اتحاد اور تنظیم پاکستان کی بقا کا سبب!

Spread the love

تحریر محمد عمر توحیدی ( اولڈہم )

بے سمت سفر کا ہر قدم منزل کو دور کرتاہے ،خواہ انفرادی سفر ہو خواہ اجتماعی اس کی رائے گانی سے جب کسی قوم کو یہ گمان یقین میں بدلتا محسوس ہوکہ اس نے تین چوتھائی صدی کی مسافت دائرے کےمحیط پرطے کی ہےتو اس کے افق پر ہراس اور نراس کی گھٹا چھا جاتی ہے ، اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا اس کی خود مختاری کا سورج طلوع ہو رہا ہے یا مائل بہ غروب ہے ۔ قوم کو آج یوم قرارد اد پاکستا ن کے موقع پر اسی مشکل سوال کا سامنا ہے ۔ یہ سوال کل جتنا حقیقی تھا آج بھی اُتنا ہی تلخ ہے لیکن اس کی تلخی جس قدر آج محسوس ہو رہی ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی محسوس کی گئی ہو اورسفر کی رائے گانی کا احساس جتنا اب ہے پہلے شاید اتنا نہیں تھا ،کیونکہ اتنی مسافت طے کرنے کے بعد بھی ہنوز روز اول ہے ۔کہاں 23مارچ 1940میں ہمارے پرکھوں نےمنزل متعین کرکے ایک نقطے سے سفر آغاز کیا تھا ، اور حیران کن طور پر صرف سات سال میںمنزل کا ایک حصہ اپنے نام کرلیا تھا ،مگر افسوس کہ اگلے مرحلہ سفرکے آغاز میں ہی ہماری سمت سفر ایسی بدلی کہ منزل آج تک ہمیں ڈھونڈ رہی ہے ۔اور ہم اپنے قومی وجود کی آدھی لاش لاد کرگھوم رہے ہیں
اس کے اسباب و علل بہت اور پس پردہ کارفرما عناصروعوامل مختلف ہیں ،جو ہماری قومی تاریخ کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں گویا کسی ایک فرد ‘ طبقے یا حادثے پر اُنگلی نہیں رکھی جا سکتی۔قومی تصورات، بنیادی اہداف اور نظریاتی انحراف نے بحیثیت قوم ہمیں بے سمتی کی صورتِ حال سے دو چار کررکھا ہے۔ جبکہ نشیب و فراز سے حاصل ہونے والی دانش مندی اور سوجھ بوجھ منزل کا تعیّن کرنے میں مدد دیتی ہے ۔نظریے کو پختہ کرکے، ہدف کو ذہن میں رکھ کر قومی تصوّرات کے عین مطابق پیش رفت روشن مستقبل کی نوید اور کامیابی کی ضمانت ہے لیکن ایک دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم تین چوتھائی صدی کے سفر کے بعد پہلے سے زیادہ کنفیوژن کا شکار قوم ہیں ۔ اوروں نے کتابِ زندگی کا راز پا لیا جبکہ ہم ابھی تک اپنے قومی نظریئے کو ہمرکا ب کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔اسی لیے اس کے تحت کسی سیاسی و معاشی نظام کے تعیّن سے کوسوں دُور ہیں اوریہ ہمارے لئے یقیناً فکر اور تشویش کی بات ہے۔
یہ تشویش تمام محبِ وطن حلقوں اور طبقوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر بہرحال مملکتِ خداداد پاکستان کے استحکام اور سلامتی کی فکر کریں ،اپنے مفادات کو اس کے مفادات کے تابع رکھیں اور اپنی انفرادی شناخت کو مملکت کی نظریاتی شناخت میں گم کردیں ۔یادرکھیں اتحاد اور تنظیم ہی ہماری بقا کا سبب ہیں ۔بے زمینی سے بڑھ کر کوئی آزمائش نہیں اور بے وطنی سے بڑی آفت کوئی اور نہیں ۔ خدانخواستہ وطنِ عزیز کو کچھ ہوا تو اس کے نتائجِ بد کروڑوں مسلمانوں اور ان کے کنبوں کے لیئے ایک نئے ہالو کاسٹ سے بد تر ہوں گے ۔
ضرروت ہے ہوشمندی سے کام لینے کی، وجوہ کی تہہ میں اُترنے کی اور اپنے مَن میں ڈوب کر یہ جاننے کی کہ خرابی کہاں ہے اور اس کی نوعیت کیا ہے ؟ ہم میں سے ہر ایک اس کا کس حد تک ذمہ دار ہے اور اس کی اصلاح میں اپنا کیا کردار ادا کر سکتا ہے ؟ ہم آج جو کچھ ہیں پاکستان کی بدولت ہیں ۔ اس دولت سے محرومی ہمیں ہر دولت سے محروم کر دے گی ۔ خدا کی زمین اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود ہمارے لئے تنگ ہو جائے گی اور فلسطینیوں کی طرح ہماری یہ صدا چار دانگ عالم میں سننے کو ملے گی
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
پاکستان کی حفاظت ہمارے وجود کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کے نظریاتی تشخص کےلیے بھی۔یہی مقصد ہماری ہر کوشش کا محور اور یہی مشن ہماری ہر جدوجہد کا مرکز ہونا چاہئے ۔ اگر ہم کچھ امور میں اپنے مسائل کو سمیٹ لیں اور کچھ معاملات میں اپنی ترجیحات کو درست کر لیں تو یقین رکھیے معجزہ رونما ہو سکتا ہے ۔ پوٹینشل موجود ہے ۔ پاکستان ۲۱ ویںصدی کا سُپر پاور بن کر اُبھر سکتا ہے ۔ ملت کی تعمیر کا علمبردار بن کر قائدِ اعظم کے تصوّرات کی حقیقی تعبیر میں ڈھل سکتا ہے ۔ ایک ایسی تعبیر جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں