تحقیق چوہدری زاہد حیات
“یہ ہر ماہ آتے ہیں اور ہمارا ایڈز کا ٹیسٹ کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ بذریعہ سیکس منتقل ہونے والی بیماری سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ یہ ہمیں یہ تلقین بھی کرتے ہیں کہ سیکس کے دوران کنڈوم استعمال کرنا ہے اور جب کسی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے تو نئے ٹیکے سے انجکشن لگوانا ہے اور کسی کا خون ٹیسٹ کرائے بغیر نہیں لگوانا۔”
یہ کہنا ہے 35 سالہ بلقیس (فرضی نام) کا جو کہ لاہور کی ایک پوش جگہ میں سیکس ورکر ہیں اور ایچ آئی وی ایڈز کی معلومات اور روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘شِیڈ سوسائٹی’ کی بینیفشری ہیں۔
‘شیڈ سوسائٹی’ پاکستان ایڈز کنٹرول پروگرام کے اشتراک سے لاہور کے علاقے ٹکسالی گیٹ المعروف ہیرہ منڈی میں ایچ آئی وی، ایڈز آگاہی پروگرام کسی قدر کامیابی سے چلا رہی ہے۔ جس میں نا صرف سیکس ورکرز کو ایچ آئی وی، ایڈز سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر سے متعلق بریف کیا جاتا ہے۔ بلکہ ماہانہ بنیادوں بنیادوں پر ان کے ایچ آئی وی ٹیسٹس بھی کیے جاتے ہیں۔
ہیرا منڈی میں پچھلے پندرہ برسوں سے بطور سیکس ورکر کام کرنے والی بلقیس نے بتایا کہ ‘شیڈ سوسائٹی’ کی طرف سے اُنہیں پہلے ہی مطلع کر دیا جاتا ہے کہ ان کے ایڈز کا ٹیسٹ ہوگا اور یہ ہر مہینے ہمارا ٹیسٹ کرتے ہیں اور ہمیں ایڈز کے بارے میں مکمل بریف کرتے ہیں
ٹکسالی گیٹ سے تعلق رکھنے والی ایک اور سیکس ورکر دلدار (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ کچھ گاہک احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کرتے اور انھیں بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو کہ ان کے لیے اور گاہے کے لیے بہت بڑا رسک ہوتا ہے لیکن وہ مجبور ہوتیں ہیں
دلدار کے بقول، اُنہیں بذریعہ سیکس منتقل ہونے والی بیماریوں ایچ آئی وی اور ایڈز کا پتہ ہے لیکن جب گاہک سیف سیکس کے لیے تدابیر اختیار کرنے سے انکار کر دے اور وہ نا مانے تو ان کی باجی جو اڈے کو چکا رہی ہوتی ہے ان کے ساتھ سختی کرتی ہے
شیڈ سوسائٹی میں بطور آؤٹ ریچ ورکر خدمات سر انجام دینے والی ہما ندیم گھر گھر جا کر ایڈز سے متعلق آگاہی دیتی ہیں۔ ان کے ہمراہ لیڈی ڈاکٹر اور لیڈی ہیلتھ ورکر بھی ہوتی ہیں۔
ہما کا کہنا ہے کہ سیکس ورکرز کو دوران آگاہی یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ۔محفوظ کیسے رہنا ہے’ کس طرح کرنا ہے۔ سیکس کے ذریعے کون سی خطرناک بیماریاں آپ میں منتقل ہو سکتی ہیں اور ان سے بچاؤ کے لیے آپ نے کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ اور کن چیزوں سے بچنا ہے
ہما ندیم کے بقول، چونکہ سیکس ورکرز رات میں دیر سے سوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ دوپہر ایک بجے کے بعد ایچ آئی وی ایڈز سے متعلق آگاہی اور ٹیسٹ کرنے کا کام شروع کرتے ہیں۔
ایچ آئی وی ٹیسٹ کے طریقہ کار اور اس کے نتائج سے متعلق سوال پر ہما کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ کرنے سے پہلے ان سے آمادگی کا فارم پُر کرایا جاتا ہے اور ٹیسٹ کی اہمیت سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ اس ٹیسٹ سے آپ کو کیا ثمرات ملیں گے
سیکس ورکرز کے ٹیسٹس پازیٹو آنے کی تعداد سے متعلق ہما کا کہنا تھا کہ پچھلے ایک سال میں کیے گئے ٹیسٹس میں 10 سیکس ورکرز کے ٹیسٹس پازیٹو آئے ہیں۔ جن میں سے دو کی موت واقع ہو چکی ہے۔ لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اب یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے
ان کا مزید کہنا تھا کہ مزید تشویش ناک امر یہ ہے جن سیکس ورکرز کے ٹیسٹس مثبت آجاتے ہیں۔ ان کی اکثریت ہمیں دوبارہ ملتی ہی نہیں ہے اور وہ کہیں اور نقل مکانی کر جاتی ہیں۔ کیونکہ اُنہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے کہ وہ ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔اس طرح وہ اس بیماری کے پھیلاؤ کے ذریعہ بھی بن سکتی ہیں
ہما کے بقول، ایچ آئی وی کا شکار ہونے والی ایک 35 سالہ سیکس ورکر نے ہمارے ساتھ علاج کے لیے بہت تعاون کیا۔ لیکن جس سرکاری اسپتال میں ہم اُسے علاج کے لیے لے کر گئے۔ وہاں کے ڈاکٹر نے اُسے اتنا بے عزت کیا کہ اس نے ہمیں کہا کہ وہ دوبارہ وہاں نہیں آئے گی اور وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اور اس بیماری کا شکار بن چکی ہے
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں سال 2018 میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار افراد ایچ آئی وی پازیٹو ہیں۔ جبکہ چھ ہزار چار سو افراد کی موت کی وجہ بھی یہ بیماری بنی سال 2021تک ایڈز سے متاثرہ افراد جن میں زیادہ تر تعداد سکیس ورکرز کی ہے اندازاً ڈھائی لاکھ تک پہنچ چکی ہے اس بیماری سے متاثرہ افراد اور خاص طور پر سکیس ورکرز کو معاشرتی نفرت کا سامنا ہے پاکستان جیسے اسلامی معاشرے میں سکیس ورکرز کی موجودگی ریاست اور معاشرے دونوں کے لیے فکر انگیز ہے