نواز شریف اور سیاست کی نٸی چالیں

Spread the love

۔ رخت سفر/بشارت کھوکھر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ 1990 کی دہائی کی سیاست واپس لوٹ آئی ہے ، جب سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں اور استعمال کرتے اور برے الزامات لگاتے تھے، لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو اب بات سیاسی الزامات سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، سیاست کے لیے ریاست کے مفادات بھی داؤ پر لگائے جارہے ہیں۔ سابق سپیکر ایاز صادق اتنے سلجھے ہوئے کبھی نہیں تھے، بطور سپیکر بھی ان کا کردار مثالی نہیں تھا، لیکن اپوزیشن سیاست میں وہ پی ڈی ایم کے قیام کے بعد متحرک ہوئے۔ شہباز شریف کی از خود گرفتاری پر ایاز صادق کا بیان بھی کسی قومی پارٹی کے لیڈر کا بیان نہیں تھا، لیکن قومی اسمبلی میں انہوں نے جو بیان دیا ہے، وہ کسی طور سنجیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کو بزدل کہنے کے لیے کئی جواز ہو سکتے ہیں، لیکن ایک ایسے معاملے میں جہاں پاکستان کی مسلح افواج، بالخصوص فضائیہ نے بہادری سے بھارت کو اعلانیہ مات دی تھی، اس پر بزدلی کا طعنہ دینا تو صرف بھارت کو ہی خوش کر سکتا ہے۔ ایسا بیان تو بھارتی سیاستدانوں نے بھی نہیں دیا تھا، اور اب اس بیان پر مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم میں بھی تحفظات ظاہر ہورہے ہیں۔ دوسری طرف حکومتی وزراء بھی اس پر ردعمل دیتے ہوئے قومی مفادات کو نظر انداز کر رہے ہیں، اگر حکومت میں کسی سطح پر اپوزیشن رہنماؤں پر غداری کے مقدمات بنانے پر غور ہو رہا ہے، تو یہ بھی کسی طور عقلمندی کا تقاضہ نہیں ہے ، اس سے مزید عدم برداشت پھیلنے کا خطرہ ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے سیاسی جواب ہی درست فیصلہ ہوگا۔ میاں نواز شریف جس طرح اچانک متحرک ہوئے ہیں اور اپنی سیاست کے سارے پتے کھیلنے پر تیار ہیں، اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ مایوسی کی آخری حد تک پہنچ چکے ہیں، ان کا سارا خاندان عدالتوں کو مطلوب اور مفرور ہے، صرف بیٹی ملک میں ہے وہ بھی سزا یافتہ ہے۔ اب ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں، البتہ بچانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ جس کے لیے وہ ہر طریقہ آزما رہے ہیں۔ چھ ماہ پہلے تک وہ کسی نہ کسی طرف سے مفاہمت کی امید کر رہے تھے، اس لئے آرمی چیف کی مدت بڑھانے کے لیے آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ دیا، لیکن ان کی توقعات پوری نہیں ہوئی تو وہ “باغی” بن گئے، لیکن یہ بات وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اب 1990 نہیں اور نہ ہی جوڑ توڑ آسان ہے۔ اس حوالے سے ان کو پہلی مایوسی اس وقت ہوئی تھی جب وہ خود وزیراعظم تھے اور پانامہ لیکس کامعاملہ پارلیمنٹ کی بجائے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی سے حل کرانے کو ترجیح دی تھی، ان کا خیال تھا کہ گریڈ 19، 20 کے چند افسران سے اپنے حق میں فیصلہ کرانا مشکل نہیں ہوگا، لیکن یہ چند افسران لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔ ان کی نااہلی کی بنیاد، ان کی حکومت کے دوران ہی پڑی اور وہ کچھ نہیں کر سکے، حتیٰ کہ چیئرمین نیب بھی ان کے وزیراعظم نے ہی نامزد کیا تھا۔ جہاں تک آرمی چیف کا تعلق ہے تو نواز شریف نے پہلے جنرل قمر جاوید باجوہ کو چیف مقرر کیا اور پھر دوسری مدت کے لیے ایکسٹینشن بھی دلائی، اب اگر وہ آرمی چیف کے خلاف باتیں کر رہے ہیں تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی کچھ توقعات پوری نہیں ہوئی، اور یہ بات مسلم لیگی بھی سمجھ رہے ہیں۔ شہباز شریف کو بھی جس طرح لندن سے واپس بھیج کر گرفتار کرایا گیا، یہ بھی اتنی خفیہ بات نہیں، اب نون لیگ میں مریم نواز کا راستہ صاف ہوگیا ہے، شہباز شریف اور حمزہ شہباز اب اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑیں گے، کہا جا رہا ہے کہ ماضی کو دہراتے ہوئے ایک نئی مسلم لیگ کی تیاری بھی ہو رہی ہے،(وفاقی وزیر اطلاعات نے تو اس کا نام بھی بتا دیا ہے) شیخ رشید بھی ایسی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، لیکن شاید اب ایسا ممکن نہ ہو، کیونکہ اس بار مسلم لیگ بہرحال نواز شریف کے بغیر نہیں چل پائے گی، البتہ انہوں نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس پر وہ بھی زیادہ دور نہیں جا سکیں گے، ان حالات میں کہ وہ لندن میں بیٹھ کر انقلاب کی باتیں کر رہے ہیں، یہ ان کے رفقاء کو بھی قبول نہیں ہوگا۔ اگر حکومت اور تحریک انصاف کے رہنما سوچ سمجھ کر سیاست کریں، اور غداری کے الزامات سے اجتناب کریںں تو اپوزیشن کا مقابلہ کرسکتے ہیں، کرپشن کے مقدمات کے بجائے غداری کے مقدمات اپوزیشن کے لیے نئی زندگی کے مترادف ہوگا، لیکن حکومتی وزراء اپوزیشن کی یہی سازش کامیاب بنا رہے ہیں کہ کرپشن دب جائے اور مقدمات سیاسی بن جائیں۔ بہرحال دونوں طرف عقل کا فقدان ہے اور اسی وجہ سے انارکی بڑھ رہی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں