عنوان: تعلیم (تحریر سید عمیر)
ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دور کی اولین بنیاد کے بارے میں اگر سوچا جائے تو ہمارے ذہن میں آنے والا سب سے پہلا لفظ تعلیم ہی ہوگا.تعلیم ہمیں اپنے گرد و نواح میں ہونے والے ہر اچھے برے حالات و معاملات سے آگاہ کرتی ہے اور ساتھ ہی اپنے ماحول میں مناسب تبدیلیاں لانے کے قابل بناتی ہے تعلیم ہمیں زندگی کو منفرد انداز سے دیکھنے کا نظریہ دیتی ہے اور اپنے آنے والے کل کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے. وہ معاشرے جو تعلیم سے محروم رہتے ہیں وہ ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ نوجوان ہی کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اگر وہ علم سے محروم رہیں تو تباہی معاشرے کا مقدر بن جائے. تعلیم انسان کو اپنے اور دوسروں کے حقائق جاننے اور سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور ہمیں ایک اچھا شہری بناتی ہی.جب ایک اچھا شہری جو قانون کی پاسداری کرتا ہے تو باقی لوگ بھی اُسکے ظرز عمل کو اپنانا شروع کردیتے ہیں.جس کے ذریعے ایک صحت مند اور برائیوں سے پاک معاشرہ جنم لیتا ہے.تعلیم کے بغیر نہ تو انسان خود کو پہچان سکتا ہے نہ ہی دنیا کو. ۔ یہ یقینا انتہائی خوشی کی بات ہے کہ اس سال پاکستان کی مجموعی داخلی پیداوار کا 4 فیصد حصہ تعلیمی مقاصد میں استعمال کے لئے مختص کیا گیا ہےتعلیم کے اخراجات اٹھانےکے لئے ملک کے پاس پیسے تو موجود ہیں مگر کار آمد نظام رتی برابر بھی نہیں۔ اب پاکستان کے تعلیمی نظام کی کامیابی کا اندازہ اسی بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جب کرونا وبا کے باعث ساری دنیا کا تعلیمی نظام سکولوں اور کالجوں سے کمپیوٹرز و موبائیلز پر منتقل ہو گئے۔تو پاکستان ان ممالک میں سے ایک تھا جن کو تین ماہ تک یہی سمجھ نہیں آیا کہ ان حالات میں کیا کیا جائے چند پرائویٹ یونیورسٹیز جو کرونا سے قبل بھی آن لائن پورٹلز کا استعمال کرتی تھیں انہوں نے تو اپنے طالب علموں کو چند روز کے وقفے کے بعد آن لائن پورٹلزکے ذریعے سنبھال لیا مگر دیگر سرکاری اور نیم سرکاری یونیورسٹیز کے طالب علم گھر بیٹھ کر محض سکول اور یونیورسٹیز کھلنے کا انتظار کرتے رہے ناقص تعلیمی نظام کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کے طلباء ایک بار پھر خسارے میں رہے۔یوں ملک کے نوجوان دو طبقوں میں تقسیم ہو گئے یہی تقسیم سرکاری یونیورسٹیز کے طلباء کو حساس کمتری کا شکار کرتی رہی۔ اگر انہی طالب علموں کو دلچسپ حالات پیدا کر کے پڑھایا جائے اور پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے تو دو طبقوں میں تقسیم طالب علموں کو یکساں کیا جا سکتا ہے اور سرکاری یونیورسٹیز کے طالب علموں میں سے احساس کمتری ختم کی جا سکتی ہے پھر یہی نوجوان تعلیم و تربیت کو فوقیت دے گے اور پاکستان کی ترقی میں پیش پیش ہوں گے۔کیونکہ آنے والی نسل ہی تو اس قوم کا سرمایہ یے اگر وہ تعلیم حاصل کریں گے تو ہی ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا