کہ اُمّت مسلمہ کے ممالک القدس اور فلسطین کے اس اہم مسلہ پر یک زبان ہیں اور حل کے لئے کوشاں ہیں اور او آئی سی سے اُمّہ کی ترجمانی کی آواز آنی چاہیے۔ مسلمان لیڈروں کےلئے اتنا ہی کہ ‏؎ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی (اقبال)۔

کسی بھی قوم کا سربراہ قوم کا آئینہ ہوتا ہے قوم اس میں اپنا علس دیکھتی ہے۔ خوش اخلاقی فرض ہے تاکہ لیڈر کی بات دل میں گھر کر سکے۔ اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے۔ اللہ تعالی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم )کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے؀دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے۔ میں نے بھی 17 مئی کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کا مدبرانہ، مدلل ،مفصل اور بے باک خطاب سنا دل باغ باغ ہو گیا۔انہوں نے ایک حقیقی عوامی زمہ دار مسلم قوم کے رہنما کی حیثیت سے پاکستانی قوم کے جذبات کی صیح معنوں میں عکاسی اور ترجمانی کی ہے۔ کاش وزیراعظم بھی وہاں موجود ہوتے تو ایک مشترکہ آواز پارلیمان سے آتی۔ شہباز شریف صاحب کی پر مغز تقریر نہ صرف عالمی ضمیر بلکہ اس نااہل اورنالائق حکومت کیلئے بھی ایک وارننگ کال تھی۔ انکا کہا ہوا ایک ایک لفظ ہر درد دل رکھنے والے انسان کے دل میں گھر کر گیا ہے اور اُمّہ کے عزت نفس کی حفاظت کیلئے ایک تریاق کی مانند ہے اگر کوئی اس پر عمل کرنا چاہے تو۔انہوں نے نہ صرف اپنے ضمیر کے مطابق بات کی ہے بلکہ کلمہ حق بلند کرکے اللہ کریم اور آقائے نامدار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی راضی کیا ہے۔شہباز شریف صاحب کی تجاویز قابل عمل حالات کے عین مطابق بامقصد اار معنی خیز ہیں۔ پارلیمان سے مشترکہ قرارداد ریاستی امنگوں کی ترجمان ہے۔ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہے اور آواز خلق نقارہ خدا ہے اور اسے سمجھنا چاہیے۔ جتنی آج اس قوم کو راہنمائی کی ضرورت ہے پہلے کبھی نہ تھی مسلم لیگ ہی ملکر عملی طور پر ملک کو اس سیاسی اور اقتصادی اور عالمی تنہائی گرداب سے نکال سکتی ہے۔اس حکومت کی تمام تر نااہلیوں اور انتقامی کارروائیوں کے باوجود حزب اختلاف کے لیڈر نے موقع کی مناسبت سے تنقید برائے تنقید کی بجائے معیاری اور مثبت لیڈرشپ کا ثبوت دیا ہے۔ ‏پھر ایک اہم موقع پرپاکستانی وزیر اعظم ایوان میں موجود نہیں تھے جب قوم کو راہنمائی کی ضرورت تھی وہ مستقبل میں بھی کوئی چارہ گر کیسے ہوں گے یہ سوچنے والی بات ہے۔ اللہ کریم شہباز شریف کو صحت دیں اور مزید ہمت،حوصلہ اور موقع دیں کہ وہ اپنے قائد اور بھائی نواز شریف صاحب کیساتھ ملکر بحرانوں میں گھری ہوئی اس قوم کی بھرپور قیادت کر سکیں۔

عمران سرکاراپنےبیانئے کے تحت کرپشن کیخلاف انتہا پسند حکومت کے طور پر جانے جانے کی خواہاں ہےاس کے لئے وہ سعودی ، چائنہ ،برطانوی،ملیشیائی یا کوئی بھی ماڈل استعمال کرنے کے لئے تیار ہے تاکہ حزب اختلاف کو جیل میں رکھے۔اب وہ کسی بھی طور پر کسی انسانی حقوق کے ماڈل پر مائل نہیں ہوں گے ۔ لیکن انکی بدقسمتی یہ ہے کہ انکے اس عظیم مقصد میں حائل انکے اردگرد موجود کرپشن سے لتھڑی ہوئی ٹیم یا اے ٹی ایم کا گروہ ہے۔ اللہ ان پر اپنا رحم کریں اتنا ہی جتنا انہوں نے دوسروں پر کیا ہے۔کسی بھی ملک میں جمہوریت کو جانچنا ہو تو لیڈر آف دی اپوزیشن سے حکومت کا حسن سلوک دیکھیں ۔عدالتی حکم کے باوجود عید کے دن ایمرجنسی میں شہباز شریف صاحب نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنا سریحاً حکومتی زیادتی تھی اور بادی النظر میں توہین عدالت ہے ۔عدالت عظمی رہنمائی کرے اس سے پہلے کہ سارا ریاستی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے جا گرے اور ہر کوئی عدالتی احکامات پر عمل کرنے کی بجائے اپیل کئے بناء اس میں میخیں نکالتا پھرے۔ شنید ہے کہ صدرمسلم لیگ ن ‏شہباز شریف کو 7 مئی کے عدالتی حکم اور اجازت کے باوجود بیرون ملک جانے سے روکنے پر شہباز شریف کی درخواست پر عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ 26 مئی تک جواب طلب کیا ہے۔ آنے والے دن دلچسپ اتفاقات کا باعث ہوں گے کیونکہ حکومت کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہ سکتا کہ ؀کل ہو نہ ہو۔

بیرسٹر امجد ملک ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ کے چئیرمین اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائیٹس کمیشن پاکستان کے تاحیات رکن ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں