خان صاحب چاہتے کیا ہیں

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
وزیراعظم عمران خان کے بارے میں لکھنے سے پہلے بہت سوچنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی سیاسی سوچ اور انتظامی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ کہنا بہت مشکل کام ہے۔ پاکستان میں سیاست کرنا اور کامیاب ہونا اس سے بھی مشکل ہے۔ چاروں صوبوں کی تہذیب و تمدن، رہن سہن، کلچر، زبان اور محل و قوع بالکل ایک دوسرے سے الگ ہیں زمینی حقائق بہت مختلف اور تاریخ بھی ایک علیحدہ مقام رکھتی ہے۔ بھٹو مرحوم کی پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام سے پہلے سیاسی سماجی اور معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا تھا۔ ملک پر بائیس خاندانوں کی حکومت اور ایوب خان کی زیر سرپرستی کنونشن لیگ، دولتانہ کی کونسل لیگ، قیوم لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام ملک کو ایک مشترکہ مضبوط سیاسی نظام دینے میں ناکام تھیں اور قوم کی نظریں ایک نجات دہندہ کو تلاش کر رہی تھیں اور وہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں قوم کو مل گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پانچ سالوں میں بھٹو مرحوم قائد عوام بن گئے۔ ہر طرف بھٹو آوے ہی آوے کے ملک شگاف نعرتے سنائ دیتے تھے۔ ایوب خان کی حکومت اور ان کی باقیات بمعہ تمام سیاسی پارٹیوں کے ذوالفقار علی بھٹو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے۔ وزیر خارجہ کے روپ میں ایک مضبوط اور قد آور سیاسی شخصیت جس نے اقوام متحدہ کے ایوانوں میں کشمیر اور پاکستان کے موضوع پراپنی انگریزی زبان اور بہادری کی دھاک بٹھا دی اور مغربی پاکستان کی کم از کم دو صوبوں پنجاب اور سندھ یہاں ان کی جماعت نے صفایا کر دیا۔ لیکن بھٹو صاحب جس تیزی سے پاکستان کے مقبول ترین لیڈر بنے اسی تیزی سے ان کا زوال ہوا اوران کو جنرل ضیاء الحق نے ایک بین الاقوامی سازش کے ذریعے ختم کر دیا اور پاکستان بھٹو کے بعد وہ پاکستان نہ رہا اورملک میں کرپشن، فرقہ واریت، دہشت گردی اور اخلاقی بے راہراوی، سیاسی و اقتصادی نظام کی بد حالی اور بیور کریسی کے اَن گنت نشانات چھوڑ گیا۔ ضیاء الحق کے بعد نام نہاد جمہوری اودار میں پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے دبتا گیا اور نواز شریف ضیاء الحق کے وارث کے روپ میں بھٹوکی کی بیٹی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑا ہو گیا۔ آصف زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی کے نتیجے میں سیاسی ساکھ بہت متاثر ہوئی اور بینظیر بھٹو کی نوجوان سیاست نا پختہ ناتجرکاری ان کے زوال کا باعث بن گئی۔ اس وقت کی اسٹبلشمنٹ نے نواز شریف کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا۔ نواز شریف استعمال ہوتے رہے اور اپنی تمام تر توانائیاں پیپلزپارٹی کو ختم کرنے میں لگاتے رہے۔ اب ملک کی دو پارٹیاں پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل ن اس ملک کی سیاہ و سفید کی مالک بن گئیں اور ملک کو لوٹنے اورگھسوٹنے کا ایک طویل سیاہ باب شروع ہوا کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقع رونما ہو گیا۔ پاکستان 1992 ء میں ورلڈ کپ کا بادشاہ بن گیا اور اس کامیابی نے عمران خان کو پاکستانی عوام کے اور نزدیک کر دیا۔ وہ ایک پرکشش شخصیت کا جوان جس کی صبح و شام پر تفصیلی کہانیاں عوام کی مرکز و محور بن گئیں۔ عمران خان جب گیند لے کر دوڑتے ہوئے بھارتی سورما بلے بازوں کی طرف دوڑتے تھے تو پورا اسٹیڈیم کان پھاڑ دینے والے شور سے گونجھتا تھا۔ جب وہ وکٹ اڑاتے تھے تو پاکستان کا ہر شہری ٹیلی ویژن کی اسکرین سے جڑا جوش سے نعرے لگا رہا ہوتا تھا۔ ان کی سیاست میں انٹری اتنی کامیاب نہیں تھی۔ شوکت خاتم ہسپتال کے قیام کے لئے نواز شریف سے امداد لی۔ جمائما سے شادی کر کے پوری دنیا میں اپنی شناخت بنائی۔ سیاسی خاندان کی پارٹیوں میں شرکت اور مشہور زمانہ ماڈل گرل اوردیگر اہم شخصیات جس میں لیڈی ڈیانہ سب سے نمایاں تھیں پاکستان میں تشریف لائیں۔ سیاست میں شریف شرمیلے کرکٹر کی عزت کو میڈیا میں نواز شریف نے خوب اچھالا۔ جمائما سے علیحدگی اختیار کی اور جم کر وکٹ کر کھیلتے ہوئے نواز شریف اور بینظیر کے معاملے میں ڈٹ گئے۔ عمران خان میں ایک خوبی ہر صورت بہت نمایاں تھی کہ وہ کسی کے سامنے دبنے والے نہیں تھے۔ جب ان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں تو ان کے ارادے اور عزم میں اور طاقت آتی گئی اور یہی ایک خوبی ان کو اوپر تک لے گئی جس کے دشمن بھی معترف ہیں۔ عمران خان پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس وقت نمودار ہوئے جب ایک بیانیہ بہت زور پکڑ رہا تھا کہ کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے؟ کیا پاکستان ترقی کی پرواز کر سکتا ہے کیونکہ ایک ایسی سوسائٹی اورایسا معاشرہ جہاں سیاست دروغ گوئی کا نام تھا جہاں دہشت گردی نے پاکستان کے سماجی، سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو بالکل مفلوج کر کے رکھ دیا تھا۔ جس کے بارے میں بین الاقوامی تجزیہ نگار مایوس کن تصویر کشی کر رہے تھے۔ بقول بیل کیلر جو کہ نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹر تھے کہ پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جس میں دوغلے اسٹینڈرڈز وسوسے اور خوفناک اشتعال انگیز ماحول کا راج ہے۔ عمران خان ایک تیسری قوت کے طور پر انٹری ڈالنے والے تھے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز شریف پاکستانی سیاست میں پنجے گاڑ چکے تھے وہاں کپتان کی انٹری حالات کا منطقی تقاضا تھا۔ دونوں جماعتیں بینظیر اورنواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت کی صورت میں باریاں لینے کی ٹھان چکے تھے۔ الیکشن مہم میں نواز شریف گلا پھاڑ پھاڑ کر زرداری کی کرپشن کی دھایاں دے رہے تھے مگر یہ سب کچھ سوچا سمجھا ڈرامہ تھا جو ملک کے سامنے سجایا گیا۔ شہباز شریف زرداری کو بازاروں اور گلیوں میں گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹنے کی باتیں کر رہے تھے۔ جب کہ زرداری نواز شریف کا جلسوں میں کچا چھٹا کھول رہے تھے۔ ان کے نواز شریف فیملی کی کرپشن پر بہت گھٹیے قسم کے جملے تھے۔ مگر جب ان دونوں جماعتوں کی باریاں آئیں تو میثاق جمہوریت نے ان کے ہاتھ باندھ دئیے اور وہ دعوے جو جلسے جلوسوں میں کئے گئے ان پر رتی بھر عمل درآمد نہ ہوا۔ گویا من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بلوگو کے مصداق کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تھی۔ ملکی اسٹبلشمنٹ بھی اس صورتحال سے پریشان تھی کہ آخر اس ملک کا کیا بنے گا۔ کیا لوٹ مار کرپشن منی لانڈرنگ اسی طرح جاری رہے گی۔ عین اس وقت عمران خان نے ہتھوڑا سیاست کا استعمال کیا اور پوری قوت سے ان دونوں پارٹیوں کی ملی بھگت لوٹ مار کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا اور پنکچروں کی سیاست سے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مطالبے طویل دھرنے، پارلیمنٹ کا گھیرائو ان کے مخالفوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن گیا۔ نواز شریف تین وقت کے وزیراعظم پارلیمنٹ کی عمارت تک محدود ہو کر رہ گئے اور وہاں بھی انہیں اعتزاز احسن کی جلی کٹی باتیں اور فقرے سننے کو ملے۔ ہمارے سیاستدانوں کی بدقسمتی یہ رہی کہ جب وہ اقتدار سے باہر جلسے جلوس کرتے ہیں تو غریب عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھاتے ہیں اور میڈیا ان کا اس دوغلی سیاست میں خاص رفیق کار بن جاتا ہے۔ بڑے بڑے صحافی، جرنلسٹ، اینکر پرسن سیاستدانوں سے بھٹے وصول کرتے۔ ملیں باہر کی دنیا کی سیر ہوٹلوں کے مزے اور تحفے تحائف لے کر ان کو زندہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا جب یہ بحران کا شکار ہوتے ہیں تو پھر عوام ان کے لئے سڑکوں پر آنا گوارا نہیں کرتی۔ کیونکہ جب یہ گلے پھاڑ پھاڑ کر عوام کو بیوقوف بناتے ہیں اور اقتدار کی منزل پا لیتے ہیں تو پھر مڑ کر اس غریب عام کی طرف نہیں دیکھتے۔ لہٰذا کوئی پھانسی چڑھ جاتا ہے کوئی ملک بدر کر دیا جاتا ہے کوئی خودساختہ جلاوطنی پر مجبور ہو جاتا ہے اوریہ خودساختہ لیڈر اپنے بڑے بڑے محلوں میں جو یہ منی لانڈرنگ اور کرپشن کی کمائی سے تعمیر کرتے ہیں وہاں جا کر اپنی اولادوں کے ساتھ عیش اڑاتے ہیں۔ عمران خان اس وقت جو سیاست کر رہے ہیں اس کی سمجھ نہ تو ان کے مصاحبین یعنی کیبنٹ کے وزراء کو آ رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو کیونکہ وہ کئی مرتبہ عمران خان کو تعاون کی پیشکش کر چکے تا کہ خان صاحب ان کے خلاف نیب اور کرپشن کے مقدمات سے دستبردار ہوجائیں ۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود اور ہمارے سیاسی دانشواروں کے تجزیوں کے باوجود اپوزیشن کو اپنے ساتھ لے کر چلنے پرآمادوہ نہیں ہیں۔ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس بھی نہیں طلب کرتے جس کی گنجائش آئین میں رکھی گئی ہے اورنہ پارلیمنٹ میں معیشت پر بحث ہو پائی۔ کرونا وائرس کی وبا پر بحث کرنا پسند نہیں کرتے۔ اپوزیشن ان کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہے کہ آخر خان صاحب چاہتے کیا ہیں۔ کبھی نیب نیازی کٹھ جوڑ کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور کبھی ناقص گورننس کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ کبھی معیشت کی تباہی کا واحد ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ مگر شاید خان صاحب واشگاف الفاظ میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ جو کچھ بھی کہہ لیں کر لیں میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ سیاسی شراکت داری نہیں کروں گا، چاہے اس کی مجھے بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آب خان صاحب نے معاشی میدان میں بھی رنز بنانے شروع کر دئے اور صعنت بحالی میں بھی عمران حکومت قابل تحسین کام کر رہی ہے خان صاحب شاید اپوزیشن کے ساتھ بھی بات کرنے کو تیار بہیں لیکن کرپشن کیسز ہر نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں