ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں

Spread the love

رشید احمد چغتائی
ظلم اور امن دو ایسے متضاد عناصر ہیں جو کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ظلم کا مطلب ہے ظلم و ستم، جبر و تشدد اور ناانصافی، جب کہ امن کا مطلب ہے سکون، سلامتی اور انصاف۔ جب ایک معاشرے میں ظلم بڑھ جاتا ہے، تو وہاں امن کا قیام ممکن نہیں رہتا۔ ظلم اور امن کی ہم آہنگی ایک ناممکن خواب ہے جسے حقیقت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

ظلم کا مطلب اور اس کے اثرات
ظلم کا مطلب ہے کسی فرد یا گروہ کے حقوق کو پامال کرنا، ان پر زیادتی کرنا اور انہیں انصاف سے محروم رکھنا۔ ظلم کی صورت میں معاشرتی بدامنی بڑھ جاتی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں خوف اور عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ ظالم کے دل میں برتری کا غرور اور مظلوم کے دل میں بغاوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیفیت معاشرے میں فساد اور تشدد کو جنم دیتی ہے۔
*امن کا مطلب اور اس کی اہمیت
*
امن کا مطلب ہے سکون، سلامتی اور انصاف کا قیام۔ امن کی موجودگی میں معاشرہ ترقی کرتا ہے، لوگوں کے دلوں میں محبت اور بھائی چارہ بڑھتا ہے۔ امن کی فضا میں لوگ اپنی زندگی کو سکون سے گزار سکتے ہیں، اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتے ہیں اور انصاف کی امید رکھ سکتے ہیں۔
ظلم اور امن کا تضاد

ظلم اور امن ایک ساتھ نہیں چل سکتے کیونکہ دونوں کی بنیادیں ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ جب ظلم ہوتا ہے، تو امن کا قیام ممکن نہیں رہتا۔ ظلم کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں خوف اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ وہ انصاف کی طلب میں بغاوت کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے معاشرتی بدامنی اور تشدد بڑھتا ہے۔

امن کی ضرورت اور ظلم کا خاتمہ
اگر ہم امن کا قیام چاہتے ہیں تو ہمیں ظلم کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ظلم کے خاتمے کے بغیر امن کا خواب دیکھنا محض ایک فریب ہے۔ ہمیں انصاف، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے اور ہر فرد اپنی زندگی کو سکون اور سلامتی کے ساتھ گزار سکے۔
ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں۔ یہ ایک نا قابلِ عمل خیال ہے جو کبھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم ایک پرامن اور ترقی یافتہ معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں تو ہمیں ظلم اور ناانصافی کے خلاف لڑنا ہوگا اور ہر فرد کو اس کے حقوق فراہم کرنے ہوں گے۔ امن کی حقیقی معنوں میں موجودگی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ظلم اور جبر کا خاتمہ ہو۔
رشید احمد چغتائی

ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں
ہاتھ بھی جوڑے جائیں اور خنجر بھی ہوں سینے کے قریب
پھول بھی کھلیں، کلیاں بھی مہکیں، یہ کیسے ہو؟
دل میں نفرت، زبان پر محبت، یہ کیسا فریب؟

روشنی ہو، اندھیرا بھی ہو، کیسے جییں گے؟
سچ کہے بھی، جھوٹ بھی بولے، کیسے جئیں گے؟
پیار کریں بھی، نفرت بھی پالیں، یہ کیسے ہو؟
چاہت کی باتیں، دشمنی کے ارادے، یہ کیسا خواب؟

زندگی چاہے امن کی، پیار کی، خوشبو کی بات
ظلم و ستم کے سائے میں، یہ کیسے ہو؟
روشنی کی طلب ہو، دل میں اندھیروں کا ڈر
حق کی خواہش، جھوٹ کے سائے، یہ کیسا سفر؟

ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں
امن کی خواہش، ظلم کی راہیں، یہ کیسا جنوں؟
محبت کی زبان، نفرت کا دل، یہ کیسا جادو؟
ظلم رہے اور امن بھی ہو، یہ ممکن نہیں۔
رشید احمد چغتائی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں