تحریر: محمد طاھر شہزاد
دنیا نے ترقی کی اور دیہاتوں کو خوبصورت شہروں میں بدل دیا اور جنگلوں ، دریاؤں ، نہروں ریگستانوں کو خوبصورت تفریحی مقامات میں بدل کر اپنی قوموں کو خوبصورت ماحول اور پر فضاء آب و ھوا میسر کی ، آج ہم یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں ۔ مگر شائید پاکستان میں ترقی کا معیار تھوڑا مختلف ھے ، ہم تعلیم اور بجٹ کو ھی صرف ترقی سمجھتے ہیں شعور کو نہیں ٫ ہم نے اپنے ملک میں تعلیم دے کر بہت کابل ڈاکٹرز ، انجینیئرز ، سائنس دان ، سکالرز ، معیشت دان اور علماء تو پیدا کردئیے مگر شائید شعور کی کمی کی بدولت ترقی کی منزلوں سے کوسوں دور رھے ,
ہم نے کئی دھائیوں سے ایک ھی شور برپا کیا ھوا ھے کہ تعلیم کا بجٹ بڑھاؤ اسی سے ملک ترقی کرے گا ، جبکہ شعور پر تو کسی بجٹ کی بھی ضرورت نہیں ، جس کی نرسری ماں باپ کی ابتدائی تربیت ھی ھوتی ھے اور اسی تربیت اور شعور میں نکھار استاد پیدا کرتا ھے ، مگر ہم شائید ناکام ھو گئے ہیں اپنے بچوں کو شعور دینے میں۔ میرا ذاتی تجزیہ ھے کہ جس قوم میں شعور کی کمی ھوتی ھے وہ قوم کبھی ترقی کی منزلوں پر قدم نہیں رکھ سکتی ۔ ہم نے ترقی کا معیار صرف تعلیم اور ترقیاتی کاموں سے ماخوذ کیا ھوا ھے جبکہ تعلیم تو صرف ایک اچھے روزگار اچھے مستقبل کا وسیلہ ھی ھے اس سے زیادہ تعلیم کا رول معاشرے میں تب اثر اندازھوتا ھے جب تعلیم کے ساتھ قوم میں شعور بھی پیدا کیا جائے ۔ بدقسمتی سے ہم اپنی نسلوں کو شعور دینے میں مکمل ناکام ھو گئے ہیں تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا ملک کبھی ترقی کی منزلوں پر قدم بھی رکھ سکتا ھے ۔
آج بازاروں ، ہسپتالوں ، عدالتوں اور ھر جگہ شعور تو بہت کم نظر آتا ھے شور بہت سنائی دیتا ھے ۔ آج شعور کی جگہ شور نے لے لی ھے۔ عدالتوں ، پارلیمنٹ اور ھر جگہ شعور کی جگہ شور ھی صرف سنائی دیتا ھے ۔
تھوڑا پیچھے چلتے ہیں ہمارے ملک کے بڑے بڑے شہر مضافات کی مانند نظر آتے تھے ، ہم نے سڑکیں بنائی اربوں روپیہ خرچ کیا صرف قوم کو خوبصورت اور صاف ستھرے اور تیزرفتار سفر کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ، ہسپتال بنائے اربوں روپے سے عوام کو بہترین صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لیے ، عدالتیں بنائیں قوم کو بہترین انصاف مہیا کرنے کے لیے ، کالجز و سکول بنائے تاکہ بہترین انجینئر ڈاکٹرز ، استاد پیدا کریں تاکہ اس ملک کی عوام کو خوبصورت سہولیات سے آراستہ ماحول مہیا کریں ۔ مگر افسوس ہم نے تعلیم بھی دی تو ادھوری ، اس تعلیم میں شعور کا تڑکا لگانے کا ٹائم نہیں ملا یا ضرورت محسوس نہیں کی ہم نے ۔ آج انہی بے شعور ڈاکٹرز ، انجینئرز ، استاد , وکیل ۔ ججز ، جرنلسٹ ، وغیرہ نے ھمارے کالجز ، ہسپتالوں ، سڑکوں ، بازاروں کو جنگل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،
ہم نے سڑکیں تو بنا ڈالی تیز رفتار سفر کی سہولیات کے لیے اور فٹ پاتھ تو بناڈالے تاکہ پیدل چلنے والی عوام کو پریشانیوں سے نجات دلائی جاسکے اور خوبصورت ماحول مہیا کیا جاسکے، اس مقصد کے لیے اربوں کھربوں روپیہ استعمال کیا گیا مگر اس کے باوجود ہم ترقی سے کوسوں دور ھی رھے ۔ ہم جتنا آگے بڑھتے ہیں اس سے دو قدم پیچھے کی طرف سفر طے کرتے چلے آئے ہیں ۔ صرف اسی لیے کہ ہم نے سب کچھ دیااس قوم کو مگر شعور نہیں دے سکے ۔ آج سو سو فٹ چوڑی سڑکیں تو بن گئی ہیں دو رویا مگر ان سڑکوں پر دونو سائیڈ پر تیس تیس فٹ پر ناجائز تجاوزات نظر آتی ہیں اور بقیہ بیس بیس فٹ کی سرکوں پر یہی قوم کے انجینئرز ، ڈاکٹرز ، استادوں ، وکیلوں کی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔ دیہاتوں قصبوں ، بازاروں میں سڑک کے درمیان ٹھیلے لگے نظر آتے تھے اور آج بھی ہم اپنے شہروں میں سڑکوں کی حالت دیکھیں تو ہمیں اپنے دیہاتوں اور قصبوں کا منظر نظر آتا ھے ۔ مجھے تو خوشی ھے کہ ہمیں اپنی اگلی نسلوں کو سمجھانے میں بہت آسانی ہوگئی ھے کہ ہم نے پاکستان کاسفر کہاں سے شروع کیا تھا ، آج ہمارا ملک وہیں پر کھڑا ھے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا ۔ فرق صرف اتنا ھے کہ پہلے ہم کچے راستوں پر یہ ماحول دیکھتے تھے اور آج ہمیں پکے راستوں پر یہی ماحول نظر آتا ھے ۔ درخت پر فضاء ماحول کے لیے ضروری ھوتے ہیں ۔ دیہاتوں میں درخت تو ھوتے تھے مگر آج ھاؤسنگ کالونیوں کے لیے لاکھوں درختوں کو کاٹ کر اس ماحول دوست فضاء کو بھی ختم کر دیا گیا ھے ۔ شائید آج ضرورت ھے ہمیں قانون سازی کی جس کے تحت ذرعی رقبے کو زراعت کو اور آکسیجن مہیا کرنے والی فیکٹریوں کو محفوظ بنایا جاسکے ۔
پہلے دیہاتوں میں طاقت کا راج ھوتا تھا قانون وہی ھوتا تھا جو چوھدری صاحب کی مرضی اور منشاء کے مطابق ھوتا تھا ۔ جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کا قانون چلتا تھادیہاتوں میں ۔ اور آج ہمارے ملک میں بھی نہ آئین ھے اور نہ قانون ۔ عدالتیں بھی رکھیل ہیں تو عدل بھی قاتل ھے انسانیت کا ۔
آج ہم آہستہ آہستہ جنگلوں میں رھنے والی قوموں کی طرف بڑھتے نظر آرھے ہیں ۔ سینکڑوں سال پہلے یہی قانون لاگو تھے کہ طاقتور کمزور پر برتری لے جاتا تھا اور آج پھر میرا سوھنا پنڈ جنگلوں کی طرف سفر کے مراحل بہت تیزی سے طے کرتا نظر آرھا ھے ۔
ہم دیھاتی کلچر کی طرف تیزی سے سفر طے کرتے نظر آرھے ہیں ۔ دیہاتوں میں فٹ پاتھ نہیں تھے کچی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ۔ سوریج کے ناکارہ نظام کی بدولت راستوں پر کھڑے گندے گٹروں کے پانی سے گزرنا بھی مشکل ھوتا تھا اور آج یہی حالت اربوں روپیہ خرچ کرنے کے بعد بھی نظر آتی ھے ہمارے شہروں کی ۔
آج ھماری سوچ یہ ھے کہ ہم کرونا سے بچاؤ کے لیے بازاروں ، جلسے جلوسوں اور شادی بیاہ کی تقریبات پر تو پابندیاں لگاتے نظر آتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس قوم کو ویکسین لگانے کے بھی پیسے نہیں ۔ ہم دنیا سے بھیک مانگ کر اپنی قوم کی ویکسی نیشن کرتے نظر آتے ہیں مگر وہیں پر ہم 25 مارچ کو اسی کرونا کے سخت اور مشکل ترین حالات اور ماحول میں اربوں روپیہ لگا کر پریڈ کے انعقاد کو ضروری سمجھتے نظر آتے ہیں ایک طرف تو دنیا کے سامنے بھکاری بن کر ملک کو شہروں سے دیہاتوں میں بدل کر غربت کی تصویر پیش کر کے امداد مانگی جاتی ھے ۔ تو دوسری طرف اربوں روپیہ ان نازک حالات میں جھونک دیا جاتا ھے ۔
قوم کی ویکسین کے حصول کےلیے ترستی نظروں کا کسی کو احساس نہیں رھا یا شائید قوم کو خیرات پر ھی پلنا ھے اب ۔ اور ویسے بھی پنڈ میں رھنے والوں کو سر اٹھا کر دیکھنے کا حق کس نے دیا ھے چوھدری صاحب کی مرضی روٹی دیں یاسوٹی ،
آج ھمارے لیڈران کو ووٹ چاہیے بس ، انہیں فکر ھے تو صرف ووٹ ٹوٹنے کی فکر ھے جبکہ ملک ٹوٹنے یا اجڑنے کی کسی کو بھی فکر نہیں ۔ آج ناجائز تجاوزات اور جنگل کے قانون نے ہمارے ملک کو گاؤں اور قصبے میں بدل دیا ھے ، مگر ہمارے ارکان پارلیمنٹ کو جنگل اور دیہات میں بدلتے شہر اس لیے پسند ہیں کہ ان کے ووٹر نہ ٹوٹیں ۔ آج فٹ پاتھ پر قبضوں کی بھرمار ھے ۔ سڑکیں ناپید ہوچکی ہیں ٹریفک کے لیے ، مگر ھمارے اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان خوش ہیں اس ملک کو پنڈ میں بدلتادیکھ کر ، میں پورے ملک کی مثال نہیں دونگا صرف اس حکومت کے اہم اور طاقتور رکن اسمبلی شاہ محمود قریشی صاحب کے حلقے کی ھی مثال دونگا ۔ ابھی حال ھی میں چند ماہ پہلے ممتاز آباد مارکیٹ کی سڑک کو خطیر رقم خرچ کر کے دو رویہ بنایا گیا ۔ قوم خوش ھوئی کہ علاقہ ترقی کر گیا ھے مگر جلد ھی یہ خوش فہمی بھی ختم ھو گئی جب اسی ترقی کو دیہاتی کلچر میں تبدیل کر دیا گیا ۔ سروس روڈز ذاتی گیراج یا فوڈ بازاروں کی بھرمار سے ناپید ھو چکے ہیں مگر شاہ صاحب اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کو صرف اپنا ووٹ بینک چاہیے چاہے اس کے لیے پورا ملک دیہات یا جنگل میں بدل جائے ۔ شاہ صاحب کا حلقہ توصرف ایک مثال ھے جبکہ آج ہمارا پورا ملک جنگل و دیہات میں تبدیل ھو چکا ھے ۔
پورے ملک میں ناجائز تجاوزات کمشنرز کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں مگر مجال ھے کبھی کسی کمشنر سے بازپرس بھی ھوئی ھو کہ اپنے ملک کو پنڈ میں کیوں بدل دیا ھے ، شائید اس میں بھی شعور کا ھی قصور ھے ۔ کاش ہمارے اعلاء مقام پر بیٹھے ارکان پارلیمنٹ اور کمشنرز و دیگر ذمے داران تعلیم کے ساتھ شعور بھی رکھتے ۔
شہروں سے پنڈ تک کے سفر میں ہماری عدلیہ اور اداروں کا بہت اہم رول رھا ھے ، جس کا اندازہ دنیا میں ہمارے پنڈ پاکستان میں عدل کے 157 میں سے 153 ویں نمبر سے لگایا جا سکتا ھے ۔ یعنی یہاں بھی چوھدری صاحب کی چودھراھٹ نے ھمارے پنڈ کو اتنی عزت سے نوازا کہ ہمارا یہ پنڈ جنگل میں بدلنے کے لیے صرف چار ممالک ہم سے آگے رہ گئے ہیں ، جس تیزی سے ہم عدل کے قتل عام پر لگن اور محنت سے کام کر رھے ہیں امید ھے اگلے چند سال تک ہمارے عظیم پنڈ کو جنگل کا درجہ بھی مل ھی جائے گا ۔
آج اسی شہر سے پنڈ تک کے گھٹن سفر میں ٹی ایل پی پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا مگر مجھے سمجھ نہیں آئی اس نوٹیفکیشن کی ، لگتا ھے اس بار بھی ہمیشہ کی طرح ان سلگتے انگاروں نے چوھدری صاحب کی پگ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ھے تبھی چوھدری صاحب کو اپنی پگ کو بچانے کے لیے اس قسم کے نوٹیفکیشن کی ضرورت پڑی ؟
کیا اس قسم کے نوٹیفکیشن سے چوھدری صاحب کی پگ کو محفوظ بنایا جاسکتا ھے یا پھر ان فیکٹریوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ھے جن کی بدولت یہ آگ بھڑکتی ھے ۔
آج چوھدری صاحب کے کردار اور اعمال پر بھی سوچنا چاہیے کہ کب تک چوھدری صاحب اپنی چودھراھٹ کی ڈھاک کے لیے ایسے ایندھن کو چنگاریاں لگاتے رہیں گے جن کی آگ چوھدری صاحب کی اپنی پک کو بھی بار بار اپنی لپیٹ میں لے لیتی ھوں ۔ آج کارآمد لکڑیوں کو تلف کرنے کی بجائے ان چنگاریاں لگانے والی تیلیوں کو تلف کرنا ھو گا ، کیونکہ میرا نہیں خیال کہ لکڑی کا استعمال تو ہمارے کنٹرول میں ھوتا ھے کہ اس لکڑی کو آگ لگا کر ھاتھ سینکنے کے لیے یا دوسروں کی پگڑیوں یا گھروں کو جلانے کے لیے استعمال کرنا ھے یا فرنیچر اور خوبصورت اشیاء بنا کر اپنے گھر کو پر آرائش اور خوبصورت بنانا ھے ۔ آج ہمیں فیصلہ کرنا ھے کہ ہمیں شہر سے پنڈ اور پھر جنگل تک کا سفر اسی تیزی سے طے کرنا ھے یا انہیں لکڑیوں کے کارآمد استعمال سے ملک کو سنوارنے کا کام بھی لیا جاسکتا ھے ۔ 73 سال کی تاریخ میں کتنی ھی لکڑیوں کو آگ لگائی چوھدری صاحب نے اور تب تک اس آگ کو ھوا دیتے رھے جب تک کمو کمہار کی پگ جل نہیں گئی مگر ھر بار کمو کمہار کی پگ کے ساتھ پورے گھر کو بھی اس آگ نے جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا ۔ ھر بار ہمیں چوھدری صاحب کے چودھراھٹ نے شہر سے پنڈ میں لا کھڑا کیا ،
آج ہمیں چوھدری صاحب کے ھاتھ سے ماچس چھیننے کی ضرورت ھے اگر ہم نے اپنے گھر کو مستقبل میں اس آگ سے بچانا ھے تو ؟ نہیں تو ہم ھر بار جتنا ترقی کی طرف سفر کرتے جائیں گے چوھدری صاحب کی چودھراھٹ قائم رکھنے کے لیے لگائی گئی آگ اس ملک کی ترقی سے پنڈ تک کے سفر تک ھمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گی ۔
کیا ہمارے ادارے بھی قوم سے مخلص ہیں یا صرف قوم اور ملک سے محبت اور حبلوطنی کے ڈھول بجا کر ھی قوم کو بیوقوف بنایا جارھا ھے ۔ کیا کوئی ادارہ بھی ایسا ھے جو آج قوم کے لیے قربانی دے سکتا ھے یا جن پیسوں سے آج غریب و لاچار قوم کی ویکسین کی جاسکتی تھی اسی پیسے کو پانی کی طرح اپنی تشہیر پر لگا دیا جاتا ھے ؟
آج چوھدری صاحب ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ پاکستان نہیں تو ہم بھی نہیں جبکہ میرا نہیں خیال کہ قوموں سے ملک بنتے ہیں ملکوں سے قومیں نہیں ۔ کیا پاک و ھند کے ٹکڑے ھونے سے بھارت ختم ھو گیا تھا یا مسلمان ؟
کیا ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی علیحدہ پہچان پاکستان کے نام سے نہیں بنا لی تھی ۔ اور کیا پاکستان سے بنگلہ دیش کے علیحدہ ھو جانے سے بنگالی ختم ھو گئے تھے یا بنگالیوں نے بنگلہ دیش کے نام سے اپنی علیحدہ پہچان بنا لی تھی ۔ میرے خیال کے مطابق آج چوھدری صاحب کو بھی سوچنا ھوگا کہ اگر وہ اپنے پنڈ سے مخلص ہیں تو اپنے ھی پنڈ کو صرف اپنی پگ کو اونچا رکھنے کے لیے بار بار کارآمد مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکنے والی لکڑیوں کو آگ لگانے سے گریز کرنا چاہیے ، کہیں ایسا نہ ھو کہ کمو کمہار جیسے کمی کمین سمجھے جانے والے کارآمد انسان اپنی علیحدہ پہچان نہ بنا لیں ۔ آج اگر چوھدری حب کے ھاتھ سے ماچس چھین کر ان کے مائنڈ سیٹ اپ کو تبدیل نہ کیا گیا تو چوھدری صاحب کا اور کمو کمہار کا یہ پنڈ ہمیشہ جلتا ھی رھے گا ، اور ایک دن اچانک چوھدری صاحب پر آشکار ھوگا کہ کمو کمہار نے اس چودھراھٹ اور آگ کے کھیل سے تنگ آ کر اپنا برتنوں کا کارخانہ لگا کر اپنی علیحدہ پہچان بنا لی ھے ،
مجھے تو صرف تعلیم چاہیے اپنے آپ کو منوانے بلند مقام پر پہنچانے عزت کے لیے مگر شعور کی جستجو کیوں نہیں جس سے ہمارے کردار ہماری پرورش ہمارے ظرف کی بلندی کا پتہ چلتا ھے ۔ مگر شائید ہم جنگلوں میں رھتے رھتے خود بھی جنگلی جانور ہی بن گئے ہیں اور جانوروں سے شعور کا کیا تعلق ؟
ذرا سوچئیے ؟