تحریر: محمد طاھر شہزاد
چند روز پہلے چیف آف آرمی سٹاف نے ملک کے نامور اور بلند قد کاٹھ کے سلیکٹڈ صحافیوں کو بلا کر بریفنگ دی جبکہ مجھے بریفنگ دینے پر تعجب نہیں ھوا بلکہ تعجب تب ھواجب معلوم ھوا کہ جن صحافیوں کو بریفنگ میں بلایا گیا ان کے بظاھر تو قد کاٹھ بہت بلند نظر آتے تھے مگر بریفنگ کے دوران حقیقت میں بہت چھوٹے قد کے دکھائی دئیے ،
یا شائید آج کی صحافت میں سیاست دانوں سے تو تلخ سوالات پوچھنے کی ہمت بھی ھے مگر جرنیلی سیاست کے سامنے ان سب کی زبان بھی شل ھو جاتی ھے اور دماغ بھی شائید مفلوج ، پتہ نہیں آج صحافت کی یہ حالت خوف کی بدولت ھوئی یا ؟
یہی سلیکٹڈ جرنلسٹس جتنے تندو تیز سوالات اور غیر فطری حملے وہ بھی اپنی پوری آب و تاب گھن گھرج کے ساتھ ملک کے وزرائے اعظم اور دیگر سیاسی کرداروں پر کرتے نظر آتے ہیں مگر ملک کے چیف آف آرمی سٹاف کی پریس بریفنگ میں بظاھر بلند قد کاٹھ کے دکھائی دینے والے انہی جرنلسٹس کی زبانیں مفلوج کیوں نظر آتی ہیں ، یا شائید ان بلند قد کاٹھ کے دکھائی دینے والے جرنلسٹس کو بھی تالیاں بجانے کے لیے ھی بلایا جاتا ھے ، اور شائید آج کی صحافت کے قد کاٹھ کا انحصار بھی ان کی تالیاں بجانے کی صلاحیت کے ھی مرحون منت ھے ، آج یہی حقیقت ھے کہ سیاستدانوں کے لیے تو شائید یہ ملک ٹشو پیپر نہیں مگر جرنیلوں کے لیے یہ ملک ضرور ٹشو پیپر سے کم نہیں ھے یا شائید آج سیاست دانوں ، جرنلسٹس ، میڈیا ، ججز اور جرنیلوں سبھی کے لیے یہ ملک ٹشو پیپر ھی تو ھے ؟
جاوید چوھدری صاحب آپ کو بھی معلوم ھے کہ اس ملک کی عدلیہ رکھیل سے کم نہیں تو کیا آپ جیسے کالم نگار انتظار میں ہیں کہ آیک بار پھر بھٹو کی تاریخ دھرائی جائے تبھی سیاست دان کی مظلومیت ثابت ھو گی ۔ جبکہ جرنیلی مظلومیت کو ثابت کرنے کے لیے تو آج کے جرنلسٹس کی تالیاں ھی بہت ہیں ۔
کیا ہمیں بھٹو بناتے رھنے ھونگے اور ان بھٹؤں کو ٹشو پیپر سمجھ کر ڈسٹ بن میں پھینکتے رھنا ھوگا ؟ یا شائید آج کے سہمے ھوے خوفزدہ زنجیروں میں جکڑے ھوے جرنلسٹس جرنیلوں سے اتنے مرعوب ہیں کہ ان کی ایک بریفننگ پر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں ۔ جبکہ ایک بھٹو کی موت پر بھی سوال ھی نہیں آنکھیں بھی خشک کیوں رہتی ہیں ھماری اگلے بھٹو کے انتظار میں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ جس ملک کی عدلیہ ایک رکھیل سے ذیادہ کچھ نہ ھو اس ملک میں رہ کر ملک کو کبھی بچایا جاسکتا ھے سوائے اس کے کہ ایک اور بھٹو کی تاریخ دھرائی جائے اور ہم ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے پولٹیکل انجیرنگ سے تیار کردہ شاھکار یا نئے ٹرک کی تلاش میں نکل کھڑے ھوں اس امید کے ساتھ کہ یہ ٹرک ہمیں منزل پر پہنچا ھی دے گا شائید ،
میرے خیال میں میاں صاحب کا باھر بیٹھ کر ملک کے لیے لڑنے کا فیصلہ بلکل درست ھے کیونکہ ایک جرنیلی بریفنگ پر زاروقطار آنسو بہانے والے جرنلسٹ وہی سوچتے ہیں یا سوچنے پر مجبور ھوتے ہیں یا سوچنے پر مجبور کر دئیے جاتے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ برین واشنگ سے نتائج حاصل کرنا چاہتی ھے اور شائید آج کی اسٹیبلشمنٹ یا حکومتیں ہمیشہ اپنی پریس بریفنگز میں مدعو بھی ایسے ھی جرنلسٹس کو کرتے ہیں جن کو صرف تالیاں بجانے کا وسیع تجربہ ھو جبکہ سوال پوچھنے والے طلعت حسین جیسے جرنلسٹس کو کبھی کیوں نہیں بلایا جاتا ۔ مجھے تو تب خوشی ھوتی یا ان جرنلسٹس کا قد کاٹھ تب بلند نظر آتا جب یہ کٹی ھوئی زبان اور اور زنجیروں میں جکڑے ھوے ھاتھوں پیروں کے ساتھ بریفنگ میں جانے سے انکار کر دیتے یا اپنے پروفیشن کا صحیح معنوں میں حق ادا کر کے اپنے بلند قد کاٹھ کو ثابت بھی کرتے نظر آتے قوم کے سامنے ،
میرا نہیں خیال کہ ایک بریفننگ پر زاروقطار رونے والے کل ایک اور جوڈیشنل مرڈرکا انتظار کرتے نظر نہیں آرھے ۔ حالانکہ میں خود میاں صاحب کو جمھوریت کا قاتل سمجھتا ھوں کیونکہ میاں صاحب نے بھی ہمیشہ ملک کے عظیم مفاد کے نام پر جمھوریت کی پیٹھ میں چھرا ھی گھونپا ھے ۔ اور جواز یہ دیا گیا ہمیشہ کہ ملک کو آگے دھکیلنے کے لیے کچھ کمپرومائزنگز ضروری ھوتی ہیں ۔
جس کی تازہ مثال جرنل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن پرقانون سازی کی حمایت قوم کے سامنے ہے ۔ جبکہ ایف اے ٹی ایف کے بل کو بھی غور سے پڑھا جائے تو اندازہ ھو جائے گا کہ جمھوریت اور انسانیت کا قتل کیا ھے میاں صاحب نے یا قوم کی خدمت یا جرنیلی سوچ کی پوجا ؟
تحفظ پاکستان اور اس قسم کے بہت سے بل میرا نہیں خیال کہ میاں صاحب ملک کے عظیم مفادات کے نام پر لائے یا جرنیلی پجاری بن کر ؟
مگر ان سب کے باوجود میں میاں صاحب کے موجودہ فیصلے کو بہترین دانشمندی سے ھی منصوب کرونگا جہاں عدل بھی رکھیل ھو اور عدالتیں بھی مجرے خانے ،
جہاں عدل کے دھیمے دھیمے سروں کی بجائے ڈھول کی تھاپ پر گھنگرؤں کی جھنکار اور تھرتھراتے ننگے بدن تماش بینوں کی آنکھوں کی تازگی کاسبب ھوں وھاں مجھ جیسے عدل کے متلاشی انسانوں اور جمھوریت اور انسانیت کے متلاشی تماش بینوں کا کیا کام ؟
میرا نہیں خیال کے ان مجرہ خانوں میں مجروں کی رونق بڑھانے سے بہتر ھے باھر بیٹھ کر بہتر طریقے سے اپنی سیاسی بیساکھ کھیلی جائے ۔ میں تو ابھی بھی میاں صاحب کی پالیسی سے مکمل اتفاق نہیں کرتا یا شائید میں میاں صاحب کی جگہ ھوتاتو میں اس سے کہیں آگے جا کر سوچتا کیونکہ مجھے ملک کے عظیم مفاد کے نام پر جرنیلوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو نہیں ، جبکہ میرا نہیں خیال کہ ہمارے
ملک میں کوئی بھی ادارہ یا شخصیت مخلص ھے اس ملک سے سوائے چند گنی چنی مخصوص شخصیات کے جبکہ سب اپنی اپنی کھینچا تانی میں مصروف ہیں صرف ،
ملک کے عظیم مفاد کا کارڈ تو صرف قوم کے لیے وہ لولی پاپ ھے جسے ھر دور میں قوم کو چوسنے کے لیے دے دیا جاتا ھے اور یہ شعور سے عاری قوم ھر نئے لولی پاپ کو انجوائے کرتی اور تالیاں بجاتی نظر آتی ھے ۔ میرا نہیں خیال کہ اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں انسانیت یا ملک کی کوئی اہمیت ھے یہ تو صرف لولی پاپ ھے قوم کو انجوائے کرانے یا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کا ۔ جبکہ قوم بھوک سے مرے یا عدم انصاف سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ، ملک میں اپنی قوم کی چیخوف پکار کا اس جرنیلی سوچ پر کبھی کوئی اثر نہیں ھوتا جبکہ یورپین برادری کی ایک قرار داد سب کی نیندیں حرام کر دیتی ھوں تو وھاں اگر میں میاں صاحب کی جگہ ھوتاتو شائید پوری دنیا میں اپنے تنظیمی ڈھانچوں کو منظم کر کے بھر پور طریقے سے استعمال کر کے اپنی عدلیہ کے عدل کو مجرے خانوں سے اور طوائفوں کے مجروں سے آزاد کروانے میں بھرپور کردار ادا کرتا ۔ کیونکہ میرے خیال میں جہاں عدل کے بلند و بالا اسٹیج مجرے خانوں اور رقص و سرور کی محفلوں کے لیے مختص کر دئیے جائیں وھاں انسانیت کے قتل عام اور چیخوپکار کی آوازیں رقص و سرور اور مجروں کی چھنکار اورشور میں کسی کو سنائی نہیں دیتی اور وھاں مجرا خانوں سے دور ھی شور مچانا پڑتا ھے انسانیت کے قتل عام پر ۔ آج ماؤں بہنوں بیٹیوں کی عزتیں لوٹنے والے انصاف اور انسانیت کا قتل عام کرنے والے تو ان مجرا خانوں کی رونقیں ہیں جبکہ انسانیت کی اس بے قدری پر نہیں بلکہ ایک بریفننگ پر زاروقطار آنسو بہانے والے میاں صاحب کو اخلاقیات کا درس دیتے نظر آتے ہیں ۔
سابقہ ادوار میں میاں صاحب بھی سینکڑوں کمپرومائزنگز کرتے نظر آئے ملک کے عظیم مفاد کے نام پر اور مجھے مستقبل میں بھی کوئی اچھی امید نہیں میاں صاحب یا کسی بھی سیاست دان سے مگر پھر بھی میں میاں صاحب کی موجودہ حکمت عملی کو موجودہ حالات کی بہترین حکمت عملی تصور کرتا ھوں مگر ادھوری ۔
مجھے یہ بھی معلوم ھے کہ اپنے احداف حاصل کرنے کے بعد مستقبل میں یہی میاں صاحب ملک کے عظیم مفادات کے نام پر ایک بار پھر قوم کو لولی پاپ کھلاتے ھی نظر آئینگے ۔
طلعت حسین صاحب میرے فیورٹ اینکر پرسن ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کسی کے خلاف یا کسی کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ انسانیت اور حق و سچ کے لیے اپنا قلم اور آواز بلند کی ھے اور اس کی بہت بڑی قیمت بھی ادا کی ھے اور آج بھی اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار ہیں اپنے ذندہ ضمیر کی بدولت جبکہ مردہ ضمیر تو آج بھی آپنی پوری آب و تاب سے گرج بھی رھے ہیں اور برس بھی رھے ہیں مگر صرف اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور مفادات کے لیے ۔ میری دعا ھے کہ طلعت حسین جیسے حقیقی معنوں میں بلند قد کاٹھ کے کالم نگاروں اور جرنلسٹس کو خدا اپنی حفظ و امان میں رکھے ( آمین ) اور شائید آج اس قوم کو طلعت حسین جیسے بے باک اور نڈر جرنلسٹس کی ھی ضرورت ھے نہ کہ ملک کے عظیم مفاد کے نام پر کمپرومائزنگ کرنے والے جرنلسٹس کی ,
کبھی حامد میر صاحب بھی میرے فیورٹ ھوتے تھے مگر آج میں انہیں مرحوم کے طور پر یاد کرتا ھوں کیونکہ جب انسان کا ضمیر کمپرومائزنگ پر آمادہ ھو جاتا ھے تو جسم تو زندگی کی نوید دیتا نظر آتا ھے مگر انسانیت کے جنازے کے ساتھ ۔۔ جس قوم کے کالم نگاروں کی سوچ ایک بریفنگ بدل سکتی ھو یا جس قوم کے جرنلسٹس اور کالم نگاروں کا قد کاٹھ تالیاں بجانے تک ھی محدود ھو انہیں عدل کے سٹیج پر مجروں کے شور میں انسانیت کی تذلیل کا شور کیسے سنائی دے سکتا ھے ؟
کاش آج کے کالم نگار جرنیلی تاریخ اور کردار کو دیکھ کر قلم اٹھاتے نہ کہ ایک جرنیلی بریفنگ پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے نظر آتے ، شائید آج کے جرنلسٹس بھول گئے ہیں کہ 3 دریاؤں کو بیچنے والے سیاسی کردار نہیں تھے ، 73 سال میں جتنی توجہ سیاسی انجینرنگ پر دی گئی اتنی اگر ملک میں ھم آھنگی قائم کرنے پر دی جاتی تو شائید آج پاکستان میں ڈیموں کی بھرمار ھوتی ۔ ملک کی معیشت قابل رشک ھوتی ۔
جہاں بلوچستان اور راجن پور جیسے اضلاع تیل و گیس سے مالامال ھوں اور پورا ملک معدنیات کی دولت سے مالا مال ھو اور وھاں پر بھی صرف ایک آواز سنائی دیتی ھو کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہنی وھاں ڈیم نہیں بنتے وھاں معیشت نہیں پھلتی پھولتی بلکہ وھاں صرف انسانوں اور انسانیت کا خون ھی بہتا نظر آتا ھے ۔ آج ہم یورپ ، امریکہ و عرب کے سامنے تو گڑگڑاتے نظر آتے ہیں مگر آپنے ملک اپنی قوم کے لیے ہم نے چوڑیاں نہیں پہنی ھوئی کی آواز کس خوش فہمی کی نوید سناتی نظر آتی ھے ؟
جاوید چوھدری صاحب اپنے کالم ” یہ ملک ھے ٹشو پیپر نہیں ” میں خود صرف ایک بریفنگ کی بنیاد پر ون سائیڈ کالم لکھتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف طلعت حسین صاحب کو ایک جامع پروگرام پر مبارکباد دینے کی بجائے ون سائیڈ ھونے کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں ۔ کاش جاوید چوھدری صاحب سابقہ اسٹیبلشمنٹ کی بریفنگنز اور کردار کی روشنی میں خود عمل کرتے تو ذیادہ جان ھوتی ان کی تنقید میں۔ کل باجوہ صاحب نے قرضوں کے معاملہ میں اسحاق ڈار پر تنقید کی اور بہت سے الزامات بھی لگائے اور ہماری صحافت نے بھرپور تالیاں بجا کر ان کاسر فخر سے بلند بھی کردیا ، مگرکیا جاوید چوھدری صاحب اور دیگر جرنلسٹس کو ہمت ھوئی اس وقت باجوہ صاحب سے یہ سوال کرنے کی کہ چلو اسحاق ڈار صاحب نے تو غلطی کی ھوگی یا نہیں مگر آ پ نے 5.8٪ معیشت کے گراف کو منفی پر لا کر کتنی بھلائی کا کام کیا ملک و قوم کے لیے یا ملک میں گردشی قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے بہانے مہنگائی کا طوفان برپا کرنے کے باوجود کیا گردشی قرضوں سے نجات دلاسکے یا دونو محافظوں پر ملک کو تباھی و بربادی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ؟ کیا ان سلیکٹڈ جرنلسٹس صاحبان نے باجوہ صاحب سے یہ سوال پوچھا کہ اگر اسحاق ڈار صاحب رشوت مانگ رھے تھے ویسپا کمپنی سے تو کیا آپ نے اب جبکہ آج تو سب ایک پیج پر ہیں کیاویسپاکمپنی کی لانچنگ کروا دی ھے آپ نے ؟ مگر یہ سوالات اور الزامات کالم نگار ایک سیاست دان سے تو پوچھ سکتے ہیں مگر ان میں اتنی بھی جرائت نہیں ھوتی کہ ایک جرنیل سے ان کے کردار اور اعمال کی روشنی میں ھوئی ملک کی تباھی و بربادی پر تالیاں بجانے کے سوا کوئی سوال بھی کر سکتے ۔ کیا اس وقت تو چیف آف آرمی سٹاف اسحاق ڈار سے پوچھتے ہیں کہ یہ قرضے اتارے نہیں جاسکتے مگر آج کیا باجوہ صاحب کی نظروں میں آئی ایم ایف سے کیے گئے معیشت کے ایگریمنٹس پر شرمندگی کی پرچھائیاں نظر آئیں کیا جاوید چوھدری صاحب یادیگر جرنلسٹس کو مگر شائید نہیں کیونکہ کمزور سیاستدانوں کی نظروں میں نظریں ڈال کر تو یہ سلیکٹڈ جرنلسٹس بات کر سکتے ہیں مگر جرنل صاحب کے سامنے نظریں اٹھانے کی توہین کون کرسکتا تھا ؟ یا شائید اس پر بھی تالیاں ھی بجاتے نظر آئے ھونگے تمام بریفنگ پر موجود جرنلسٹس صاحبان ۔ یا شائید چیف صاحب بھی اور آج کے حکمران بھی اپنی بریفنگ پر انہیں صحافت کے ستونوں کو مدعو کرتے ہیں جو خوبصورت انداز میں اور زور دار تلیاں بجانے میں ھی مہارت رکھتے ھوں ۔ کل باجوہ صاحب کو قوم کو اورنج اور میٹرو کی سفری سہولیات دینے اور 20 روپے ٹکٹ پر تو اعتراضات تھے اور قوم کے پیسوں کے ضیاء کا دکھ بھی مگر کیا کسی سلیکٹڈ جرنلسٹس نے پوچھنے کی ہمت کی کہ آج جب سب ادارے ایک پیج پر ہیں تو چینی ۔ ایل این جی ، گندم ، پاور سیکٹرز اور دیگرمیں قوم اور ملک کو ھزاروں ارب کا ٹیکہ لگانے پر دکھ نہیں ھوا کیا آج جرنل صاحب کو ،
مگر تب بھی شائید کالم نگار تالیاں ھی بجاتے نظر آئیں ھونگے کیوں کہ کل تو سب ایک پیج پر نہیں تھے مگر آج تو سب ایک پیج پر ہیں ، مگر مجھے امید ھے اس پر بھی کسی بھی جرنلسٹ کو اپنے چیف صاحب سے سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ھوئی ھوگی اور سوال بھی پوچھتے تو کیسے تالیاں بجانے سے فرصت ملتی تو سوچنے اور سوال پوچھنے کی ہمت کرتے ۔ کیا کسی بھی جرنلسٹس نے پوچھنے کی ہمت کی چیف صاحب سے کہ بی آر ٹی پر آپ کیا کہتے ہیں جبکہ آج آپ سب ایک ھی پیج پر بھی ہیں ؟ مگر بی آر ٹی کو سپورٹ کرنے والے چیف صاحب جب اورنج ٹرین اور میٹرو پر تنقید کرتے ہیں تو سامنے بیٹھے جرنسٹس صرف تالیاں بجاتے ھی کیوں نظر آتے ہیں،
شائید انہی بھرپور تالیوں کے شور میں ھی ھمارے بظاھر بلند قد کاٹھ کے دکھنے والے سلیکٹڈ جرنلسٹس صاحبان چیف صاحب کی آنکھوں میں موجود ٹھوڑی سی بھی شرمندگی کی جھلک دیکھ پائے ھوں ؟
کیا وھاں موجود کسی بھی جرنلسٹ نے چیف صاحب سے کہا کہ سر اسحاق ڈار صاحب نے کمیشن مانگا یہ آپ کا الزام ھے جبکہ کیا ھی اچھا ھو ہم اسی وقت اسحاق ڈار صاحب سے بھی میڈیا پر ساری قوم کے سامنے جوابات پوچھ لیتے ہیں ۔ اس طرح قوم کے سامنے آپ کی سچائی کی تصدیق بھی ھو جائے گی اور آپ کے قد میں اضافہ بھی مگر شائید سامنے بیٹھے سب کالم نگار تو صرف تالیاں بجانے میں ھی مصروف رھے ھونگے کیونکہ چیف صاحب سے سوال پوچھنے کی ہمت ھوتی تو چیف صاحب اپنی بریفنگ میں طلعت حسین جیسے دلیر جرنلسٹ کی طرح انہیں بھی کبھی مدعو نہ کرتے ۔ مگر آج شرمندگی کی بجائے یہ سلیکٹڈ جرنلسٹ فخر محسوس کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں اپنی بریفنگ پر چیف صاحب نے مدعو کیا اور ان کی تالیوں پر بہت محظوظ ھوے ۔ شائید ان سلیکٹڈ جرنلسٹس نے چیف صاحب کا سر تو تالیاں بجا بجا کر فخر سے اونچا کر دیا ھو مگر صرف تالیاں بجا بجا کر اپنا اور اپنے پروفیشن کا قد بہت چھوٹا کر دیا ۔ کیونکہ تالیاں تو مجھ جیسے انتہائی چھوٹے قد کے جرنلسٹ بھی بھرپور انداز میں بجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر بلند قد کاٹھ کے حامل کالم نگاروں نے صرف تالیاں بجا کر اپنا ھی قد مجھ جیسے چھوٹے جرنلسٹس کے برابر لاکھڑا کیا ۔
چوھدری صاحب نے کہا یہ ملک ھے تو ہم ہیں اور یہ ملک نہیں تو کچھ بھی نہیں یہ تاریخی فقرہ وہ قد آور جرنلسٹ کہتاسنائی دے رھا ھے جس نے کئی قوموں کو ٹوٹتے بکھرتے اور انہی بکھرتی قوموں سے نئی مالائیں بنتے دیکھا ھو جب اس سوچ سے ایسے قلمات ادا ھونے لگیں تو جان لیں کہ قلم اب آزاد نہیں ۔ زبان کٹ چکی ھے , ھاتھ پیر زنجیروں میں جکڑ ے ھوے ہیں ۔ میرا نہیں خیال کہ کسی ملک کے ٹوٹنے سے قومیں بکھر جاتی ہیں کیونکہ میرا خیال ھے کہ قومیں ملک بناتی ہیں نہ کہ ملک قوموں کی پہچان ھوتے ہیں ۔
آج اگر قاضی رکھیل کا کردار ادا کرتے نظر آتے ھیں تو صحافت بھی دلال کے روپ میں ھی نظر آتی ھے ۔ جبکہ زبان رکھنے والے جرنلسٹس اور صرف تالیوں کے شور کی جکہ سوالات زبان پر لانے والے جرنلسٹس کو تو آج چیف صاحب کی بریفنگ کے دعوت نامے بھی نہیں ملتے ۔ مجھے تو تعجب ھو رھا ھے کہ آج کے جرنسٹس اپنے بلاوے پر اتنے خوش کیوں ہیں ؟ کاش ہمارے بلند قامت جرنلسٹ جرنیلی سیاست سے بھی اسی انداز میں سوال و جواب پوچھنے کی ہمت رکھتے جیسے دیگر کرداروں سے رکھتے ہیں ۔ مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس بریفنگ میں سب جرنلسٹس نے ھاتھ سینے پر باندھے ھوے تھے یا ناف پر یا ناف سے نیچے یا پیچھے کمر پر باندھ دئیے گئے تھے ،
ذرا سوچئیے ؟