آئے روز یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بے شمار ٹیچر ٹریننگ اور لیڈر شپ ٹریننگ کہ باوجود ہمارے ادارے تنزلی کا شکار ہیں
کیونکہ میرا تعلق بھی اسی معاشرے اسی طبقے سے رہا ہے اور پھر ضلعی اور صوبآئی سطح پر اپنے اساتذہ کہ گروہ کی نمائندگی کرتا ہوں 12 سال ٹیچر یونین ضلع جہلم کا صدر رہا آج کل پنجاب ٹیچر یونین ضلع جہلم کا سرپرست اعلی ،پنجاب فزیکل ٹیچر ایسوسی ایشن لیگل ایڈوائزر ہوں اور 33 سال بطور استاد اور بطور سربراہ ادارہ بھی کام کیا ہے تو آئے دن نظر سے بے شمار واقعات گزرتے ہیں آج سوچا کہ کیوں نہ اس پر کچھ بات کر لی جائے
سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ ہم اساتذہ سے ہر طرح کا کام لینا چاہتے ہیں اور یہ اچھے سے جانتے ہیں کہ معاشرے کا مستقبل اساتذہ ہی کہ ہاتھوں میں ہے اور بچے کی مینٹل گروتھ کا سب سے خاص حصہ ہمارے پرائمری اسکول ٹیچرز کے ہاتھ میں ہے تو یہ کیا معاملہ ہے کہ ان کا سکیل اور تنخواہ اتنی ہی کم ہے کہ پورا دن وہ یہ سوچتے گزار دیتے ہیں کہ مہینہ کیسے گزارے گا اکثر مرد اساتذہ کرام صبح رستے سے ہی اس ٹینش میں رہتے ہیں کہ کہیں موٹرسائیکل خراب نہ ہو جائے کیونکہ یا تو وہ بچے کو بیماری کی صورت میں ہسپتال لے جا سکتے ہیں یا ایسے کسی کام پر بہت قلیل رقم خرچ کر سکتے ہیں
افسوس اس بات کا ہے کہ پہلی سیڑھی پر ہی بچہ ایک ایسے شخص کہ ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جو ہر وقت بے شمار جنگیں لڑ رہا ہوتا ہے کبھی پیسوں کی کمی کبھی سب سے کم سکیل ہونے کے طعنے اب یہ وقت ہے جب ہمارے پالیسی میکرز کو اس بات پر غور کرنا ہو گا ورنہ یہ معاشرہ جس تنزلی کا شکار ہے تباہ برباد ہو جائے گا
بات یہاں ختم نہیں ہوتی مردم شماری ہو کاغذی کاروائی ہو الیکشن ہوں یا پو لیو مہم ہر جگہ اساتذہ کو کسی بھی آلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اساتذہ کا کام صرف بچوں کو پڑھانا اور ہونا بھی یہی چاہیے۔لیکن سکول میں بھی پڑھائی کے دوران ان پر رجسٹرز اور دوسری تیسری ڈیوٹیز کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ دوران کلاس بھی وہ یہی کام کرتے نظر آتے ہیں
ہمارے کثیر تعداد میں ہیڈماسٹر اور ہیڈ مسٹریس صاحبان جن کو مددگار ہونا چاہیے وہ look busy do nothing کی ٹرم کے عین مطابق چلتے نظر آتے ہیں
گرمیوں کی چھٹیاں ہوں یا سردیوں کی اساتذہ کرام کی وہ تنخواہ جس سے بمشکل ان کا چولہا جلتا ہے اس میں سے بھی کنوینس الاونس کاٹ لیا جاتا ہے جبکہ اساتذہ کرام کی سکول خاضری کی ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے اور انہیں گھر بیٹھ کر کھانے کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے جبکہ قابل احترام معاشرے کے افراد کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب ایک بندہ گورنمنٹ جاب میں کچھ اصول و ضوابط کے ساتھ بھرتی کیا جاتا ہے تو جہاں اسے یہ تنخواہ دی جاتی ہے وہی اس پر بہت سی پابندیاں بھی عائد ہوتی ہیں وہ کسی قسم کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں کرسکتا تو ایسے میں گورنمنٹ کو ہی اس کے گھر کا خیال رکھنا ہوتا ہے اساتذہ کی تنخواہ سے کنوینس الاونس کی کٹوتی کی جاتی ہے جبکہ ایڈمنسٹریشن کے تمام افراد یہاں تک کہ سکول کہ کلرک اور درجہ چہارم کہ ملازمین کی تنخواہ بھی پوری آتی ہے۔
اساتذہ کرام جنہیں اپنے تمام افسروں کی طرف سے بالکل ایسی ہی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جیسے معاشرے کے غیر کاشتکار طبقے کو گاوں کا زمیندار دیکھتا ہے بعض اوقات فرعونی فرمان جاری کر کے کبھی ڈینگی کبھی فلڈ تو کبھی پو لیو مہم کے حوالے سے پورا پورا مہینہ سکول بلایا جاتا ہے جبکہ ان کے کنوینس الاونس کاٹ لیے جاتے ہیں اس ڈر سے کہ اس کم تر تنخواہ میں وہ ایجوکیشن آفس تک کے بار بار چکر کیسے کاٹے جائیں کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں
ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ان گزارشات پر نظر ڈالیں اور اساتذہ کے نام کے ساتھ عزت ماب لکھنے کی بجائے حقیقی معنوں میں اساتذہ کو عزت دی جائے جہاں اتنی ٹریننگز کرائی جاتی ہیں وہاں پروفیشنلزم بھی سیکھایا جائے تاکہ لوگ پیشہ ورانہ مسائل کو حل کریں نہ کہ ان سے ذاتی وابستگی قائم کر کے ایک دوسرے کو ٹارچر کریں
اساتذہ پوری چھٹیاں سکول میں گزارنے کے لئے تیار ہیں جو لوگ موسم کی شدت کہ باوجود پو لیو مہم جان کی فکر کئے بغیر کرونا ذدہ گھروں محلوں کہ باہر ڈیوٹیاں سرانجام دے سکتے ہیں ان کے لیے سکول جانا کوئی مشکل بات نہیں لیکن پھر تنخواہ میں کسی قسم کی کٹوتی نہ کی جائے اور سکیل کا بہتر سٹرکچر متعارف کرایا جائے تاکہ محکمہ تعلیم میں آنے والا کوئی بھی شخص صرف شکیل اور تنخواہ کی بہتری کے لئے اپنے مستقبل سے زیادہ بچوں کے مستقبل کو توجہ دے سکے۔
آج بھی اگر سربراہان محکمہ اور افسران بالا اس بات کو نہ سمجھے تو بلاشبہ معاشرے کی تباہی کی بنیاد رکھنے والے یہی لوگ ہوں گے۔
از قلم
امجد فاروق گوندل ایڈووکیٹ
سرپرست اعلی پنجاب ٹیچر یونین ضلع جہلم
لیگل ایڈوائزر پنجاب فزیکل ٹیچر ایسوسی ایشن
لیگل ایڈوائزر یونیورسل کیرئیر کونسلنگ سروسز