زبان قلم ننگا بادشاہ

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کے بادشاہ کو منفرد نظر آنے بہت شوق تھا۔ اس کے لیے وہ ہر دن کچھ عجیب اور نیا کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ کبھی اپنی پگڑی میں کبوتر کے انڈے ڈال لیتا تو کبھی اپنی عبا پر انوکھے ڈئزائن کرواتا۔
ایک دن اس نے اپنے شاہی درزی کو حکم دیا کہ میں روز روز لباس بدلنے سے تنگ آ چکا ہوں، مجھے کوئی ایسا لباس بنا کر دو جو روزانہ کچھ نیا بن جائے، ایسا لباس جو کسی کے پاس نہ ہو۔ اور اگر تم ایسا نہ کر سکے تو تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔
درزی مسکین کی مجال کہ وہ انکار کرتا اور اپنی زندگی کے چند دن جو بچے تھے وہ بھی اسی لمحے ختم کروا دیتا۔ اس نے ہامی بھر لی اور دن گزارنے لگا۔ ایسا لباس نہ بننا تھا نہ بنا۔ آخر بادشاہ کا بلاوہ آگیا۔ درزی نے اپنی زندگی کی آخری بازی کھیلنے کا فیصلہ کر لیا، جان تو ویسے بھی جانا ہی تھی، کچھ چالاکی کر کے آخری کوشش کیوں نہ کی جائے۔ یہی سوچ کر وہ ایک مرصع صندوق لیکر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لباس تیار ہے، بس حضور یہ احتیاط فرمائیں کہ اسکو غسل کے بعد اکیلے میں زیب تن فرمائیں۔ اور یہ کہ ایسا لباس بس دنیا میں ایک ہی ہے، اور اسکی خؤبیاں بے شمار ہیں۔ آخری خوبی اسکی یہ ہے کہ یہ لباس صرف عقلمند اور دوراندیش بندے کو ہی نظر آئے گا، باقی کسی عقل کے اندھے کو اس لباس کا ایک دھاگہ بھی دکھائی نہ دے گا۔
بادشاہ خوشی خوشی صندوق لیکر غسل خانے گیا اور غسل کرنے کرنے لک گیا اور جیسا کہ آپ نے جان لیا، جب وہ حمام سے باہر نکل کر لباس پہننے لگا تو صندوق خالی تھا۔ بادشاہ نے سوچا کہ لباس تو موجود ہے، مگر چونکہ وہ خود الو کا پٹھا ہے، اس لیے اسکو نظر نہیں آ رہا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ باہر کیسے جائے۔ خیر رستہ ایک ہی بچا تھا، وہ ننگا ہی کمر پر ایسے ہاتھ رکھ کر ایک بازو پھیلائے ، جیسے وہ لباس کا ایک پلو سنبھالے ہوئے ہے، دربار میں اگیا
اب دربار میں ہر شخص کو علم تھا کہ آج بادشاہ ایسا لباس پہن کر آنے والا ہے جو صرف عقلمندوں کو نظر آتا ہے۔ بے وقوف کو اس لباس کا دھاگہ تک نظر نہیں آتا۔ سب سے پہلے وزیر اعظم نے اپنی نوکری بچائی، اور واہ واہ کا شور بلند کر دیا، کہ کیا لباس ہے، ایسا لباس کبھی دیکھا نہ سنا، کیا سنہری تاریں ہیں، کیا لاٹیں مارتا دامن ہے، واہ سبحان اللہ۔ جب درباریوں نے ننگے بادشاہ کے بارے میں وزیر اعظم کا یہ بیان سنا تو سب لباس کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے۔ اور بادشاہ کے لباس کی قصیدہ گوئی شروع ہو گی کوئی اس کے بٹنوں کی تعریف کرنے لگا، کوئی رنگ کی، اور کوئی بنت کی۔ پورے دربار میں کوئی ایسا نہ تھا جو بادشاہ کو ننگا کہہ کر اپنی عقل کے بارے میں سوال اٹھواتا اور نشانہ ستم بن جاتا
اتنے میں وزیر اعظم نے صلاح دی کہ ایسے شاہکار لباس کے ساتھ بادشاہ کو صرف دربار میں ہی نہیں بیٹھے رہنا چاہیے، بلکہ پوری رعایا کو اس لباس کی زیارت کروانا چاہیے۔ سب درباریوں نے اسکی تائید کی، اور اگلے روز منادی والے ڈھول لیکر شہر کے گلی کونوں میں پھیل گئے اور ڈھول پیٹ پیٹ کر منادی کروا دی کہ ظل سبحانی، بادشاہ سلامت، ایک انوکھے لباس کے ساتھ پورے شہر کا دورہ کریں گے۔ اس لباس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ صرف عقلمند کو نظر آئے گا، بے وقوف کو اس کا ایک دھاگہ بھی نہ دکھ پائے گا۔ حکم حاکم ، منادی گھر گھر پہنچ گئی، اور اگلے روز کے انتظار میں رات کاٹنا مشکل ہو گئی۔
اگلے روز کے سورج نے وہ انوکھا لباس تو نہ دیکھا کہ سورج بھی مہا مورکھ تھا، مگر اس نے اپنی زندگی کا انوکھا منظر ضرور دیکھا، کہ ایک بادشاہ الف ننگا گھوڑے پر سوار، ایک ہاتھ ہوا میں ایسے اٹھائے ، جیسے لباس کا پلو پکڑے ہوئے ہے، چلا جارہا ہے، اور اسکے جلو میں سینکڑوں چاپلوس درباری چلے آرہے ہیں، اور رعایا سڑکوں کے کنارے کھڑی بادشاہ پر پھول برسا رہی ہے۔ ہر کوئی اس اندیکھے لباس کو دیکھ کر واہ واہ کر رہا ہے، جو کسی کو بھی نظر نہیں آ رہا۔ کوئی دوسرے کو یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اسے لباس نظر نہیں آ رہا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ اسکو بے وقوف سمجھ لیا جائے گا۔ رعایا میں اگر کچھ لوگ ایسے تھے بھی جو حق سمجھتے تھے کہ بادشاہ ننگا ہے، وہ بھی خلقت کا رجحان دیکھ کر چپکے ہو رہے، کہ اتنے لوگوں کی دشمنی کون مول لے۔ کچھ واقعی میں خود کو بے وقوف سمجھ کر غم کر شکار ہوگئے ، مگر منہ سے کچھ نہ بولے۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ یہ جلوس ایک کھیل کے میدان کی طرف جا نکلا ، جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ وہاں کھیلتے سب سے چھوٹے بچے نے جب یہ ہییت کذائی دیکھی تو چلا اٹھا، ارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے، ارے دیکھو دیکھو، سارے دیکھو، بادشاہ ننگا ہے۔ باقی بچوں نے بھی جب دیکھا تو سب اکٹھے ہو کر چلانے لگے، بادشاہ ننگا، بادشاہ ننگا ہے
بچے تو بچے ہوتے ہیں غیر سیاسی ہوتے ہیں ۔ ہمارا بھی المیہ یہ کہہ طاقتور ننگا بھی ہو تو کپڑے میں دکھائی دیتا ہے اور کمزور کے ستر پردوں میں نا صرف عیب نظر آتے ہیں بلکہ ان کو مسکا لگا لگا کر بیان کرنا بھی ہمارا فن البتہ ننگا بادشاہ اور ننگا طاقتور ہمیں قیمتی لباس میں دکھائی دیتا ہے اور ننگے کو ننگا کہنے کی ہمت پردوں میں چھپ جاتی کمزور کو ننگا کرنا ہو تو ہمارے اندر چنگیز خان والی بہادری سما جاتی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں