چوہدری زاہد حیات
جہلم شہر تاریخی حثیت تو رکھتا ہی ہے۔ لیکن یہ شہر نا صرف پاکستان بلکہ برصغیر کے نامور شاعروں ، ادیبوں، جنگجووں اور سیاستدانوں کا شہر بھی ہے ۔ اس شہر کے کچھ لوگ بچ تو تاریخ کا بھرپور اور جاندار حصہ ہیں مگر کچھ ایسے خاموش کردار بھی ہیں جنہیں عام آدمی نہیں جانتا مگر وہ بڑے انسان ہیں۔
جہلم کی ایک تحصیل دینہ بھی ہے ۔ دینہ کا نام عصر حاضر میں سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک گلزار کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔دنیہ شہر میں موجود گلزار کے پرانے گھر جائیں یا نہ جائیں مگر آپ کو یہاں سے گلزار کی شاعری کی خوشبو ضرور آئے گی۔ گلزار تقسیم کے بعد دینہ سے ہندوستان چکے گئے اور وہیں کے ہو کر رہے ۔ مگرآج بھی وہ کسی فلم کا گیت لکھیں، کسی ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کوئی نظم یا غزل کہتے نظر آئیں ، آپ کو ان کے لہجے میں جہلم کی مہک ضرور محسوس ہو گی ۔
دینہ گلزار کے ساتھ ساتھ مزاحیہ شاعر ضمیر جعفری کا بھی آبائی وطن ہے ۔ ضمیر جعفری جو اردو ادب کا بڑا نام ہیں اس جہلم کی مٹی ہیں۔ وہ ہنس مکھ شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کا سماجی کردار بھی ان کی بڑی ہچان تھا ۔ دینہ سے کچھ آگے آئیں تو راٹھیاں کی ڈھلوان پوتھوہار کو خدا حافظ کہہ کر آپ کو پنجاب میں آنے کی نوید سناتی ہے ۔ یہاں الٹے ہاتھ پر کالا گجراں نامی ایک گاوں ہے۔ اس گاوں کے تین کردار تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ سب سے پہلے تو تقسیم سے پہلے مزاحمت کے پنجابی شاعر درشن سنگھ آوارہ ہیں۔
کالاگجراں کے اندر داخل ہوں تو مین بازار میں ڈاکخانے کے قریب درشن سنگھ آوارہ کا گھر موجود ہے۔ وقت نے اس گھر کی ہیت بدل دی ہے مگر ۱۹۰۶میں یہاں پیدا ہونے والے آوارہ کا بچپن اور جوانی آج بھی یہاں چلتی پھرتی گھومتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔ آوارہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اس کی ماں بچپن میں چاٹی میں مدھانی ڈال کر اسے شیخ فرید کا کلام سناتی۔ آوارہ کی کتاب، “بجلی دی کڑک” پر انگریز سرکار نے پابندی لگا دی تھی ۔ مگر انگلش حکومت درشن سنگھ آوارہ کے خیالات اور سوچوں پر پابندی نہ لگا سکی اور آوارہ نے “بغاوت” کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھ ڈالی۔ تقسیم کے بعد درشن سنگھ آوارہ ہندوستان چلے گئَے اور پھر اس کے بعد صرف 1952 میں ایک بار پاکستان ائے۔
تقسیم کے بعد آوارہ اپنی جنم بھومی دیکھنے کے لیے پاکستان آئے تو ان کےاعزاز میں کالا گجراں میں ایک خصوصی جلسہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ سنا ہے پاکستان سے روانگی کے بعد درشن سنگھ آوارہ نے مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں آباد ہوئے
اسی کالا گجراں میں برصغیر کے مشہور و معروف ٹریڈ یونینسٹ مرزا ابراھیم کا گھر بھی ہے ۔ مرزا قیام پاکستان سے پہلے متحدہ ہندوستان کی ریلوے یونین کے جنرل سیکرٹری تھے۔ پورا ہندوستان ان کی کال پر جام ہوجاتا تھا۔ ۔ متحدہ ہندوستانی کی سیاست میں مرزا کی اہمیت مسلم تھی۔ وہ اپنے وقت کے معروف سیاستدان وی وی گری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے جو بعد میں بھارتی صدر بھی رہے ۔ اس وقت کی مشہور شخصیت مرزا ابراہیم بعد میں گمنامی میں ہی چل بسے
کالا گجراں ہندوستان اور پاکستان میں ایک اور حوالے سے بھی جانا جاتا ہے ۔ یہ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کی جائے پیدائش بھی ہے۔ اروڑہ مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کے مقابلے میں بھارتی فوج کے کمانڈر تھے۔ یہ وہی جنرل ہے جنہوں نے جنرل نیازی سے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کروائے تھے۔
کالا گجراں سے نکلیں تو جہلم شہر صرف دو کلومیڑ دوررہ جاتا ہے ۔ 1982 تک ، ضلع چکوال بھی جہلم کی ہی ایک تحصیل تھا۔ اسطرح یہ ایک بڑا ہی وسیع ضلع تھا ۔کچھ انتظامی مجبوریوں کے تحت جہلم کی تقسیم کردی گئی ۔ م۔ بھارت کے دو وزرااعظم منموہن سنگھ اور اندر کمار گجرال کا تعلق بھی اس زرخیز زمین جہلم سے ہے۔ گجرال جہلم شہر سے تھے جبکہ منموہن سنگھ کا کی جائے پیدائش اور آبائی گاؤں کا نام گاہ ہے جو آجکل چکوال کا حصہ ہے ۔ تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا کہ معروف بھارتی فلم سٹار سنجے دت کے والد سنیل دت بھی اسی شہر کی مٹی ہیں اور ان کا جائے پیدائش جہلم ہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ ہندوستان چلے گئے
جہلم کی بات چلے اور پنجابی شاعر جوگی جہلمی کی بات نا ہو ان کا ذکر نا ہو تو جہلم کی بات ادھوری سی رہ جاتی ہے ۔ جوگی کی شاعری ایک الگ طرز شاعری ہے ۔ وہ شعر نہیں کہتا زندگی گزارنے کے ڈھنگ اپنے الفاظ میں بتاتا ہے ۔ اللہ دتہ عرف جوگی جہلمی کی جائے پیدائش تو کھڑی شریف آزاد کشمیر میں ہوامگر وہ اوائل عمری میں ہی جہلم شہر کا باسی بن گیا۔ پنجابی شاعری اس کی شناخت بنی وہ جہلم کی پہچان بنا تو تو جہلم بھی اس کی پہچان بن گیا
ابھی تک جہلم اور اس کے باسیوں میں آوارہ کی مزاحمت، گلزار کی مجبت ، مرزا کی جدوجہد اور جوگی کا کردار نظر آتا ہے ان کی خوشبو بستی ہے ۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں جہلم کی نئی نسل کو ادب شاعری اور تاریخ کے اسلوب سے شاید اپنی واقفیت نہیں ہے جہلم کی مٹی ہر طرح سے زرخیز ہے شہیدوں کی اس سر زمین نے تاریخ میں بھی بڑے نام دیے ہیں خود تاریخ اس بات کی گواہ ہے