ان کو عمران فوبیا ہو گیا ہے

Spread the love

تحریر چوہدری زاہد حیات
مان لیتے ہیں عمران خان کامیاب نہیں ہو رہے مان لیے وہ کارگرگی وہ نہیں دکھا پا رہے جس کی ان سے امیدیں تھیں یا ہیں ، تو کیا اس کا متبادل یہ ہے کہ میاں نواز شریف کو نجات دہندہ اور آصف زرداری کو رشک مسیحا سمجھ لیا جائے؟ اور ان سے ملک کی بہتری کی امید رکھی جائے جو وہ تین تین بار حکومت کرنے کے باوجود پورے نا کر سکے عمران خان تنقید سے بالاتر نہیں۔ ان کے غلط فیصلوں پر پوری طرح تنقید ہونی چاہیے اور کرنی چاہیے لیکن عمران کا نام آتے ہی جن کا روشن چہرہ ، سیاہ ہو جائے اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو دیں، ان کی زبانیں آگ اگلنے لگیں؟ ماتھے پر پسینہ آنے لگے ٹانگیں کانپنے لگیں تو بندہ سوچتا ہے، ان کا سینہ کس کے غم میں داغ ہے؟ پھر معلوم ہوتا ہے انہیں عمران خان ہو گیا ہے، اب ان کے صحن میں بہار بھی اشک بار آتی ہے۔
معیشت کی کمزور حالات کا سب سے زیادہ رونا رویا جاتا ہے اور کمزور معیشت ہی اس حکومت کا سب سے بڑا جرم بتایا جاتا۔ مگر سچ یہ ہے حقیقت یہ ہے عمران جس معاشی گرداب میں پھنسا ہے اس کی جزئیات مسلم لیگ ن نے بڑی مہارت سے تیار کی تھیں۔ تجربہ کاروں نے عمران دشمنی میں ایسی تجربہ کاری دکھائی جسے پوری قوم بھگت رہی ہے اور تجربہ کار خود ایک طرف کھڑے ہو کر بغلیں بجا رہے ہیں کہ جو جال ہم بن کر گئے اب ذرا اس سے نکل کر دکھاؤ۔ یہ جال جان بوجھ کر تیار کیا گیا اب اس جال کو توڑتے حکومت اور عوام دونوں پریشان اور مہنگائی جیسی عفریت کی لپیٹ میں
مئی 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی۔ لیکن اس حکومت نے 27 مئی کو اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک حکومت جو چند دنوں کی مہمان تھی اگلا بجٹ پیش کرنے پر بضد کیوں تھی کیوں وہ جاتے جاتے بجٹ پیش کرنا چاہتی تھی؟ یہ نکتہ یہ حقیقت۔ بہت اہم ہے کہ جب عمران نے حکومت سنبھالی تو اس مالی سال کے گیارہ ماہ ابھی باقی تھے لیکن اس کے معاشی فیصلے تحریک انصاف اور عمران خان کی حکومت کی بجائے ن لیگ کر کے جا چکی تھی۔ اور فیصلے بھی کیسے تھے، ذرا یہ بھی جان لیجیے۔
مسلم لیگ ن نے اپنے اس آخری بجٹ میں یہ طے کر دیا تھا اگلے مالی سال کے لیے حکومت 13 بلین ڈالر قرض لے گی تب معاملات ایسے ہی چلیں گے۔ یاد رہے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی ایک مالی سال کے لیے لیا جانے والا یہ سب سے بڑا قرض تھا۔تحریک انصاف نے عمران خان کی کارکردگی میں حکومت سنبھالی تو معلوم ہوا اس سال کا نظام صرف اسی صورت میں چل سکتا ہے کہ 13 بلین ڈالر کا قرض لیا جائے اور ہر صورت لیا جائے۔ عمران کے لیے یہ سب پہلا اور بڑا چیلنج یہ تھا کہ یہ قرض لیے بغیر معاملات کو چلا لیا جائے۔ انہوں نے ادھر ادھر معاشی امکانات تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ کوئی راستہ نکل آئے اور یہ قرض نہ لینا پڑے۔ جب ان امکانات کی تلاش میں عمران مختلف ممالک کا دورہ کر رہے تھے، ان کے سیاسی بےحریف بڑی معنی خیز مسکراہٹوں بکھیر کر ان پر کشکول کا طنز اچھال رہے تھے اور ان کو بھکاری قرار دے رہے تھے اور طعنہ زن تھے کہ جو ڈور ہم نے اتنی محنت سے الجھائی ہے ذرا اسے سلجھا کر تو دکھاؤ جو جال ہم نے بچھایا ہے اسے توڑ کر حکومت ملتے ہی عمران آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے اور قرض لے لیتے تو معاملات اس حد تک خراب کبھی نا ہوتے، انہوں نے متبادل آپشن تلاش کرنے کی کوشش کی۔ معقول متبادل معاشی امکانات کی تلاش میں ناکام ہوئے تو بے بسی کے عالم میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ آئی ایم ایف نے شرائط سخت اور کڑی کر دیں کیونکہ اسے معلوم تھا اب پاکستان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا اور پاکستانی قوم اور حکومت کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر بجلی گیس کی قیمتیں بڑھیں، روپیہ عدم استحکام کا شکار ہوا اورمعاشی حالات گھنبیر ہو گئے۔بلا شبہ عمران حکومت بھی اس کی ذمہ دار ہے لیکن کیا صرف عمران اکیلا ہی ذمہ دار ہے؟ وہ بری الزمہ جنہوں نے یہ سارا جال پھلایا
یاد رہے کہ پاکستان کی سترسالہ تاریخ میں ایک مالی سال میں سب سے زیادہ قرض لینے کا اعزاز میاں نواز شریف حکومت کوحاصل ہوا تھا۔چار سالوں میں نواز شریف حکومت نے 35 بلین ڈالر قرض لیا۔ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں جتنا قرض لیا قریبا اتنا ہی قرض نواز شریف اور آصف زردای دونوں کے ادوار میں لیا گیا۔لیکن آج بے نیازی کا یہ عالم ہے پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل قومی اسمبلی میں حلفا کہتے ہیں کہ عمران کو ملکی تاریخ کی مستحکم ترین معیشت ورثے میں ملی تھی جسے عمران نے تباہ کر دیا۔ عمران کی نفرت میں نواز شریف کو کیسے کیسے وکیل مل چکے ہیں۔پٹیل صاحب کی اس مستحکم ترین معیشت کی حقیقی صورتحال یہ تھی کہ عمران حکومت کو پہلے ہی سال 10 بلین ڈالر کا قرض واپس کرنا پڑا۔جی ہاں دس بلین ڈالر۔
عمران خان کی کارکردگی پر ضرور سوال اٹھنا چاہیے لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد، جب صوبے مالی اور انتظامی طور پر بڑی حد خود مختار ہو چکے ہیں اور صوبائی خودمختاری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، بلاول بھٹو سے بھی سوال ہونا چاہیے کہ عالی جاہ جناب عالی سندھ میں عشروں سے آپ کی حکومت ہے تو ذرا بتا ئیے تو سہی وہاں دودھ اور شہد کی کتنی نہریں آپ نے رواں فرمائی ہیں؟عمران خان پر بے شک گرہ لگائیے کہ ان کی ڈور کوئی اور ہلاتا ہے لیکن ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ حزب اختلاف کی کا کردار کیا ہے، یہ گرجتے برستے اچانک منمنانے کیوں لگتی ہے اور بیانیہ بیعانیہ میں کیوں تبدیل ہو جاتا ہے؟ یہ صادق سنجرانی کو ووٹ کیوں دیتے ہیں کبھی چپ ہو جاتے ہیں کبھی ووٹ کی عزت کا رونا رونے لگتے ہیں یہ اصولوں کی لڑائی ہے یا مفادات کا تحفظ کا کھیل ہے متحدہ اپوزیشن کا مفاد کا یہ تحفظ ہی ہے جس نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ایک پیج پر لے ایا
اس میں کوئی شک نہیں عمران خان معاملات کو اس طرح سنبھال نہیں پا رہے اور۔ان سے وابستہ رومان بھی کمزور ہو رہا ہے لیکن خرابی حالات کی روبکار صرف عمران خان کے نام کیوں بھیجی جائے؟جنہوں نے عشروں یہاں حکومت کی، کوئی غزل ان کے لیے بھی تو کہی جائے۔لیکن نہیں، یہاں احباب جب بھی بزم آراء ہوتے ہیں تو نشانہ صرف عمران خان ہوتے ۔جنہوں نے عشروں اور تین تین بار حکومت کی ان کی کارکردگی بھی ریر بحث انی چاہیے اس وقت کا پاکستان بھی دماغ میں ہونا چاہیے اربوں ڈالر کا مقروض یہ وطن عزیز ڈھائی سال میں نہیں ہوا
عام سا سوال بنتا ہے، تو پھر حزب اختلاف اور ان کی منظور نظر صحافیوں کو کیا ہوگیا ہے؟ جواب سادہ: انہیں عمران خان ہو گیا ہے
کیوں ان سب کے مفادات کے لیے حقیقی خطرہ صرف عمران خان ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں