محمد طاھر شہزاد
آج کہیں ہمارے وزیر اعظم کے سعودی عرب کے کامیاب دورے کے چرچے سنائی دیتے ہیں تو کہیں سوشل میڈیا اور ٹاک شوز پر فطرانے اور چاولوں کے قصوں کی گونج تو کہیں قیدیوں کی آزادی کی کہانیاں ؟
مگر میں اس ساری بحث سے دور بہت دور دیکھنے کی کوشش کر رھا ھوں کہ شائید مجھے وہ کامیابیاں ھی نظر آجائیں جو ہمارے جرنیلز اور حکمرانوں نے اس دورے سے حاصل کی ہیں ۔ مگر مجھے تو دور دور تک صرف اپنی قوم کی بے بسی و لاچاری اور معصومیت کے اندھیروں میں صرف خون کے دھبے ھی دکھائی دے رھے ہیں ۔ پتہ نہیں یہ خون کے دھبے شام ، لبنان ، فلسطین ، یمن ، افغانستان یا کشمیری مسلمانوں کے خون کے ھونگے یا ؟
میں جب پیچھے مڑ کر تاریخ دیکھتا ھوں تومجھے صرف اس قوم کے خون اور اپنے حکمرانوں کے ضمیر کی خریدوفروخت کی کہانیاں ھی ملتی ہیں کامیابیوں کے روپ میں ؟ پتہ نہیں کیوں میرا دل مطمئن نظر نہیں آرھا اس کامیاب دورے کے ڈھول کی گونج پر ،۔ پتہ نہیں کیوں آج مجھے ایک انجانے خوف نے گھیرا ھوا ھے ،
پتہ نہیں آج کشمیر کی بیٹی کی عصمت کی قیمت وصول کی گئی ھے اس کامیاب دورے کے روپ میں یا فلسطین ، کشمیر ، یمن ، شام ، لبنان اور دیگر مسلمانوں کے خون کی ؟ مجھے تو صرف اتنا یاد ھے کہ یہ وہی سعودی حکمران تھے جو ہم سے کرائے پر فوجیں لیتے تھے اپنے ھی مسلمانوں کے خون بہانے کی قیمت پر 3 ارب ڈالر ھمارے اکاؤنٹس میں ڈلواتے اور تین سال کے لیے تیل ادھار دیتے نظر آئے اور پھر یہی سعودی حکمران ھی تھے جو ایک حکم عدولی پر ہمارے وزیر اعظم کو امریکہ سے واپسی پر اپنے فراہم کردہ طیارے سے دھکیلتے بھی نظر آئے اور اپنے 3 ارب ڈالرز اور ادھار تیل کی سہولیات ہماری شاہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر واپس وصول کرتے بھی نظر آئے ،۔
میری نظروں میں سعودی حکمرانوں کے کل کے پروٹوکول بھی گھوم رھے ہیں اور چند ماہ پہلے کی رسوائی بھی ،
آج ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں کو ویسے ہی پروٹوکول کا ملنا مجھے ایک بار پھر بہت بڑی قیمت کی پیشگوئی کرتے نظر آرھے ھیں ، یا شائید آج دنیا کو ہماری کمزوریوں کا پتہ چل گیا ھے کہ ہماری قوم کے حکمرانوں کے کشکول میں تھوڑی بھیک اور تھوڑا پروٹوکول کا تڑکا لگانے سے ان کے ضمیر ھی نہیں ان کی قوم کے خون ، عصمتوں اور عزتوں کا سودا بھی کیا جاسکتا ھے ،
آج ہمارے ملک کی موجودہ معیشت کی بدحالی میں اچانک ہمارےچیف آف آرمی سٹاف کا بجٹ سے پہلے سعودی دورہ اور پھر وزیر اعظم کو سعودی بادشاھوں سے پروٹوکول ملنا ، خانہ کعبہ کے دروازوں کا کھلنا پروٹوکول میں مجھے کوئی اچھی نوید سناتے نظر نہیں آرھے ، پتہ نہیں آج ہمارے حکمرانوں نے اپنے ضمیر اور قوم کے خون کی قیمت وصول کی ھے یا اپنے ملک کے ائیر بیسسز بیچ کر اپنی قوم کی غلامی کی یا یمن ، شام ، فلسطین کشمیر اور افغان اور دیگر مسلمانوں کے خون کی ؟
مشرف نے وردی میں ہمارے ائیر بیسسز اور اپنے ضمیر کو بیچ کر جو غلطی کی تھی اپنی وردی پر دھبہ لگانے کی اس کے بعد آنے والے جرنیلوں نے وہ غلطی نہیں دھرائی ، بلکہ ھر محاذ پر اپنے سامنے ایک بوری رکھ کر ھی گولی چلائی ، جبکہ آصف زرداری , نواز شریف اور اب خان صاحب جیسے اقتدار کے بھوکے سیاستدان ھی ہمیشہ وہ بوری بنتے رھے ، تبھی کبھی کسی لیڈر کو حقائق سے پردہ اٹھانے کی ہمت بھی نہیں ھوئی ، کیونکہ خریدوفروخت کی منڈیاں سجانے والے جو بھی ھوں مگر معاہدوں پر دستخط تو انہی حکمرانوں کے ثبوت ہیں قوم کے خون اور اپنے ضمیر کی قیمت وصول کرنے کے ؟
مجھے نہیں لگتا کہ صرف فطرانے اور چاولوں کے لیے ہمارے چیف صاحب اور وزیر اعظم پوری پلاٹون کے ساتھ سعودی عرب گئے ھونگے جبکہ ایک ماہ بعد ھمارا بجٹ بھی آنے والا ھو اور ہمارے پاس اس بجٹ کی تیاری بھی نہ ھو اور تبھی اچانک سعودی حکمرانوں کے پروٹوکول بہت خوفناک منظر پیش کرتے نظر آرھے ھیں ۔ میں نے تو پچھلے 73 سالوں میں یہی دیکھا ھے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کر کے اپنی غلطیوں کو سدھارنے اور اپنی اصلاح کی بجائے مزید غلطیاں ھی دھراتے نظر آئے ہیں ۔ اور آج بھی شائید ہم یہی تاریخ ھی دھراتے نظر آرھے ہیں سعودی دورے کی کامیابی کے جشن کی صورت میں ، کبھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کی بجائے آئی ایم ایف سے سخت ترین شرائط پر قرضے لے کر کے اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی اپنی افواج اپنے ضمیر اپنی قوم کے خون کو بیچ کر اپنی ناکامیوں یا غلطیوں کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔ شائید آج ایک بار پھر ہم سعودی عرب سے تیل بھی ادھار لینے میں کامیاب ھو جائیں اور واپس کیے گئے دو ارب ڈالرز بھی ہمیں واپس ایک بار پھر مل ہی جائیں یا شائید اس سے بھی ذیادہ بھیک لینے میں کامیاب ھو جائیں ، اور شائید ہم ایک بار پھر اپنے ضمیر اپنے خون اپنی غلامی اپنی ماؤں بیٹیوں بہنوں کی عصمتوں کی اتنی بڑی قیمت میں ایک دو سال مزید گزار بھی لیں تو کیا ہم نے سوچا کہ کب تک ہم اپنی قوم اپنے ضمیر کو بیچتے رہیں گے صرف اپنی چند ماہ یا چند سالوں کی مزید سروائول کے لیے ، آخر ایک وقت آئے گا جب خون بھی نہیں بچے گا بیچنے کے لیے اس قوم کی رگوں میں اور تب خریداروں کے پاس بھی خریدنے کے لیے کچھ نہیں ھوگا اور بیچنے والوں کے پاس بھی لاشوں کے سوا کچھ کچھ باقی نہیں بچے گا بیچنے کے لیے ۔ جبکہ لاشوں کا مقدر تو صرف قبریں ھی ھوتی ہیں پر آسائش محل نہیں ۔ ہمیں آج بھی سوچنا چاہیے اپنے کردار کی اصلاح کے لیے ؟
کہیں ایسا نہ ھو کہ بہت دیر ھو جائے ،
اور تب تک ہمارا یہ پیارا ملک کہیں قبرستان میں ھی نہ بدل جائے ،
ذراا سوچئیے ؟