مصنف و کالم نگار :مفتی خلیل الرحمن کراچی پاکستان
آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کےتقریبا 40410 کیسسز رجسٹرڈ ہوئے 2015 میں صرف خلع کے تقریبا 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے۔
پنجاب میں تقریبا 2012 میں 13299 ، 2013 میں 14243 ، 2014 میں 16942 جبکہ 2016 میں 18901 صرف خلع کے مقدمات کا فیصلہ دیا گیا۔
چئیرمین آربیٹریشن کونسل اسلام آباد کے مطابق صرف لاہور شہر میں 2017 میں خلع کے واقعات 18901 سے بڑھ کر 20000 تک پہنچ گئے۔
آپ حیران ہوجاۓ گے یہ سن کر گجرانوالہ میں ماسٹرز کی طالبہ نے وین ڈرائیور کے ” چکر ” میں اپنے پڑھے لکھے ، محبت کرنے والے شوہر سے طلاق لے لی
یہ میرے نہیں سیشن کورٹ گجرانوالہ کے الفاظ ہیں
آپ مزید حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ایک نیوز رپورٹ کے مطابق محض 10 مہینوں میں 12913 خلع کے مقدمات تھے صرف ستمبر کے مہینے میں گجرانوالہ شہر میں 2385 خلع کے مقدمات آئے۔
شاید آپ کو یقین نہ آۓ سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 5000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 3000 ” لو میرجز ” تھیں۔
پاکستان کے دوسرے بڑے اور پڑھے لکھے شہر میں روزانہ اوسط 150 طلاقیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔
یہ تو دیگ کا صرف ایک دانہ ہے
عرب ممالک میں طلاق و خلع کا اوسط تو کئی یورپی ممالک سے بھی گیا گذرا ہے جو ہم کو دین سکھانے کی تلقین اور حرمین طیبین کے آداب سکھاتے ہیں
اس سے انکار نہیں ہے کہ ان میں سے بہت سارے واقعات میں عام طور پر سسرال والوں کا لڑکی سے رویہ اور شوہر کا بیوی کو کوئی حیثیت نہ دینا بھی اصل وجوہات ہیں لیکن آپ کسی بھی دارالافتاء چلے جائیں ہفتے کی بنیاد پر متعدد خطوط ہیں جو خواتین نہیں مرد حضرات لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوی کو کسی اور کے ساتھ ” محبت ” ہوگئی ہے وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں بتائیں میں کیا کروں شرعی رہنمائی فرمائے وغيرہ
ایک دارالافتا میں ایک خط آیاجس میں شوہر نے لکھا تھا کہ ” رات آنکھ کھلی تو بیوی بستر پر نہیں تھی ، بیڈروم سے باہر آیا تو صوفے پر لیٹی موبائل میں مصروف تھی اب وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے اور ہمارا ایک بچہ بھی ہے “۔
کٸ ایسے واقعات آپ نے بھی سنے ہونگے دیکھے بھی ہونگے
ہستے کھلیتے گھر اجڑ گۓ
حقیقت میں” یہ قوم اسلام پر مرنے کے لئے تیار ہے لیکن اسلام پر چلنے کے لئے تیار نہیں ہے “
آپ قرآن حمید کی تلاوت کرے ترجمہ پڑھے اس کی تفسیر پڑھے آپ کو معلوم ہوگا قرآن حمید میں اللہ کریم کے کیا کیا احکامات ہیں جو ہم ادا نہیں کررہے ہیں۔
نکاح ، طلاق ، خلع ، شادی ، ازدواجی معاملات ، میاں بیوی کے تعلقات ، گھریلو ناچاقی ، کم یا زیادہ اختلاف کی صورت میں کرنے کے کام آپ کو سارا کچھ اللہ تعالی کی اس مقدس ترین کتاب میں مل جائیگا جس کو ہم اور آپ” چوم چوم ” کر تو رکھتے ہیں مگر افسوس عمل نہیں کرتے
آپ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے۔
یاد رکھیں معاشرے کی خرابیاں ہم سب نے مل کر دور کرنی ہیں
مرد عورت دونوں کو صبر و تحمل سے کام لینا پڑے گا چھوٹی چھوٹی لڑائیوں پر طلاق و خلع نہیں ہونا چاہۓ۔
قربانی ، ایثار ، احسان ، درگذر ، معافی ، محبت اور عزت یہ اسلام اور قرآن کی ڈکشنری میں آتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ان جوڑوں کی طلاق زیادہ جلدی ہوجاتی ہے جو ” جوائنٹ فیملی ” میں نہیں رہتے ہیں ۔
مصر میں عبد الفتاح سیسی جیسا حکمران تک طلاقوں سے پریشان ہے کیونکہ مصر میں 40 فیصد شادیاں اگلے پانچ سالوں میں طلاق کی نذر ہوجاتی ہیں۔
جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ہر ایک گھنٹے میں پانچ طلاقیں ہوتی ہیں جبکہ عرب نیوز کے مطابق 2016 میں 157000 شادیوں میں سے 46000 کا انجام طلاق کی صورت میں ہوا ہے۔
خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے
الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “ سلمان خان عامر خان وغيرہ جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا مکمل ڈر ہوتا ہے۔
گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں
سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے بچے رورہے ہیں ماں سوشل میڈیا پر لگی ہے مختلف لوگوں سے باتوں میں مصروف عمل ہے جس بظاہر کوٸی فائدہ بھی نہیں ہے۔
پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع دفع ہوجایا کرتی تھیں
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔
مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا۔
لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا کرے عبادات کی پابندی کرے اپنے بچوں کو بھی ترغيب دیں
بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں زندگی میں معافی کو عادت بنالیں خدا کے لئے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ساری دنیا کو دکھانے کے لئے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” گندے کپڑے جوٶں سے بھرا سر وغيرہ ایسا نہ کریں
مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگی تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ہے امید ہے اس کالم کو پڑھنے والے ضرور کچھ نہ کچھ سیکھے گے اور عمل بھی کرے گے ان شاء اللہﷻ اللہ کریم دنیا بھر کے مسلمانوں پر اپنا خاص فضل و کرم فرمائے اور طلاق و خلع کی بڑھتی ہوٸی تعداد کو ختم فرمائے اور ہمیں زیادہ تر اپنے بچوں کی تربيت میں وقت گزارنے توفيق نصيب کرے۔
آمین آمین آمین