تحریر:مولانا نوید احمد
ضلع منڈی بہاؤالدین کے علاقے پھالیہ میں ایک انتہائی دلسوز واقعہ پیش آیا ہے ۔ سوشل میڈیا کے مطابق مسجد سے ملحقہ ایک مکان کی چھت حالیہ تیز بارش کی وجہ سے گر گئی ہے اور وہاں رہائش پذیر امام صاحب کے تین بیٹے ایک بیٹی اور اہلیہ اس کے ملبے تلے آکر شھید ہوگئے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
اس بےچارے امام صاحب کی تو دنیا اجڑ گئ ۔
مسجد انتظامیہ پر قتل خطا کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ لیکن کرے گا کون؟ امام تو ظاہر ہے افورڈ نھیں کرسکتا، اور دنیا کے ہرپروفیشن کے لوگوں کی کلرکوں سے لےکر ڈاکٹروں اور وکیلوں تک کی تنظیمیں پائی جاتی ہیں جو اپنے ممبران کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتی ہے اور کوٹ کچہری تک جانا پڑے تو جاتے ہیں ۔ لیکن مولوی اور امام وہ شعبہ ہے کہ ان کی کوئی ایسی تنظیم نھیں۔ یہ صرف اپس میں فتوے لگانے اور اپنے بڑوں کے اشاروں پر دوسروں کو کافر قرار دینے اور جلسے جلوس نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔
آئے دن سنتے رہتے ہیں کہ اماموں کی تنخواہیں اور دینی مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں انتہائی کم ہوتی ہیں اور ان کی گذر بسر بڑی مشکل سے ہوتی ہے۔ ایسی پوسٹ بھی اکثر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں۔ لیکن عملی طور پر اس ناسور اور معاشرتی ظلم کی اصلاح کے لئے کوئی بھی قدم نھیں اٹھاتا، نہ معاشرہ نہ مولوی اور امام خود۔ حالانکہ مسجدوں کے پاس لاکھوں روپے کے زائد فنڈز موجود ہوتے ہیں جوبینکوں میں پڑے سڑ رہے ہوتے ہیں، اور مساجد کی ضروری اور غیر ضروری تزئین و آرائش بھی جاری رہتی ہے لیکن امام اور مدرس کی تنخواہیں بڑھانے کی بات آئے تو مساجد کمیٹیاں فنڈز نہ ہونے کا عذر کردیتی ہیں۔ جو درحقیقت اسلام دشمنی ہی کا دوسرا نام ہے لیکن کمیٹیاں اپنی طرف سے اسے اپنی ذہانت سمجھتی ہیں کہ وہ مسجد کے پیسے بچارہے ہیں ۔
لہذا اپنے جائز حقوق کے لئے اماموں اور دینی مدراس کے اساتذہ کو جلد از جلد ایسی تنظیمیں بنانی چاہئے۔ تاکہ اپنے جائز حقوق اور ضروریات کا مطالبہ احسن انداز میں معاشرے کے مقتدر حلقوں کے سامنے رکھ سکیں۔ جاب سیکورٹی اور ڈیسنٹ تنخواہ کے حوالےسے قواعد وضوابط بنانے چاہیں۔ فل ٹائم امام اور پارٹ ٹائم کا سیلری سٹکچر وضع کیا جائے۔ کم از کم کوالیفیکیشن طے کی جائے تاکہ ہر ایراغیرہ بھی اس منصب پر براجمان نہ ہوجائے ۔ تاکہ معاشرے میں اس مخلوق کو بھی کوئی عزت وقدر کی نگاہ سے دیکھے۔ اور جہاں جہاں خود مولویوں اور دینی مدارس کے اساتذہ کو اپنی اصلاح اور بہتری کی ضرورت ہے وہ بھی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں ۔ کاش کوئی بندہ خدا اس سلسلے میں آگے بڑھے اور اس کار خیر کی ابتداء کرے