کے پی میں عدم ثبوت کی بناء پر دہشتگردی کے 66 فیصد ملزمان عدالتوں سے بری ہوگئے

Spread the love

پراسیکیوشن ایکٹ 2005 کے بعد نئے نظام کے تحت ملزمان سے جلد اعتراف جرم کرانا مشکل ہوتا ہے۔سی سی پی او اعجاز خان

پشاور(نمائندہ وصال احمد)اردو گلوبل میڈیا یورپ کے مطابق خیبرپختونخوا میں رواں سال دہشتگردی کے مقدمات میں 66 فیصد ملزمان ثبوت نہ ہونے پر عدالتوں سے بری ہوگئے۔دہشتگردی کا شکار رہنے والے صوبہ خیبرپختونخوا میں رواں سال 9 ماہ کے دوران دہشتگردی کے مقدمات میں ملوث صرف 34 فیصد ملزمان کو ہی سزا مل سکی۔صوبے میں انسداد دہشتگردی کی 13 عدالتوں نے 143 مقدمات نمٹائے، 48 مقدمات میں ملزمان کو سزائیں ہوئیں جبکہ 63 مقدمات میں ملزمان شک کی بنیاد پر اور 27 مقدمات میں عدم ثبوت پر بری ہوئے۔ڈی جی پراسیکیوشن خیبرپختونخوا مختیار احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال دہشتگردی میں ملوث ملزمان کو سزاؤں کی شرح صرف 19 فیصد تھی جبکہ رواں سال دہشتگردی میں ملوث کسی ملزم کو سزائے موت نہ ہوئی صرف 3 ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔انہوں نے پراسیکوٹرز کی کم تعداد، مناسب تربیت کے فقدان اور کمزور تفتیشی نظام کو بڑی تعداد میں ملزمان کے بری ہونے کی اہم وجہ قرار دیا۔رواں سال اب تک سیشن کورٹس سے 5 ہزار 57 مقدمات میں ملوث ملزمان کو سزا ہوئی اور یوں شرح 42 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال ملزمان کو سزاؤں کی شرح 34 فیصد تھی۔سی سی پی او اعجاز خان کے مطابق پراسیکیوشن ایکٹ 2005 کے بعد نئے نظام کے تحت ملزمان سے جلد اعتراف جرم کرانا مشکل ہوتا ہےپراسیکیوشن حکام کے مطابق مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے 17 دن کے اندر چالان جمع کرانے سمیت تفتیشی پولیس افسر اور پراسیکیوشن میں کو آرڈی نیشن کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے پر بھی غور ہو رہا ہے۔ماہرین قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں ملزمان کو سزاؤں کی شرح بڑھانے کیلئے پولیس اور پراسیکیوشن کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، جس سے جرائم کی کمی میں بھی مدد مل سکے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں