تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
وزیراعظم عمران خان نے چند دن ضلع جہلم میں ایک شاہراہِ ورثہ کا فتتاح کیا جو نندنہ قلعے سے شروع ہو کر شیوا مندر، ٹلہ جوگیاں، کھیوڑا کی کانوں سے ہوتی ہوئی قلعہ ملوٹ اور کلر کہار میں تخت بابری تک پہنچ جاتا ہے
قلعہ نندنہ کے حصے میں یہ اعزاز بھی ہے کہ اسی جگہ پر بیٹھ کر البیرونی نے تقریباً ایک ہزار سال پہلے زمین کا قطر ناپا جو اس حد تک درست ہے کہ آج جدید ترین آلات کے ذریعے جو پیمائش کی جاتی ہے اس میں اور البیرونی کی پیمائش میں صرف 16.8 کلومیٹر کا فرق ہے۔
قلعہ نندنہ کب بنا ، اس حوالے سے شاہ نامہ اور ابو نصر کی تاریخ میں یہ روایات ملتی ہیں کہ جب خلافتِ عباسیہ یا خلیفہ بغداد کے خلاف بلخ اور خراسان کے گورنروں نے بغاوت کی تو غزنی پر بھٹی راجپوتوں کی حکمرانی تھی جن کے ماتحت تین صوبے اور چھ ریاستیں تھیں۔
956 میں سامانی حکمران عبدلمالک نے است پال عرف بھیم پال سے غزنی کا علاقہ چھین کر اسے ملک بدر کر دیا تو یہ چھوٹا لاہور اور ہنڈ کے مقام پر منتقل ہو گیا۔ 1008 میں جب سلطان محمود غزنوی اور سلطان کیوگوہر کے ہاتھوں است پال کو شکست ہوئی تو اس نے ہنڈ سے بھاگ کر 971 میں کوہستان نمک کی بلندترین چوٹی پر یہ قلعہ بنوایا اور یہ جے پال کے عہد میں مکمل ہوا۔ جے پال نے اس کا نام اپنے بیٹے انند پال کے نام پر نندنہ رکھا جو کہ ریاست بھاٹیہ کا صدرمقام تھا۔
اسی خاندان کے ایک راجہ ترلو چن پال جن کا سلطان محمود غزنوی کے ساتھ امن کا معاہدہ تھا لیکن اس کے بیٹے بھیم پال نے یہ معاہدہ توڑ دیا جس پر سلطان محمود غزنوی نے 1013 میں قلعہ نندنہ پر چڑھائی کی لیکن راستے میں شدید برف باری کی وجہ سے اسے یہ مہم 1014 کے موسم بہار آگے کرنا پڑھی کیونکہ شدید سرد موسم آڑے آرہا تھا۔ سلطان محمود غزنوی کے حملے کی اطلاع پا کر ترلوچن کشمیر کے راجہ سنگرا مہاراجہ سے کمک حاصل کرنے کے لیے گیا مگر پیچھے اس کا بیٹا بھیم پال شکست کھا گیا اور میدانی علاقوں کی جانب فرار ہو گیا۔ یوں یہ قلعہ سلطان محمود کے قبضے میں آ گیا۔
تاریخ جہلم از انجم سلطان شہباز کے صفحہ 266 پر درج ہے کہ اس قلعہ پر تین مختلف دور گزرے ہیں۔ پہلے دور میں پنڈتوں نے اپنا راج جمایا اس دور میں یہاں مخروطی طرز کے مندر تعمیر کیے گئے اور تعمیر میں جو پتھر استعمال کیے گئے ان میں پیپل کے پتے کو نقش کیا گیا تھا۔ اس دور کے چند سکے بھی ملے ہیں جن میں پیپل کے پتے کا نشان ڈھالا گیا تھا۔دوسرا دور راجہ جے پال کا تھا۔ اس دور کے مندر الگ الگ طرز تعمیر کے حامل ہیں جن میں شاہانہ انداز اپنایا گیا۔ تیسرا دور سلطان محمود غزنوی کا ہے جس نے 1014 میں قلعہ نندنہ پر حملہ کیا اور سات دن کے اندر قلعہ کو فتح کر لیا۔ سلطان محمود غزنوی نے یہاں ایک عالیشان مسجد تعمیر کروائی جو فن تعمیر کا عظیم شاہکار تھی۔ فتح کے بعد البیرونی نے قلعہ میں قیام کی سلطان محمود غزنوی سے اجازت مانگی جو سلطان نے منظور کر لی۔ البیرونی نے یہاں ایک تجربی گاہ بنائی اور اس میں اس وقت کے سائنسی آلات نصب کیے جنہیں ہندو لوہے کی کمانیں کہتے تھے۔
روایات ہیں کہ قلعہ نندنہ میں پانی کی شدید قلت تھی اور پانی دور سے لایا جاتا تھا جس کی ذمہ داری شودروں کی تھی۔ پنڈتوں کا عقیدہ تھا کہ کوہستان نمک میں میٹھے پانی کا تمام ذخیرہ کٹاس راج کے نیچے ہے۔ ہندو دیومالا کے مطابق جب پاربتی دیوی نے خود کشی کر لی تو اس کے فراق میں شیو مہاراج کی آنکھوں سے پوتر پانی بہہ نکلا۔ دائیں آنکھ سے گرنے والے آنسو سے کٹاس کا تالاب بنا اور بائیں آنکھ کے آنسو سے اجمیر کے نزدیک پشکر کا چشمہ وجود میں آیا۔ یہ مقدس پانی ہندوؤں کے سوا کسی کو استعمال کی اجازت نہیں تھی
جس پر البیرونی نے قلعہ کی چٹانوں کا مطالعہ کیا اور ایک چٹان کے نیچے کھدائی کروانی شروع کی تو ٹھنڈے میٹھے پانی کا دھارا بہہ نکلا اس پر پروہتوں نے البیرونی کو ’ودیا ساگر‘ کا لقب بھی دیا۔
ایک دوسری روایت یہ بھی کہ شودروں کے خاندان کی ایک لڑکی نے البیرونی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو اس کے خاندان والوں نے اسے زہر دے دیا جس پر وہ کئی دن بے ہوش رہی البیرونی کے علاج سے جب وہ ٹھیک ہو گئی تو اس کے خاندان کے کئی افراد نے اسلام قبول کر لیا۔
البیرونی نے ہندوستان کے بارے میں ’کتاب الہند‘ بھی یہیں بیٹھ کر لکھی تھی جسے دنیا کی اولین علم البشریات کی کتاب مانا جاتا ہے۔
یہاں ایک چشمے کا پانی قلعے سے ہوتا ہوا نیچے کی طرف آتا ہے جس سے پن چکیاں بھی چلتی ہیں۔ قلعے کے دونوں جانب بڑی بڑی چٹانیں ہیں۔ یہ قلعہ اپنے دور کا ایک شاہکار تھا جس کے صدر دروازے میں سرخ پتھر استعمال کیا گیا تھا جو سطح زمین سے 25 فٹ بلند تھا اور 18 فٹ چوڑا تھا جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ روایات یہ ہیں کہ اس قلعہ سے ایک سرنگ قلعہ کسک تک جاتی تھی جو نندنہ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہو سکتا ہے یہاں کھدائی کی جائے تو اس سرنگ کا پتہ بھی مل جائے۔
نندنہ قلعے تک پہنچنے کا راستہ جس گاؤں سے سے گزرتا ہے وہ بھی نہایت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ باغانوالہ نامی اس قصبے کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے شکار کھیلا اور ایک باغ لگوایا اسی دوران بادشاہ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ اس نے یہاں اپنے سر کے بال منڈوا دیے، جس کی تائید میں بادشاہ کے مصاحبین نے بھی ایسا ہی کیا۔ اکبر کا لگایا ہوا باغ بھی آج بھی کسی نا کسی شکل میں موجود ہے لیکن تباہ حال ہے مگر پہاڑوں سے بہتے ہوئے چشمے کی بدولت اس باغ کو نئے سرے سے شان و شوکت دی جا سکتی ہے۔
نندنہ کی بلند پہاڑی پر جانے کے لیے باغانوالہ سے ملحق برساتی ندی شیو گنگا سے گزرنا پڑتا ہے جس کے ارد گرد قدرت اپنے حسین نظاروں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ قلعہ کے آثار بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ مٹ رہے ہیں۔ کبھی یہاں پر آباد مندر سے گھنٹیوں کی آوازیں اور ساتھ ہی واقع مسجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ مگر اب یہ تما م صدائیں نندنہ کی تاریخ کی طرح چپ ہوتی جا رہی ہیں۔ اب ایک امید بندھی ہے ایک دیا روشن ہوا ہے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے نندنہ ٹریل کے افتتاح کے بعد سیاحوں کی آمد شروع ہو تو یہاں پر موجود مسجد پھر سے آباد ہو جائے اور نندنہ کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں اور یہ عظیم تاریخی ورثہ ایک بڑا سیاحتی اور ثقافتی مرکز بن جائے
