تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
پانچ اگست2019 کو بھارت میں موجود ہندوتوا کی پالیسی پر مبنی مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35-A کی بنیاد پر بنا ایک تقسیم پیدا کر دی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مودی سرکار کے اس اقدام کے خلاف بڑی مزاحمت شروع ہو گئی ہے۔ بھارتی حکومت کا خیال یہ تھا کہ ان آئین کی شقوں کا سہارا لے کر وہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک کو کمزور کرسکے گا، لیکن ان کا یہ تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ اس آئینی مداخلت کا بھارت کو بڑا نقصان ہوا۔ پہلے مقبوضہ کشمیر، بھارت یا پاکستان کے اس کے فریق تھے۔ لیکن جو کچھ بھارت نے لداخ میں کیا تو اب خود چین بھی ایک بڑے فریق کے طور پر سامنے آگیا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا بدترین کرفیو ہے جو تقریباً دو سال سے جاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی عملی زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے اور ہر وہ بنیادی انسانی حقوق جو مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے لوگوں کا حق ہے وہ حقوق بزور قوت دبا دیے گئے ہیں۔ مودی سرکار کی مقبوضہ کشمیر کی پالیسی میں سیاسی بنیاد پر حکمت کم اور طاقت یا بندوق کے زور پر حکمت عملی زیادہ بڑا عنصر نظر آتا ہے
ہمت ہے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں نے جس بہادری کے ساتھ بھارتی جارحیت یا بربریت کا مقابلہ کیا وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ عملی طور پر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں نے اپنی اس مقامی تحریک کو ایک عالمی حیثیت کی شکل دے دی ہے۔ بالخصوص انسانی حقوق کی پامالی کی بنیاد پر یہ تحریک اب عالمی دنیا کی سیاست اور رائے عامہ سمیت انسانی حقوق سے جڑے اداروں کا اہم موضوع ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین، ہیومین رائٹس واچ، یو این او، بی بی سی، سی این این، گلوبل پیس نیٹ ورک، امریکہ اور برطانیہ کے اہم اداروں نے ہر سطح پر اپنی رپورٹس میں یہ تسلیم کیا ہے کہ بھارت بطور ریاست مقبوضہ کشمیر میں بدترین دہشت گردی کا مرتکب ہوا ہے
مقبوضہ کشمیر میں نقل وحمل، مواصلات، انٹر نیٹ، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی تک رسائی، جیسے معاملات تقریباً بند ہیں۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک میں موجود کشمیری اپنے ہی پیاروں سے رابطوں سے بھی محروم ہیں۔ نمازاور عبادات کی آدائیگی سے بھارتی سیکورٹی اہلکار طاقت کی بنیاد پر ان کو روک رہے ہیں۔ خاص طور پر کشمیری نوجوانوں میں بھارت کے خلاف ردعمل بہت بڑھ رہا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شائد کشمیر کا مسئلہ سیاست سے نہیں بلکہ جنگ یا طاقت کے استعمال سے ہی حل ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر بھارت نے کشمیر کے مسئلہ کے حل میں سیاست کو بنیاد بنا کر اپنا کردار یا مسئلہ کا حل تلاش نہ کیا تو اس کا بڑا نتیجہ جنگ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ آج جو نوجوان سیاسی بنیادوں پر جنگ کو لڑرہے ہیں وہ کل مسلح جدو جہد بھی شروع کر سکتے ہیں
بھارت کی قیادت کو یہ بات جاننا ہو گی کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ محض کشمیر یا پاکستان وبھارت تک محدود نہیں بلکہ ایک طرف یہ پورے خطہ کی سیاست، ترقی و خوشحالی سے جڑا ہوا ہے وہیں عالمی دنیا بالخصوص رائے عامہ تشکیل دینے والے ادارے بھی خود کو کشمیر کی صورتحال سے علیحدہ رکھ کر سیاسی تنہائی اختیار نہیں کریں گے۔ ابھی تک تو بھارت اپنی سیاسی اور معاشی طاقت کی بنیاد پر عالمی دنیا کو مجبور کیے ہوئے ہے کہ یہ مسئلہ ہمارا داخلی مسئلہ ہے۔ لیکن اب جو مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے وہ مسئلہ کی عالمی حیثیت کو بھی اجاگر کرتا ہے یہ بات طے ہے کہ بھارتی سرکار موجودہ پوزیشن زیادہ دیر برقرار نہیں رکھ سکے گی
پاکستان نے کئی بار کوشش کی کہ وہ پاک بھارت مزاکرات کی بحالی سمیت کشمیر کے مسئلہ پر دو طرفہ بات چیت کے عمل کو آگے بڑھائے، لیکن بھارت کا رویہ جارحانہ بھی ہے اور عملا اس نے اس مسئلہ پر بات چیت کے دروازے بند کرکے ڈیڈ لاک پیدا کیا ہوا ہے۔ بھارت کا یہ فیصلہ بھی پاکستان کو کسی صورت قبول نہیں کہ ہم کشمیر کے مسئلہ کو نظرانداز کرکے دیگر مسائل پر بات چیت کریں، لیکن مسئلہ کشمیر تو ایک طرف وہ کسی بھی مسئلہ پر بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پر ایک بڑی سیاسی اور سفارتی جنگ لڑنی ہے۔ اس میں ہمیں عالمی طاقتوں سمیت علاقائی طاقتوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ کیونکہ بھارت پر جب تک علاقائی یا عالمی دباو کشمیر کی صورتحال پر نہیں بڑھے گا وہ کوئی بڑا فیصلہ کشمیر کے حق میں نہیں کرے گا۔
مسئلہ محض پاکستان اور بھارت کی نہیں ہے۔ اصل فیصلہ کشمیر ی قیادت اور ان کی عوا م نے کرنا ہے۔ کیونکہ اس بحران کے حل میں بڑا فریق عملا کشمیری لوگ ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہونا ہے اس میں کشمیری قیادت کا فیصلہ اہم ہوگا اور ہمیں ان کو ساتھ ملا کر ہی بڑے فیصلوں کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پاکستان نے اگر یہ جنگ سیاسی اور سفارتی محاذ پر لڑنی ہے تو اسے پہلے اپنے داخلی مسائل کو کم کرنا ہوگا۔ خود کو کشمیریوں کی جدوجہد میں ایک بڑے سفیر کے طور پر خود کو پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے سفارت کاروں، سفیروں سمیت سفارت خانوں کو زیادہ متحرک اور فعال کرنا ہوگا۔ پاکستان کو کشمیر کی صورتحال پر ایک ایسا بیانیہ بھی ترتیب دینا ہوگا جو عالمی دنیا میں اپنی قبولیت منوا سکے۔ اس کا بنیادی نکتہ انسانی حقوق کی پامالی کا ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عالمی دنیا کی توجہ کا بڑا نکتہ انسانی حقوق کی پامالی ہوسکتا ہے۔ بھارت کا انسانی حقوق کی پامالی کا ریکارڈ مقبوضہ کشمیر میں شدید تنقید کی زد میں ہے اور ہمیں اسے اپنی حکمت عملی کا اہم حصہ بنانا ہوگا۔
اس وقت بھارت کے داخلی محاذ سے بھی ایسے فریق، ادارے اور انفرادی سطح پر لوگ سامنے آرہے ہیں جو مودی کی کشمیر پالیسی کی مخالفت کو بنیاد بنا کر ان پر سخت تنقید کررہے ہیں۔ ان میں مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارت نواز فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں اور سب اسی نکتہ پر زور دے رہے ہیں کہ مودی کی کشمیر پالیسی نے بھارت کو طاقت ور بنانے کی بجائے کمزور کردیا ہے۔ اس وقت بھارت میں موجود سابق سفارت کار، سابق فوجی افسران، دانشور، لکھاری، شاعر، ادیب، فن کار، صحافی سمیت ایک بڑا گروہ ہے جو سمجھتا ہے کہ موجودہ صورتحال سے ہمیں سپریم کورٹ ہی نکال سکتی ہے۔ ان کے بقول سپریم کورٹ کو ہی مودی حکومت کی کشمیر میں جاری بدترین پالیسی کو مسترد کرکے امن وسلامتی کا راستہ دینا ہوگا۔
یہاں عالمی بڑی طاقتوں کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ بھی کب تک بھارت کی کشمیر پالیسی کے دفاع میں کھڑا رہے گا یا اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرے مسئلہ کی شدت میں اور زیادہ اضافہ کرے گا۔ کیونکہ یہ عالمی طاقتیں ہی ہیں جو کشمیر کی پرامن سیاسی جدوجہد کو بنیاد بنا کر بھارت پر دباو بڑھاسکتی ہیں کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہوگا جو کشمیر سمیت تمام فریقین کے قابل قبول ہو۔ وگرنہ دوسری صورت میں جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے وہ مستقبل کی سیاست، امن اور ترقی کے لیے ممکن نہیں۔ کیونکہ ڈر یہ ہے کہ اس جنگ سے جو انتہا پسندی اور طاقت کے جس کھیل کو بڑھایا جارہا ہے اس سے محض مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے خطہ کی سیاست پر اس کے منفی اثرات نمودار ہونگے۔ ایسی صورتحال کی ذمہ داری جہاں بھارت کی آمرانہ پالیسی پر عائد ہوگی وہیں عالمی بڑی طاقتیں بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہونگی جو بھارتی جرائم پر کسی خاص ردعمل یا نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی جارحیت کو روکنے کے لیے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں