تحریر ! مظہر اقبال چودھری
جہلم کی سیاست کا ایک عہد تمام ہوا۔پینتیس سالوں پر محیط اس عہد کے تمام واقعات کا مرکز ایک ہی ذات رہی، جس کا نام راجہ محمد افضل خان تھا۔ انیس سو پچاسی میں ا ٓپ نے جب جہلم کی مرکزی سیاست میں قدم رکھا تو اس وقت جہلم کے دو بڑے سیاسی خانوادے لدھڑ کے چودھری الطاف حسین ایڈوکیٹ اور داراپور کے نواب اقبال مہدی اپنے اپنے خاندان کی سیاسی وراثت کی پوری طاقت کے ساتھ موجود تھے۔راجہ محمد افضل کا دامن اس طاقت اور جلال سے بالکل خالی تھا۔ جنرل ضیا الحق کا دور تھا جو ذولفقار علی بھٹو شہید کا تختہ اکھاڑنے اور بعد ازاں سزائے موت دینے کے بعد وطن عزیز کے بلائے شرکت غیرے مالک تھے۔مرحوم چودھری الطاف حسین جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ (اس وقت کی مختصر پارلیمنٹ یا ایک طرح سے کابینہ بھی کہہ سکتے ہیں)کے رکن کی حیثیت سے اپنی ایک قومی سطح کی پہچان بنا چکے تھے اور مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے ان کی اعلیٰ سیاسی اور قانونی بصیرت کا ایک زمانہ معترف تھا۔پنجاب کی سیاست میں ایک گورا چٹا شہری بابو نواز شریف نامی شخص بھی نمایاں ہو رہا تھا۔پنجاب کی سیاست پر گذشتہ کئی دہائیوں سے جاگیر داروں،فیوڈل لارڈز اور بڑی بڑی دیہی برادریوں کا قبضہ تھا۔جس طرح لاہور کا شہری بابو روایتی جاگیردارانہ سیاست کو پچھاڑتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا بالکل اسی طرح راجہ محمد افضل بھی اپنے ایک شہری پس منظر کے ساتھ جہلم کی روایتی دیہی برادری کے مسلمہ لیڈر چودھری محم الطاف حسین(جو اس وقت جنرل ضیاالحق کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے)سے پچاسی کا غیر جماعتی الیکشن جیت گئے۔ گو اس سے قبل ڈاکٹر غلام حسین، خان عبدالغفار خان اور ملک محمد قیوم بھی اپنی تمام تر تہی دامنی کے باوجود جہلم کے روایتی سیاسی خاندانوں کو شکست دے چکے تھے۔لیکن ان صاحبان کی فتح میں ان کی پارٹی پی پی پی کی مقبولیت کا اہم کردار تھا۔ لیکن راجہ محمد افضل ایک غیر جماعتی انتخاب کے ذریعے آگے آئے اور ان کی پشت پر کوئی بڑی مقبول سیاسی پارٹی نہیں تھی۔بڑی خاندانی سیاسی وراثت اوراعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے باوجود جیت جانا ایک خوش بختی کی علامت تو ضرور تھی مگر جہلم کی سیاست پر قبضہ برقرار رکھنا بھی کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔جبکہ ان کے مد مقابل چودھری الطاف حسین ایک نامور قانون دان،بڑے سیاسی دھڑے اور قومی سطح کی پہچان کے حامل تھے۔مگر آپ نے سن دو ہزار آٹھ تک بڑی کامیابی کے ساتھ تقریباً تئیس سال تک جہلم کی سیاست کو اپنی گرفت میں رکھا۔۔اور اس دوران اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی الیکشن جیتے( جن میں ان کے صاحبزادے راجہ محمد اسد اور راجہ محمد صفدر ممبر قومی اسمبلی بنے)۔اور ببانگ دہل اینٹی اسٹیبلشمنٹ کردار ادا کیا۔۔۔۔۔وہ کس طرح جہلم کی سیاست میں ایک طویل عرصے تک فتح مند رہے ۔؟ دس سال قبل ایک انٹرویو کے دوران میرے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا۔۔۔جہلم کی عوام کی محرومیاں پاکستان کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت کافی کم ہیں۔عوام کی اکثریت کا فوج میں ملازمت کرنا اور بیرون ملک چلے جانا ان کی معاشی مشکلات میں کمی کا ایک اہم سبب ہے۔جس سے وہ معاشی طور پر آسودہ ہو چکے ہیں اب ضرورت اس امر کی تھی کہ ان کے علاقے میں سڑک، سکول اور ہسپتال کی سہولت موجود ہو چنانچہ میں نے اس طرف پوری توجہ دی اور میرے دور میں تقریباً ہر یونین کونسل میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔علاوہ ازیں جب کوئی طبقہ معاشی طور پر آزاد ہو جائے تو اپنی عزت نفس کا اسے بڑا خیال ہوتا ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی کوشش کی کہ میرے ہاتھوں کسی کی عزت نفس پامال نہ ہو۔۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے گاوں اور محلے کے چودھریوں، راجوں اور ملکوں کے ستائے ہوئے لوگ میرے بیڈ روم میں تمیں بیٹھے ہوئے ملیں گے۔ مجھے انتخاب جیتنے کے لئے چودھری، راجے اور ملک کی ضروت پڑتی ہے وہ میرے سیاسی حلیف ضرور ہیں مگر میری دوستی کمزور اور مظلوم افراد سے رہی۔۔۔۔!
بطور صحافی میں بھی راجہ صاحب مرحوم کے اس دعوے کی گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ عام بے یارو مددگار شخص کو ذاتی طور پر بھی جانتے تھے اور ان کے مسائل کو اولین بنیادوں پر حل کرتے تھے۔جو بھی ان کے پاس کسی کام کی داد فریاد لے کر گیا وہ نہیں پوچھتے تھے کہ تم کون ہو،،، کس کے کچھ لگتے ہو،،، یا ووٹر کس کے ہو ؟ مرحوم عارف کھڑی میاں محمد بخش کے کلام کے بڑے شیدائی تھے اور کھڑی شریف میں حاضری ان کی زندگی بھر کا معمول رہا۔سیف الملوک سن کران پر ایک طرح کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔۔غالباً اسی کلام کی بدولت ان کی شخصیت میں درویشی کا رنگ بھی غالب تھا۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اتنا عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود کسی بڑی جائیداد یا مال و دولت کے مالک نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔آپ ایک کامیاب زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوئے۔
