ملکی سیاست دوراھے پر کھڑی ھو گئی

Spread the love

تحریر: محمد طاھر شہزاد

آج ملک کی سیاست ، معیشت اور لاقانونیت ایسے دوراھے پر کھڑی ھو گئی ہیں کہ نہ آگے جانے کے راستے نظر آتے ہیں اور نہ تھوڑا رک کر سوچنے کا وقت ، ایک طرف تو اسٹیبلشمنٹ کی مضبوط دیواریں گرتی نظر آتی ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کا کردار ان گرتی دیواروں کو سہارا دیتا نظر آتا ھے ؟ میرے خیال کے مطابق اسٹیبلشمنٹ پر اندرونی اور بیرونی دباؤ نے اسٹیبلشمنٹ کی دیواروں کو کھوکھلا کردیا ھے ، آج اسٹیبلشمنٹ ایک طرف تو پیپلز پارٹی کے ذریعے اپنی گرتی دیواروں کو بچانے کی جدو جہد میں لگی ھے تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کو اندازہ ہوگیا ھے کہ وہ اب زیادہ عرصہ پی ٹی آئی کےکردار اور
کارکردگی کے بوجھ کو نہیں سنبھال پائے گی ، اسی لیے میرے تجزیے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ آج اپنے باقی تمام منصوبوں کے ساتھ میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے پر بھی سنجیدگی سے غور کرتی نظر آرہی ھے ۔ مگر اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ ھر اس راستے کو آزمانا چاھتی ھے جس میں میاں صاحب اور مولانہ صاحب کو نکال کر راستہ بنایا جا سکے ، مگر اسٹیبلشمنٹ اپنے آخری آپشن میں میاں صاحب کو حکومت دینے پر بھی تیار ھو گئی ھے جس کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اسٹیبلشمنٹ نے پیپلزپارٹی کو استعمال کرتے ھوئے سینٹ کے الیکشن کروا کر مسلم لیگ نواز کی سینٹ میں عددی اکثریت کو اپنی اسی منصوبہ بندی کی بدولت اتنا کمزور کر دیا ھے کہ اگر اپنے آخری آپشن کے تحت میاں صاحب کو اقتدار دینا بھی پڑے تو میاں صاحب کو سینٹ میں اتنا کمزور کر دیا گیا ھے کہ میاں صاحب کو حکومت سونپ کر اتنا گندہ کیا جاسکے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے , مگر اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ اپنے زرداری کارڈ کو استعمال کر کے پوری کوشش کر رھی ھے کہ لانگ مارچ نہ ھونے دیا جائے یا اتنا بے اثر کر دیا جائے کہ اس کی افادیت ھی ختم ھو جائے ۔ اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے ذریعے لانگ مارچ کو جتناطول دے سکتی ھے دینے کی کوشش کر رھی ھے ۔ جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ ھر حربہ استعمال کرتی نظر
آرھی ھے ، جس کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے باقاعدہ منصوبہ بندی سے پیپلز پارٹی سے ڈیل کے ذریعے ایک طرف مولانا صاحب اور دوسری طرف میاں حب کے ھاتھ سے سینٹ کے سارے کارڈ چھین لیے ہیں ۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ باقائدہ منصوبہ بندی کے ذریعے ھی اپوزیشن لیڈر کا آپشن بھی مسلم لیگ نواز سے چھیننے کے منصوبہ پر بھی عمل پیرا ھے ۔ اسٹیبلشمنٹ نے میاں صاحب کو حکومت سونپنے کی صورت میں میاں صاحب کے ھاتھ باندھنے کی مکمل تیاری کر لی ھے ۔ مگر اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ مائنس نواز اور مولانا کے آپشن پر زیادہ سنجیدگی سے کوششیں کرتی نظر آرھی ھے ۔ جبکہ پیپلز پارٹی ھر وہ ڈیل کرنے پر تیار ھے جس سے صرف پنجاب اس کے ھاتھ آجائے ۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کو نظر آ رھا ھے کہ صرف پنجاب پر قبضے یا پنجاب حکومت میں شامل ھونےمیں ھی اس کی سر وائول ھے ۔ جبکہ مکمل نئے سرے سے الیکشن پیپلز پارٹی کے لیے مزید راھیں بند کر سکتے ہیں ۔ اسٹیبلشمٹ بھر پور دھرنے کی صورت میں میاں صاحب کو گرین سگنل دینے پر بھی تیار ھے اب ۔ اور اسی گرین سگنل کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو بھی دے دیا ھے ۔ تبھی عمران خان صاحب اس متوقع ڈویلپمنٹ کی صورت میں پہلے سے تیاری کرتے نظر آرھے ھیں ، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو کنٹرول کر کے اپنے لیے کچھ راستے بنانے کی کوشش کی جارہی ھے ۔ اپنے آخری آپشن کے طور پر اسٹیبلشمنٹ اب میاں صاحب سے بھی ڈیل کرنے پر تیار توھو گئی ھے مگر اس آپشن کا مقصد بھی صرف پوری دنیا میں اور عوام میں اپنی کھوئی ھوئی ساکھ کوبحال کرنااور میاں صاحب کو گندہ کرنا مطلوب ھے ۔ جس کے لیے مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو استعمال کرنے کا منصوبہ رکھتی ھے جبکہ سینٹ میں تو مکمل ھاتھ باندھ دئیے گئے ہیں میاں صاحب کے ۔ اسٹیبلشمنٹ کو احساس ھو گیا ھے کہ اگر میاں صاحب کو حکومت دے کر گندہ نہ کیا گیاتو نہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو انٹرنیشل اور ملکی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ میاں صاحب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید طاقتور ھوتے جائیں گے ۔ اب اسٹیبلشمنٹ اپنی آخری جدوجہد کے فارمولے پر گامزن ھے جس کے تحت کسی بھی حال میں لانگ مارچ اور دھرنوں کر روکا جاسکے یا طول دیا جاسکے تاکہ جتنا ممکن ھوسکے اس حکومت کو طول دیا جاسکے ۔ جبکہ میرے ذاتی خیال کے مطابق اگر لانگ مارچ کی منصوبہ بندی اچھی کی گئی اور پیپلز پارٹی کے کردار کو مد نظر رکھ کر کی گئی جس کے تحت پیپلز پارٹی کی مزید شرائط یا پرپوزلز کو اہمیت نہ دی گئی تو کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ 100٪ میاں صاحب کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار ھو گئی ھے ۔ میرے خیال کے مطابق پی ڈی ایم کو اب کئی اکائیوں میں بٹ کر لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔ پہلی صورت میں میاں صاحب کو پوری دنیا میں اپنی تنظیمی اکائیوں کو متحرک کرنا چاہیے اور لانگ مارچ سے پہلے جس حد تک ممکن ھو پوری دنیا میں احتجاجی مظاہروں کاسلسلہ شروع کرنا چاہیے ۔ جس کے تحت عدلیہ کے عدل کے 127 ممالک میں 121 وے نمبر کو بیس بنا کر عدل کے قاتلوں کے ضمیر کو ذندہ کیا جائے اور دوسری طرف غیر جمہوری اقدامات کو بیس بنا کر ان مظاہروں سے اپنے راستے کی 80٪ دیواروں کو دھرنے سے پہلے ھی کمزور کر دیناچاہیے ۔ جبکہ لانگ مارچ اگر 98٪ کامیابی سے ہم کنار کرنا ھو تو لانگ مارچ کوبھی 5 اکائیوں میں بانٹ دیا جائے ۔ اور سب اکائیوں کے ٹارگٹ علیحدہ علیحدہ متعین کیے جائیں ۔ جس کے تحت پیپلز پارٹی کو اسلام آباد پارلیمنٹ کی ایک طرف سے جبکہ مسلم لیگ نوازکودوسری سائیڈ دی جائے اگر ایک اکائی میں دھرنا ھوا تو شائید اس بار کوئی ایک کردار اس دھرنے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ھے ۔ اور اسی طرح مولانا صاحب کا احداف اسلام آباد نہیں پنڈی ھونا چاہیے ، اور باقی چھوٹی پارٹیوں کو سپریم کورٹ ، نیب اور الیکشن کمیشن کی عمارتوں کا ٹارگٹ دیا جائے ۔ جبکہ سب کے موٹوز بھی ان کے دھرنے کے مقامات کو دیکھ کر طے کئے جائیں نہ کہ سب کے موٹوز ایک ھی پیمانے پر تشکیل دے دئیے جائیں ۔ جس کے تحت عدالتوں کے گرد موٹوز عدل کے قتل عام سے وابستہ ھوں نہ کہ حکومت گرانے یا دوسرے اداروں کی تذلیل سے وابستہ ھوں ۔ مگر سپریم کورٹ کے راستوں کو ہلاک نہ کیاجائے تاکہ صرف میسج جائے نہ کہ انتشار ، جبکہ روابط کی باھمی ھم آہنگی جتنی اچھی ھوگی تمام اکائیوں کے درمیان اتنی کامیابی کی امید بڑھ جائے گی ۔ میرے خیال کے مطابق اگر تو پی ڈی ایم صحیح انداز میں اور پیپلز پارٹی پر انحصار کیے بنا اپنے لانگ مارچ اور دھرنوں کو مینیج کرنے میں کامیاب ھو گئی تو کوئی شک نہیں اسٹیبلشمنٹ میاں صاحب کو بھی چوتھی بار وزیر اعظم بنانے پر مکمل طور پر تیار ھے اب ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ اسٹیبلشمنٹ پیپلز پارٹی کے کارڈ کو کتنے موئثر انداز میں استعمال کر کے پی ڈی ایم کو کتنا کمزور کر سکتی ھے اس کا اندازہ اگلے چند دنوں میں ھو جائے گا ۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کو اتنا بھی اندازہ ھے کہ پیپلز پارٹی بہت کمزور وکٹ پر کڑی ھے اسی لیے اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کوصرف ایک کارڈ کی حد تک ھی استعمال کرنا چاہتی ھے اور پھر اس کارڈ کی آخری جگہ بھی ردی کی ٹوکری ھی ھے ۔

ایک طرف تو پاکستان میں معیشت طاقت ، اور عدل کے قتل عام کی جنگ جاری ھے تو دوسری طرف بین القوامی طاقتیں جن میں امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل باقائدہ منصوبہ بندی سے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔ انہی بین القوامی طاقتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو استعمال کرتے ھوئے معذور سیاسی کرڈاروں کے ذریعے اپنے راستوں کی دیواریں گرانے کاسلسلہ جاری رکھا اور ملک کے تمام اداروں اور معیشت کو مکمل کھوکھلا کر دیا ھے ۔ میرے ذاتی تجزیے کے مطابق ان ممالک کا ٹارگٹ پاکستان کی معیشت کواس حد تک کھوکھلا کرنا ھے کہ اگلے چند سال تک پاکستان کو دیوالیہ قرار دے کر اپنے لیے ایک نیا پلیٹ فارم حامد کرزئی کی طرز پر تیار کرنا ھے ۔ جس کے لیے امریکہ ، بر طانیہ اور اسرائیل نے پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت ملالہ یوسف زئی کو تیار کر لیا ھے ۔ اب صرف ملالہ کی عمر یعنی 35 سال کا انتظار ھے ملالہ کی لانچنگ کے لیے ۔ جبکہ ملالہ کی لانچنگ میں بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اہم رول دیا گیا ھے ۔ اس لانچنگ سے پہلے بین القوامی طاقتیں پاکستان کی معیشت اور اداروں کی ساکھ کواس نہج پر پہنچانا چاہتی ہیں جہاں پاکستانی قوم ملالہ کی لانچنگ کو آسمانی فرشتہ یا خدائی امداد سمجھ کر قبول کرے ۔ سوچئیے پاکستان ٹوٹنے کی حدوں تک پہنچ جائے ، پاکستان دیوالیہ ڈکلئیر کر دیا جائے ، قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ کی بدولت مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا جائے ، لاقانونیت اور عدل کے قتل عام سے قوم کو بغاوت کی حدوں تک پہنچا دیا جائے اور اسی اثناء میں ملالہ کی لانچنگ کی جائے تو قوم کی آنکھوں میں بجھتی ھوئی امیدوں کی روشنی کو ایک بار پھر جگا کر سراب کے پیچھے دوڑنے پر مجبور کر دیا جائے تو ؟
میرے ذاتی تجزیے کے مطابق اسٹیبلشمنٹ اور بین لاقوامی طاقتیں صرف ملالہ کی عمر کا انتظار کر رھی ھیں ۔ اور اسی درمیانی وقت کو استعمال کرتے ھوے اپنے راستے کی ھر دیوار گرا دینا چاہتی ہیں ۔ اور ابھی بین القوامی طاقتوں کو اپنے اس منصوبے کی تکمیل میں چند سال کا وقت درکار ھے ،
جبکہ میرے خیال کے مطابق ابھی حال ھی میں بھارت کے پائلٹ کو چھوڑ کر خیر سگالی کا جو پیغام بھارت کودیا گیا تھا وہ بھی اصل میں پیغام بھارت کو نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ کو خیرسگالی کا پیغام دیا گیا تھا نہ کہ بھارت کو ۔
بھارت توصرف منہ دکھائی کی رسم میں شریک تھا بس اور ھماری مجبوری تھی بھارت کو منہ دکھائی کی رسم میں شامل کرنے کی ۔
جبکہ اسی کاروائی کادوسراذخمی اسرائیلی ھونے کی وجہ سے ھی ہم پر اسرائیل اور امریکہ کا دباؤ اس حد تک تھا کہ دونو کو واپس کرنا ھماری مجبوری بن گیا تھا ۔ مگر قوم کے سامنے صرف بھارت کا چہرہ دکھایا گیا اسی سے اندازہ لگا لینا چاہیے اپنے اگلے روشن مستقبل کی حدودز کا ؟

آج اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے اپنی آخری کوشش کے طور پر اسی منصوبہ بندی کے تحت میاں صاحب کو اقتدار دے کر اب تمام سیاسی کرداروں کو گندہ کرنے کا منصوبہ بنایا جا رھا ھے تاکہ موجودہ سیاسی کرداروں کا کردار ہمیشہ کے لیے پاکستان سے ختم کر دیا جائے ۔ میرے خیال کے مطابق اب اگر حکومت تبدیل بھی ھوتی ھے تو اس کو چاہیے کہ سب سے پہلے فوری اپنے عدل کے نظام کی اصلاح کر کے قوم کا اعتماد بحال کیا جائے جبکہ عدل وہی ھوتا ھے جو وقت پر فوری ھو اور اتنا سخت ھو کہ اس کی حکم عدولی کا کوئی سوچ بھی نہ سکے ۔ تبھی ممکن ھوسکے گا ملک کی معیشت اور قوم کے اعتماد کو بحال کرنا ۔ نہیں تو پاکستان کا مقدر بھی حامد کرزئی کی طرز پر ھی اختتام پذیر ھو گا ؟

   ذرا سوچئیے  ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں