کیا دن مجھے عشق نے دکھائے

Spread the love

کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اک بار جو آئے پھر نہ آئے

اُس پیکرَ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں‌آئے تو سنائے

وہ روحَ خیال و جان مضمون
دل اُس کو کہاں سے ڈھونڈ لائے

آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھر تھرائے

مہکی ہوئی سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کھلائے

راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے

اڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے

ںاصر کاظمی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں