پنجاب پولیس کا علی عمران بھی چلا گیا

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
علی عمران صرف ہمارے خاندان ہی کا سہارا نہیں تھا بلکہ وہ ہمارے پورے علاقے کا مان تھے۔ ہمارے پاس آکر دیکھیں سارا گاؤں افسردہ ہے۔ گاؤں کی دھرتی رو رہی ہے۔ سب کے لبوں پر ایک سوال ہے کہ علی عمران کا قصور کیا تھا کہ کہ اس کو اتنی بے رحمی سے کیوں مار دیا گیا وجہ کیا ہے
یہ الفاظ ہیں پنجاب پولیس کے نوجوان ملازم علی عمران کے چچا محمد حفیظ کے ہیں۔ کانسٹیبل علی عمران لاہور کے تھانہ شالیمار می ڈیوٹی کرتے تھے اور تحریک لبیک کے احتجاج کے دوران وہ جان کی بازی ہار گئے
علی عمران نے سوگواروں میں دو کم سن معصوم بیٹے، ایک بیٹی اور بیوہ چھوڑی ہیں۔
محمد حفیظ نے بتایا کہ علی عمران اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا ہونے کے علاوہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور ان سب کی کفالت کے بھی ذمہ دار تھے
محمد حفیظ کہتےہیں کہ علی عمران ان کے بھتیجے اور ان کی اہلیہ، ان کی بھانجی ہے۔ ’مجھے میری بھانجی نے بتایا ہے کہ جس رات علی عمران اللہ کو پیارے ہوئے وہ اتنہائی پرسرار اور بے چین رات تھی۔ دن کی ڈیوٹی کے بعد علی عمران خان کو چھ بجے واپس آگئے تھے‘
’ پھر رات کے وقت دوبارہ ڈیوٹی پر پہچنے کی کال آئی ۔ اس کے بعد پتا نہیں کیوں علی عمران پریشان ہو گئے تھے اور ان کی کیفیت کچھ الگ سی ہو گئی تھی۔ رات کے اس پہر ڈیوٹی پر جانے سے پہلے انہوں نے اپنے بچوں کو بہت پیار کیا نا بچے باپ کو جانے دے رہے تھے نا باپ جانا چاہ رہا تھا لیکن نوکری سے مجبور تھا
محمد حفیظ کا کہنا ہے کہ مجھے میری بھانجی نے بتایا ہے کہ ’میں نے پوچھا کہ علی کیا مسلہ ہے کیوں پریشاں ہیں؟ ؟ سب ٹھیک ہے نا؟ تو وہ جواب میں مجھے کنے لگے پتہ نہیں کیوں آج تم لوگوں سے دور جانے کو دل نہیں چاہ رہا نہیں مان رہا‘علی عمران نے پورے خاندان کے عید کے نئے کپڑے پہلے ہی سے تیار کروا لیے تھے
محمد حفیظ کہتےہیں ہیں کہ مجھے میری بھانجی نے بتایا ہے کہ علی عمران کا اصول یہ تھا کہ رمضان میں ڈیوٹی سخت ہوتی ہے۔ جس وجہ سے گھر، شاپنگ وغیرہ کو وقت نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے ہر سوال کی طرح اس سال بھی عید سے قبل ہی انھوں نے مجھے بازار لے جا کر عید کی ساری شاپنگ کر لی تھی۔
جس میں میں نہ صرف اپنے، بچوں کے کپڑوں کے علاوہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے کپڑوں اور عید کے لیے دیگر چیزیں بھی لے لیں تھیں‘
محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ علی عمران نے درزی کو کہہ دیا تھا کہ یکم رمضان کو ان کے تمام کپڑے تیار کر دے اور وہ ان کو لے جائیں گے۔ انھوں نے درزی کو تاکید کی تھی کہ یکم رمضان سے زیادہ تاخیر نہ ہو کیونکہ اس کے بعد شاید ان کے پاس وقت نہیں بچے
آج یکم رمضان ہے اور آج انھوں نے نئے کپڑے نہیں لیے بلکہ ان کا نئے کفن میں جنازہ اٹھا۔ اور وہ نئے کپڑے پہن کر منوں مٹی کے نیچے جا سوئے
محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ علی عمران جیسا کوئی بھی شخص ہمارے خاندان میں نہیں تھا۔ وہ بہت بھلا انسان تھا۔ اگر کوئی اس سے مدد مانگتا تو فوراً مدد کرنے کو تیار ہوتے تھے گاؤں میں اگر کسی کو کسی سرکاری دفتر میں مدد کی ضرورت ہوتی وہ ہر کسی کے لیے حاضر تھے
کئی دفعہ ایسے ہوتا تھا کہ اگر کوئی پیسے مانگتا تو اس کی جیب میں جو کچھ ہوتا تھا وہ نکال کر دے دیتا تھے۔
محمد حفیظ نے بتایا کہ علی عمران کے والد نے اپنی خون پسینہ کی کمائی سے علی عمران کو پڑھایا ان کے والد مزدوری کر کے بچوں کو پڑھانے رہے
ان کا کہا تھا کہ علی عمران کو بھی اپنے والد کی محنت کا پورا احساس تھا۔ اس کیے وہ پڑھائی میں بھرپور دل لگاتا اور جب وہ پولیس میں چلے گئے تو ان کے حالات کسی حد تک بہتر ہوئے۔ جس کے بعد اس نے اپنے والد کو بھی مزدوری سے منع کر دیا تھا۔
اب شایدکہ اس کے والد کو ایک بار پھر اپنے پتیم ہونے والے پوتوں کے علاوہ اپنی دوسری اولاد اور اپنی بیٹیوں کے لیے بوڑھے ہاتھوں سے دوبارہ محنت کرنی پڑھے گی۔ کیونکہ زندگی نے آگے چلنا ہے علی عمران کے بوڑھے والد ہر کم عمر پوتوں کا بوجھ ان پڑھا ہے
محمد حفیظ کا کہنا تھا ’میں بتاوں کہ علی عمران سچے عاشق رسول تھےآپ ایک بار نہیں کئی بار ایسا ہوا اگر کوئی شخص سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نعت شریف پڑھ رہا ہوتا تو علی عمران سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سرشار ہو کر اس نعت خواں کے ہاتھ تک چوم لیتے
علی عمران اکثر کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بنا ایمان مکمل نہیں ہوتا علی عمران کی سب سے بڑی خواہش بھی مدینہ شریف کی حاضری تھی اللہ تعالیٰ علی عمران کی آخرت کی منزلیں آسان فرمائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں