دریائے جہلم کا سفر

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
سری نگر کے 48 میل جنوب میں، تحصیل ویری ناگ (ضلع اننت ناگ/ جس کو اسلام آباد بھی کہا جاتا ہے ،جہاں ” کوہِ پیر پنجال” کے دل موہ لینے والے اورصنوبر کے درختوں سے ڈھکے پہاڑ ”بانہال” کے دامن میں، 50 فٹ گہرا اور 100 فٹ پر محیط ایک چشمہ ”ویری ناگ” ہے ۔ یہی چشمہ آگے جا کہ کشمیر اور پاکستان کے مشہور دریا ”دریائے جہلم” کے پیداش کا سبب بنتا ہے جو صوبہ پنجاب کا دوسرا جبکہ دریائےسندھ کا سب سے بڑا معاون دریا ہے ۔ ”فرزندِ کشمیر” دریائے جہلم ، جسے ویتھ، وتستا، ہائیڈراپسِس، اور نہ جانے کتنے ناموں سے پکارا جاتا ہے ہندوستان اور پاکستان سمیت وادئ کشمیر کا بھی ایک مرکزی دریا ہے جو نہ صرف ان علاقوں کی زراعت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے بلکہ سامان کی نقل و حرکت کا بھی میں بھی معاون ہے۔
ویری ناگ نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ویری اس علاقے کا پرانا نام تھا اور ”ناگ” مقامی زبان میں چشمے کو کہتے ہیں جو اس شہر کی وجہ شہرت ہے۔ شروع میں یہ ایک بے ترتیب اور بے ڈھنگا سا چشمہ تھا جس کے کناروں سے پانی اچھل اچھل کہ بہتا رہتا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کی نظر اس پر پڑی تو اُس نےیہاں ایک تالاب اور اسکے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بنوایا۔ جہانگیر کی وصیت کے مطابق اسے ویری ناگ کے شاہی باغ میں دفنایا جانا تھا لیکن اسکی بیوی نورجہاں نے اس وصیت پر عمل نہ کر سکی۔ چشمے کا پانی ایک تالاب میں جمع ہو کر وہاں سے ایک نہر کے ذریعے ”دریائے بیہٹ” میں پہنچایا جاتا ہے۔اس چشمے کی ایک خاص بات اور بھی ہے، و مقامی لوگوں کا کہنا ہے کئی سو سالوں سےاب تک یہ چشمہ کبھی خشک نہیں ہوا۔ ویری ناگ سے دریائے جہلم اپنا سفر شمال کی طرف شروع کرتا ہے۔
جگہ جگہ بل کھاتے خوب صورت رومانی دریائے جہلم میں ”اننت ناگ” کے مقام پر مختلف ندیاں شامل ہو جاتی ہیں۔ اننت ناگ سے آگے ”کھنہ بل” کے مقام پر دریائے لیدار/لیڈار جہلم میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہاں سے شمال کی طرف جہلم کے کنارے ” بِج بیہارا” نامی شہر واقع ہے۔ اس شہر کا شمار کشمیر کے پرانے شہروں میں ہوتاہے۔اپنے خوبصورت چنار کے باغات کی وجہ سے اسے ”چنار گھر” بھی کہا جاتا ہے۔بِج بیہارا سے چل کر یہ” سنگم” نامی شہر سے گزرتا ہے جہاں اس میں بہت سی ندیوں اور چشموں کا پانی شامل ہوتا ہے۔ سنگم شہر میں ہر سال ایک خاص مہینے ، چاند کی چودہویں تاریخ کوہندوؤں کا سالانہ تہوار منایا جاتا ہے جو ہندوؤں کے مطابق دریا کے جنم کی خوشی میں ہوتا ہے۔ دریائے جہلم آگے ”ضلع پلوامہ” سے گزر کہ مقبوضہ کشمیر کے دارالحکومت اور باغات کے شہر”سرینگر” میں داخل ہوتا ہے۔سرینگر سنسکرِت زبان کا لفظ ہے اور اسی سے نکلا ہے سری: دولت اور نگر: شہر۔ شری ”دیوی لکشمی ”کا نام بھی ہے اور شری آفتاب کو بھی کہا جاتا ہے اس لئے سرینگر کا مطلب سورج کا شہر ہے
یہ شہر دریائے جہلم کے دونوں کناروں پر آباد ہے اور مشرق کی طرف سے جھیل ڈل تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کئی جھیلیں اور دلدل موجود ہیں جن میں ڈل، نگین، آنچار، ہوکرسر، گل سر، خشل سر قابل ذکر ہیں۔ یہاں کی جھیل اور اُن میں تیرتے بوٹ ہاؤس کے سبب سرینگر شہر کو اٹلی کے وینس سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں کے مغل باغات جیسے پری محل، نشاط باغ، شالیمار باغ بھی کافی مشہور ہے۔ یہاں دریائے جہلم ، جہاں ڈل جھیل کےایک کنارے سے اس میں ضم ہوتا ہے تو وہیں دوسرے کنارے سے نیا جنم لے کر نمودار ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈل جھیل جہلم دریا کو ایک نئی زندگی بخشتی ہے۔سرینگر سے 34 کلو میٹر دور ” شادی پورہ” کے مقام پر 108کلو میٹر لمبا ”دریائے سندھ” جہلم میں مل جاتا ہے۔ یہ سندھ وہ نہیں ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے، بلکہ یہ ریاست کشمیر کا ہی ایک دریا ہے جو ”درہ زوجیلا” کے قریب گلیشیئر سے نکلتا ہے۔
شمال کا سفر ابھی بھی جاری ہے اور اس بار جہلم کا اگلا پڑاؤ برِاعظم ایشیاء کی سب سے بڑی تازہ پانی کی جھیل ”وولر” ہے جو ضلع ”باندی پورہ ”میں واقع ہے۔اس جھیل کے پانی کا انحصار بھی دریائے جہلم کے پانی پر ہے۔سا ئبیریا کے پرندوں کے سب سے بڑےمسکن، وولر جھیل کے شمالی کنارے پر باندی پورہ شہر آباد ہے جو ضلعی صدر مقام بھی ہے۔یہاں وولر جھیل کے دہانے پر بھارت نے ”سندھ طاس معاہدے” کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ”تل بل بیراج” بنایا ہے جسکا کام 1984 میں شروع کیا گیا۔1987 میں پاکستان کے اعتراضات کے باعث اسکا کام روک دیا گیا لیکن جلد ہی اسے دوبارہ شروع کر دیا گیا۔بھارت کا مؤقف یہ تھا کہ چونکہ دریائے جہلم، وولر جھیل کے جنوب میں واقع وادئی کشمیر کے لیئے ذرائع آمد و رفت اور سامان و رسد کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ ہے ، جس کے لیئے پورے سال دریا میں ایک خاص مقدار تک پانی کا ہونا ضروری ہے۔لہٰذا سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو اسکا حق حاصل ہے۔
وولر جھیل سے پانی لے کہ جہلم اپنا رُخ شمال کی بجائے مغرب کی طرف موڑ لیتا ہے جہاں اسکے کنارے”ضلع بارہ مولا” کا شہر ”سوپور” آباد ہے۔ یہ شہر ایشیا کی دوسری بڑی فروٹ منڈی ہے۔ آگے چل کر ”دوآب گاہ” کے مقام پر ”دریائے تالری” جہلم میں آ گرتا ہے۔پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اسکی گزر گاہ تنگ ہوتی جاتی ہے۔یہاں سے آگے دریائے جہلم ”بارہ مولا” شہر کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔یہاں دریائے جہلم اپنے تمام راستے کے سب سے اونچے مقام پہ بہتا ہے۔بارہ مولا شہر کا پرانا حصہ دریا کے شمال اور نیا حصہ دریا کے جنوب میں آباد ہے۔ دونوں حِصے آپس میں 5 پلوں کے ذریعے ملے ہوئے ہیں۔ بارہ مولا سے آگے چلیں تو پرنگل کے مقام پر ”’اُڑی ہائیڈروپاور پروجیکٹ” بنایا گیا ہے۔480 میگا واٹ کا اُڑی ڈیم،لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔ یہاں سے کچھ دور ہی اُڑی شہر ہے جو بارہ مولا کی تحصیل ہے۔ یہاں ”نالہ حاجی پیر” جہلم کا حِصہ بنتا ہے۔
اُڑی آزاد کشمیر سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے دریائے جہلم ”لائن آف کنٹرول” پار کرتے ہوئے پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر میں قدم بوسی فرماتا ہے۔ آزاد کشمیر میں جہلم کنارے آباد پہلا شہر، ضلع ہٹیاں بالا کا ”چکوٹھی” ہے۔یہاں مظفرآباد- سرینگر بس سروس کے لیئے ایک چیک پوسٹ بنائی گئی ہے۔اس سے آگے چناری ، ہٹیاں بالا شہر اور گڑھی دوپٹہ سے گزرنے کے بعد دریائےجہلم آزاد کشمیر کے صدر مقام ”مظفر آباد” پہنچتا ہے جہاں ”ڈومیل” کے مقام پر ”دریائے نیلم” (جسے کشن گنگا بھی کہتے ہیں) اس میں ضم ہو جاتا ہے۔ دریائے نیلم، جہلم میں ملنے والے تمام دریاؤں میں سب سے بڑا دریا ہے۔ اس جگہ جہلم پر ایک خوبصورت پل بنایا گیا ہے جسے ”قائدِ اعظم برِج” کا نام دیا گیا ہے۔
یہاں سے دریائے جہلم ایک بار پھر اپنا رُخ بدلتا ہے اور جنوب کی سمت اپنا سفر شروع کرتا ہےکچھ آگے جا کہ وادئی کاغان کا مرکزی دریا” دریائے کُنہار” اپنا آپ جہلم کے سپرد کر دیتا ہے۔یہاں سے جہلم آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی سرحد پہ بہنا شروع کرتا ہے۔اور کچھ دور جا کردوبارہ آزاد کشمیر کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ جہلم کا اگلا سٹاپ ضلع مظفر آباد کا آخری قصبہ ”کوہالہ” ہے جو کوہالہ برِج کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ جہلم پہ بنا یہ پل آزاد کشمیر کو پنجاب کے ضلع راولپنڈی سے مِلاتا ہے۔ یہ جگہ کشمیر،پنجاب اور پختونخواہ کے سنگم پر واقع ہے۔کوہالہ کی ایک خاص بات اور بھی ہے جو بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔ برطانوی دور میں کوہالہ میں ایک ریسٹ ہاؤس بنایا گیا تھا اور 1930 میں شاعرِ مشرق، ڈاکٹر علامہ محمد اِقبال نےاسی ریسٹ ہاؤس میں اپنی مشہورِ زمانہ نظم ”ہمالہ” لکھی تھی جو بانگِ درا کی پہلی نظم تھی۔ کوہالہ سے ہو کہ جہلم دریا ”ضلع باغ ”سے ہوتا ہوا ”ضلع سدھنوتی” میں داخل ہوتا ہے جہاں ”آزاد پتن” کے مقام پر 700 میگاواٹ کا ”آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ” کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔آگے چل کر آزاد پتن کا پل ہے جو اسے راولپنڈی کے علاقے ”کہوٹہ” سے ملاتا ہے۔ آگے جنوب میں دریائے جہلم ”ضلع کوٹلی” سے گزر کر (جہاں مغربی سمت راولپنڈی کی جانب کروٹ کے مقام پر ”کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ” زیرِ تعمیر ہے)”ضلع میر پور” کی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں اسکا پاٹ چوڑا ہو جاتا ہے۔ یہاںپیر پنجال سے نکلنے والا ”دریائے پونچھ” چومک کے مقام پر منگلا جھیل کا حِصہ بن جاتا ہے۔یہاں منگلا کے مقام پر دریائے جہلم پہ ،دنیا کا ساتواں بڑا اور پاکستان کا دوسرا بڑا ڈیم ”منگلا ڈیم” تعمیر کیا گیا جہاں سے نکلنے والی ”اپر جہلم کینال” جہلم کو چناب سے ملاتی ہے۔
ڈیم کی تعمیر بھی اپنے آپ میں ایک داستان ہے۔ ڈیم بنانے سے پہلے یہاں موجود منگلا گاؤں خالی کروا لیا گیا تھا ۔موجودہ وقت میں لفظ منگلا ایک بڑے علاقے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس میں منگلا چھاؤنی، منگلا کالونی ، منگلا کا قلعہ اور منگلا ہیملیٹ شامل ہیں۔یہ سکندر اعظم کی افواج کے دریائے جہلم عبور کرنے اور راجہ پورس کی افواج کو شکست دینے کا مقام بھی ہے۔ اِس فتح کی یاد میں سکندرِ اعظم نے اس دریا کے کنارے دو شہر آباد کیئے، پہلا شہر بالکل اسی مقام پر تھا جہاں لڑائی ہوئی تھی۔ اور دوسرا دریا کے اس پار یونانی کیمپ میں بسایا گیا تھا۔ اس شہر کو سکندر اعظم نے اپنے محبوب گھوڑے ”بوسیفالس ”سے منسوب کیا جو اس لڑائی میں کام آیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ جہلم کا موجودہ شہر اس مقام پر آباد ہے۔تاریخ دان منصور شہزاد بٹ کے مطابق بوسیفالس تحصیل پنڈ دادن خان کے علاقے”جلال پور” میں دفن ہے۔ لیکن منڈی بہاؤ الدین کے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ ان کی تحصیل پھالیہ کا نام سکندر کے گھوڑے بوسیفالس کے نام پہ رکھا گیا تھا۔حقیقت کیا ہے یہ تو کوئی نہیں جانتا۔
منگلا ڈیم کی جھیل کے لیئے پرانے میر پور شہر کو خالی کروایا گیا جس کے بدلے میر پور شہر کے باسیوں کو بیرون ملک بھجوانے سمیت معقول معاوضہ بھی ادا کیا گیا۔ جھیل کے کنارے نیا میر پور بسایا گیا۔ آج بھی جب منگلا جھیل میں پانی کم ہوجاتا ہے تو لوگ اپنے شہر اور ٹوٹے گھروں کو دیکھنے جاتے ہیں۔ منگلا ڈیم سے 7 کلومیٹر جنوب میں دریائے جہلم پر 84 میگاواٹ کا ”بونگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ” ہے جو پرائیویٹ کمپنی کے زیرِ انتظام ہے۔ اور یہاں سے دریائے جہلم شمالاً جنوباً کی بجائے شرقاً غرباً اپنا رُخ موڑ کر پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔پنجاب میں داخل ہوتے ہی یہ ”ضلع جہلم ” کی جنوبی و جنوب مشرقی اور ”ضلع گُجرات” کی مغربی حد بناتا ہے۔ یہاں اسکے مشرقی کنارے پر گجرات کی تحصیل ”سرائے عالمگیر” جبکہ مغربی کنارے پر ”جہلم شہر” آباد ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ”جی ٹی” روڈ اور لاہور۔ پنڈی ریلوے لائن اسے کاٹتی ہیں۔
دریا کہ ایک طرف جہاں گجرات کی زرخیز زمین ہے وہیں دوسری جانب ”سطح مرتفع پوٹھوہار” کا علاقہ ہے۔ جہلم شہر کے قریب ہی ”نالا گھان” آ کہ دریائے جہلم میں گرتا ہے۔ اور اس سے کچھ اور آگے ”دریائے بنہا” نامی غیر معروف دریا جہلم میں مل جاتا ہے۔ اور یہیں سے دریا کے جنوب میں ”ضلع منڈی بہاؤ الدین” کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ دریائے جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے کو ”چج دوآب” جبکہ دریائے جہلم اور سندھ کے بیچ علاقے کو ”سندھ ساگر دوآب” کہا جاتا ہے۔دو دریاؤں کے درمیان علاقے کو ”دوآبہ” کہا جاتا ہے جو کہ انتہائی زرخیز علاقہ ہوتا ہے۔ ضلع منڈی بہاؤ الدین میں داخل ہوتے ہی ”رسول” کے مقام سے کچھ دور دریا کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیئے 1968 میں ” رسول بیراج”بنایا گیا ۔ اس بیراج سے ”رسول -قادرآباد لنک کینال” کے ذریعے جہلم کا پانی چناب میں ڈالا جاتا ہے تاکہ پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ جبکہ قصبہ رسول کے نزدیک ہی 1901 میں دریائے جہلم سے ”لوئر جہلم کینال” نکالی گئی جوضلع منڈی بہاؤ الدین سمیت ضلع سرگودھا اورضلع چنیوٹ کے مُختلف علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔اس نہر پر 22 میگا واٹ کا ایک چھوٹا سا پاور ہاؤس بھی بنایا گیا ہے۔ منڈی بہاؤ الدین کی حدود سے نکل کر جہلم ”ضلع سرگودھا” میں داخل ہوتا ہے ۔
اسکی دوسری جانب ضلع جہلم کی تحصیل ”پنڈ دادن خان” اور کوہِ نمک ہے جہاں کھیوڑہ کی مشہور نمک کی کان ہے۔ سرگودھا کی حدود میں” بھیرہ ”کے قریب موٹروے دریائے جہلم پر سے گزرتی ہے اور جہلم بل کھاتا ہوا آہستہ آہستہ جنوب میں سُرکتا جاتا ہے۔ یہاں ضلع جہلم کی حد ختم ہو جاتی ہے اور جہلم کے دوسرے کنارے ”ضلع خوشاب” شروع ہو جاتا ہے۔یہاں جہلم کے شرقی جانب ”تحصیل شاہ پور” اور غربی جانب ” خوشاب شہر”ہے۔ شاہ پور ایک چھوٹا مگر تاریخی شہر ہے۔ 19ویں صدی میں جب حکمرانی کی لاٹھی انگریزوں کے ہاتھ تھی تو 1893 میں اس کو ضلع کی حیثیت دی گئی۔ یہاں سے تقریبا 4کلومیٹر دور مشرق کی جانب ایک نئی سول لائن کی بنیاد رکھی گئی اور تمام سرکاری دفاتر وہاں تعمیرکیئے گئے۔ نئی سول لائن کو شاہ پور صدر کا نام اور مغرب کی جانب آبادی والے علاقہ کا نام شاہ پور شہر کر دیا گیا۔ دریا جہلم کے قریب واقع ھونیکی وجہ سے یہاں سیلاب بہت زیادہ آتے تھے اور حکومت کو بہت زیادہ نقصان آٹھانا پڑتا تھا تو اس سے ضلعی حیثیت چھین لی گئی. کچھ عرصہ بعد یہاں سے مشرق کی جانب 35کلومیٹر دور واقع شہر سرگودھا کو ضلع بنا دیا گیا اور شاہ پور صدر کو تحصیل کا درجہ دے دیا گیا جو تحصیل شاہ پور کے نام سے جانا جاتا ہے۔
خوشاب کو خوشاب کیوں کہا جاتا ہے ۔لفظ خوشاب ”خوش” اور ”آب” سے مل کر بنا ہے جس کا مطلب ہے ”میٹھا پانی” ۔یہ نام یہاں کے بہترین پانی کی وجہ سے رکھا گیا۔خوشاب کے نزدیک گروٹ کے مقام پر 50 میگا واٹ کا ایک ایٹمی ری ایکٹر بھی ہے۔ کچھ اور جنوب میں جائیں تو مغرب سے ”چشمہ-جہلم لنک کینال” صحرائے تھل سے ہو کر دریائے سندھ کا پانی جہلم کے سپرد کرتی ہے۔ تحصیل ساہیوال میں ”جہانیاں شاہ” سے ہو کر دریائے جہلم اپنے اختتام کی جانب بڑھتے ہوئے ہیر سیال کے علاقے ”ضلع جھنگ” میں جا نکلتا ہے جہاں اسکے کناروں پر بلو، کوٹ عیسیٰ شاہ، محمد وال اور کوٹ شاکر نامی چھوٹے چھوٹے قصبے آباد ہیں۔ اس کے بعد ”اٹھارہ ہزاری” کے قریب دریائے ویتستا اور دریائے چناب مل جاتے ہیں
یوں کشمیر کی خوبصورت وادیوں سے نکل کہ، بلند و بالاچنار کے درختوں میں گھِرا ، ناگن کی طرح بل کھاتا ہوا، کئی چھوٹی بڑی ندیوں کا پانی لے کر، اپنے سینے پہ منگلا جیسےعظیم ڈیم کا بار اُٹھائے، سطح مُرتفع پوٹھوہار، کوہِ نمک، صحرائے تھل اور چج دوآب کے میدانوں سے گزر تادریائے جہلم ،پنجاب کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہوا اپنے بھائی چناب میں جا ملتا ہے۔ یہ تھی کہانی اس دریا کی جسے قدیم یونانی ”خدا” کہتے تھے۔ جس کے کنارے دنیا کی چندخوبصورت وادیاں اور شہر آباد ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں