شان رحمت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Spread the love

ربیع الاول کا مہینہ ھے اس ماہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خاص نسبت ھے، اس مہینے کی 12 تاریخ آپکی تاریخ وصال ھے اور یہی آپکی تاریخ ولادت بھی اسی نسبت سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منایا جاتا ہے.اور ربیع الاول کے ان ابتدائی ایام میں سیرت کی محافل منعقد ھوتی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلند مرتبت اور عظیم و شان شخصیت کی عظمت کے پہلوؤں پر گفتگو ھوتی ھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مناقب کا تذکرہ ھوتا ھے بلاشبہ ہر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر مسلمان عقیدت و محبت اور جذباتی وابستگی رکھتا ھے۔ ہم بس یہی کہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اس کائنات میں سب سے قابل احترام ہستی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے بعض پہلوؤں کا ذکر کیا ان میں سے ایک آپکی شان رحمت ھے۔ جسکا تذکرہ سورتہ الانبیاء میں کیا گیا ھے، فرمایا،،ترجمہ : (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے اپکو بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر ( الانبیاء 107 ) آپکی ذات گرامی کس کس پہلو سے رحمت ھے ہم کلیتہً اسکی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے بہرحال یہ تو واضح ھے کہ اپکی ذات آپکا پیغام ھدایت اور آپکا عطا کردہ دین و نظام عدل اجتماعی پوری نوع انسان کے لیے رحمت کا سامان ھے۔ سورتہ الاعراف کی آیت 156-157 میں پوری نوع انسانی کے لئیے بلکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے آپکی رحمت کے بعض پہلوؤں کو نمایاں کیا گیا ھے ، اس سے پہلے بنی اسرائیل کے استغفار کا زکر ھے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات کی الواح اور شریعت پانے کی غرض سے کوہ طور پر گئے تو آپکے پیچھے قوم نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی۔ جو ایک بہت بڑا جرم تھا اور اس جرم پر قوم کو سخت سزا دی گئی اور سزا یہ تھی کہ جس جس نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا انہی کے عزیزوں رشتے داروں نے انہیں قتل کیا اس سزا کے بعد اجتماعی استغفار کے لئیے قوم کے ستر افراد کو لیکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تشریف لے گئے وہاں اللہ پاک سے استغفار کی اللہ ربّ العزت نے جواب میں فرمایا، ترجمہ: جو میرا عذاب ھے اسے تو جس مجرم پر چاہتا ھو نازل کرتا ھو ۔اور جو میری رحمت ھے وہ ہر چیز کو شامل ھے مطلب کہ اللہ کی رحمت اپنی جگہ اور جنہوں نے اپنے اپکو خود ہی عذاب الہی کا مستحق بنایا ھے وہ اسکے عذاب سے بچ نہیں سکتے دوسرے لفظوں میں اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ او مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔ او میرا دامن رحمت تھام لو اب اگر کوئی خود ہی اسکی طرف رجوع نا کرے تو تو اسی قسم کی بات ھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر مرمائی، ہر بندہ مومن جنت میں داخل ھو گا سوائے اسکے جو خود ہی انکار کر دے ۔ تو صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون ھوگا جو جنت میں جانے سے انکار کرے گا تو آپ نے فرمایا، جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو وہ گویا ایسے ہی ھے جیسے خود ہی اس نے جنت میں جانے سے انکار کر دیا ، مفسرین کا کہنا ھے ھے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت ھے اور ایک عام اور یہاں رحمت خاص کا ذکر ھو رہا ھے اسکے مستحق وہ لوگ ھونگے جو تقوی اختیار کریں گے زکوٰۃ دیں گے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھیں گے اور اللہ کی تمام آیات پر ایمان لائیں گے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت العالمینی ویسے تو عام ھے لیکن رحمت خاص انکے لئیے ھے جو آپ پر ایمان لانے والے ہیں یعنی اگر کوئی پہلے سے یہودی یا عیسائی تھا مگر اس دور میں پیدا ھوا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا دور تھا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے گا آپکی اتباع کرے گا تو ہی اللہ پاک کی رحمت کا مستحق ٹھہرائے گا، اللہ پاک ہم سب کو سچی توبہ نصیب فرمائے اور عملاً نیک کام کرنے کی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے مسلمانوں پر اور پاکستان پر اپنا خاص رحم و کرم فرمائے۔الہی آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں