پنجاب کلچر ڈے اور ہماری ثقافت

Spread the love

کالم نگار:محمد شہزاد بھٹی
دنیا بھر میں ترقی یافتہ قوموں نے اپنی عوام میں مختلف چیزوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لئے سال میں کئی دنوں کو صرف اس لئے ہی مختص کیا ہوا ہے جیسے مدر ڈے، فادر ڈے، ٹیچر ڈے، کلچر ڈے، وائلنٹائن ڈے، ارتھ ڈے، کینسر ڈے وغیرہ ان ایام کو منا کر یہ قومیں اپنے اندر اس چیز کی اہمیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اب دنیا چونکہ ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور دنیا بھر میں بسنے افراد کی حرکات و سکنات پل بھر میں ہم تک پہنچ جاتی ہیں جن کو دیکھ کر ہمارے سماجی رویے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں، سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کلچر یا ثقافت ہے کیا؟ثقافت کسی بھی قوم کی پہچان اور تشخص کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ یہ رسم و رواج، رہن سہن، زبان، لباس، کھانے، موسیقی، رقص، فنونِ لطیفہ، مذہبی اعتقادات اور سماجی رویوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی میں ثقافت بنیادی کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ ہمیں اپنی روایات سے جوڑتی ہے اور ہمیں اپنی تاریخ کا شعور فراہم کرتی ہے۔ پنجاب میں ہر سال 14 مارچ کو “یومِ ثقافت” کے طور پر منایا جاتا ہے، جس میں پنجابی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے خصوصی تقریبات، میلے، گھڑ دوڑ، روایتی کھانوں اور موسیقی کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ مرد و خواتین پنجابی لباس جیسے پگڑی، دھوتی، شلوار قمیص اور پراندہ پہنتے ہیں اور بھنگڑا و گِدھا جیسے رقص پیش کیے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم نے اس دن کے موقع پر خاص کر سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں دیکھی یہ کسی طور پر بھی کلچر کو اس کی اصل روح کے مطابق پیش نہیں کر سکتیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے کئی رسم و رواج اور رویے پائے جاتے ہیں جو منفی ہوتے ہیں اور معاشرہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں جنہیں نئی نسل کے سامنے پیش کر کے ان میں منتقل کرنا انتہائی خطرناک اقدام ہے ہمیں ایسی چیزیں نئی نسل میں منتقل ہونے سے روکنی چاہیں اور جو چیزیں ان کیلئے مثبت اور سود مند ہوں ان کو اجاگر کرنا چاہیے لیکن ہر کام میں ہمارا رویہ “کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا” والا ہوتا ہے۔ کیا صرف سر پر پگڑی یا لُنگی باندھنا ہمارا کلچر ہے کہ ہر شخص نے اپنے سر پر پگڑی سجا کر یہ دن منایا اور اظہار کیا کہ یہ ہماری ثقافت ہے جبکہ دوسری طرف جذبات میں آ کر بغیر سوچے سمجھے معاشرے میں پائی جانے والی کئی ایسی برائیوں کو اجاگر کیا گیا جنہیں پھیلانے کی بجائے روکنا بہت ضروری ہے جیسے مرغوں کی لڑائی اور بندوق کلچر جس نے پہلے ہی اس قوم کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ مرغوں کے شوق کی وجہ سے نئی نسل سکول سے بھاگ رہی ہے جبکہ بندوق اور اسلحہ کی فروانی نے جتنا نقصان ہمیں پہنچایا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔ یہ ہماری ثقافت نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں موجود انتہائی خطرناک برائیاں ہیں جنہیں اجاگر کرنے کی بجائے ختم کرنے پر زور دینا چاہیے۔ پنجاب کی ثقافت تو مہمان نوازی ہے جو اسے دوسرے لوگوں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے، پنجاب کی ثقافت تو بڑوں کی عزت کرنا تھی کہ محفل میں کوئی بڑا داخل ہو جاتا تو سب کھڑے ہو جاتے، چارپائی پر اگر کوئی بزرگ بیٹھا ہوتا تو سرہاندی کی طرف چھوٹے کا بیٹھنا بھی منع تھا، والدین تو کُجا ہم ان کے دوستوں سے بھی ڈرتے تھے۔ ہمارا کلچر تو یہ تھا کہ اگر راستے میں کسی کی بہو، بیٹی آ رہی ہوتی تو لوگ نظریں نیچی کر کے وہ راستہ بھی چھوڑ دیتے۔ یقین جانئیے مجھے ان تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر بہت افسوس ہوا ہے جنہوں نے اپنے اداروں میں مثبت کی بجائے منفی کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے کیونکہ ہمارے بچے اور ہماری نئی نسل ایک کورے کاغذ کی مانند ہیں جس پر ہم جو بھی لکھیں گے کچھ دن بعد معاشرے میں اس کا عکس ہمیں دیکھنے کو ملے گا۔ ثقافت ہے ہی ایلیٹ اور پڑھے لکھے طبقے میں پائے جانے والے رویوں کا نام تو پھر جب ہمارا پڑھا لکھا طبقہ یہ پیغام دے گا تو پھر ہماری حالت کیسی ہو گی؟ یاد رہے، ثقافت کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتی ہے اس لیے پنجابی ثقافت کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے  ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ اللہ کریم ہم سب کی خیر فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں