تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
اس پرسرار کردار کا اصل نام تو اقلیم اختر رانی تھا لیکن وہ ملک کے کونے کونے میں ’جنرل رانی‘ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ ایک زمانے میں جنرل رانی کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ 17 دسمبر 1971 کی جنگ کے بعد تو جنرل رانی کو گجرات میں ان کے گھر میں نظر بند کر کے باہر پولیس کا پہرا لگا دیا گیا اور ساتھ ہی ان کا فون کاٹ دیا گیا۔ نظر بندی کے حکم میں انہیں متنبہ کی گئی کہ وہ کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کر سکیں گی
ااس وقت کے اخبارات نے کچھ یوں شہید سرخیاں جمائیں
رانی جو کبھی پاکستان کی ملکہ تھی، اپنے گھر میں قید کر دی گئی (نوائے وقت)
رانی، جس نے مجرموں کو معافی دلوائی اور تاجروں کو لائسنس دلائے (مساوات‘
ایک عورت، جس کے پاس کوئی سیاسی یا سرکاری عہدہ نہیں تھا اس کا تقریباً حکم کیسے چلتا تھا؟ انہیں اخبار پاکستان کی ملکہ کیوں لکھتے اور کہتے تھے اور وہ مجرموں کی سزا کیسے معاف کروا لیتی تھی؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے ملک کی گنجلک تاریخ کی چند گردآلود راہداریوں میں جھانکنا پڑے گا۔
اقلیم اختر 1931 میں گجرات کے ایک چھوٹے سے زمیندار کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ کچھ عرصہ تو وہ سکول جاتی رہیں مگر میٹرک نہیں کر سکیں۔ کم عمری ہی میں ان کی شادی ایک پولیس افسر سے ہو گئی۔ یہ شادی کئی سال چلی اور اس دوران اوپر تلے ان کے چھ بچے پیدا ہوئے۔
یہاں تک توحالات بالکل اس زمانے کے رواج اور معمول کے مطابق چلتے رہے، اس کہانی میں اچانک ہی ایک موڑ ایسا آیا جس نے اقلیم آختر کی زندگی بدل دی
اقلیم اختر کی یہ زندگی ہوا کے ایک تیز چھونکے نے بدل دی
60 کی دہائی کے ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ اقلیم اختر اپنے خاوند کے ساتھ مری کی مشہور مال روڈ پر چہل قدمی کر رہی تھیں۔ خاتون نے وقت کے عام دستور کے مطابق برقع پہن رکھا تھا۔ کہ اچانک ہی تیز ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آیا۔ اور اس جھونکے نے کہانی کا رخ ہی بدل دیا
پرانی فلموں میں بھی ہوا کے جھونکے نے کہانیاں بدل دی تھیں۔ ان میں جب بھی کوئی ڈرامائی یا جذباتی واقعہ رونما ہونے لگتا ہے تو اس سے پہلے تیز ہوائیں چلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس دن مری کی تیز ہوا نے اقلیم آختر کو جنرل رانی کے سفر پر روانگی ڈال دی۔ اس جھونکے نے وہ الاؤ لگائی کہ جس نے بہت سارے کرداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
اقلیم اختر نے 2002 میں نیوز لائن کی عائشہ ناصر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ جھونکے کا لمس اپنے چہرے پر محسوس کرنے کے لیے انہوں نے ایک لمحے کو نقاب اٹھا دیا۔ روایتی تھانے دار خاوند کو اپنے چھ بچوں کی ماں کا چہرہ مال روڈ پر لوگوں کے درمیاں یوں سامنے آنا بلکل نا بھایا اور انہوں نے اپنی بیوی کو سخت ڈانٹ دیا اور ان کی اس حرکت پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا
اقلیم اختر کا کہنا تھا کہ بس یہی وہ لمحہ تھا جس نے ان کے اندر بغاوت کا شعلہ بھڑک گیا۔ خاوند کی ڈانٹ ڈپٹ میں انہیں اتنی ذلت و بے سبی محسوس ہوئی کہ انہوں نے وہیں اپنا برقع نوچ کر مال روڈ پر پھینک دیا۔
وہ کہتی ہیں: ’مجھے لگا کہ بس بہت ہو گئی۔ میرے اندر کئی مہینوں سے غصے اور محرومی کے جذبے پل رہے تھے۔ اس دن سب کچھ باہر آ گیا۔ میں اپنے خاوند کے مفلر کے چیتھڑے اڑانا چاہتی تھی، اس کے چہرے کو نوچ ڈالنا چاہتی تھی، اس کے بال اکھاڑ دینا چاہتی تھی۔ مجھے صرف ایک بات نے روکا کہ اس وقت مال روڈ پر بہت رش تھا ‘
اقلیم اختر نے اسی وقت مصصم ارادہ کر لیا کہ اب وہ کسی خاوند کی بیوی بن کر نہیں رہیں گی۔ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں گی اور اپنی مرضی کی زندگی بسر کریں گی جہاں انہیں مکمل آزادی ہو کوئی روک ٹوک نا ہو
وہ اسی انٹرویو میں مزید بتاتی کہ ’میں مردوں کو انہی کے کھیل میں شکست دینا چاہتی تھی۔ میرا خاوند پولیس میں تھا اس لیے میں نے بہت سے طاقتور مردوں کو دیکھا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ تمام طاقتور مردوں کو اپنی بھڑاس نکالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اور یہ بھڑاس کسی بستر کے ساتھی کی صورت میں نکل سکتی ہے۔ مرد کا عہدہ جتنا بڑا ہو گا، اس کی یہ ضرورت اتنی ہی شدید ہو گی۔ اور وہ اتنا ہی اس کا طلب گار ہو گا‘
اقلیم اختر نے مردوں کی یہی ضرورت پوری کرنے کے لیے ایک ایجنسی کھول لی، جس میں کئی بہت خوب صورت لڑکیاں ان کے لیے کام کرنے لگیں جن میں فلموں کی بعض ناکام ادکارائیں بھی تھیں ۔ اس کام کے لیے انہوں نے کراچی یا لاہور جیسے بڑے شہروں کی بجائے راولپنڈی کا انتخاب کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان دو شہروں میں نیپیئر روڈ اور ہیرا منڈی کی شکل میں پہلے ہی مقابلہ بہت سخت تھا۔
اسی دوران کسی طرح سے جنرل یحییٰ اور اقلیم اختر کے ستارے ٹکرا گئے۔ یہ ملاقات کہاں ہوئی، کن حالات میں ہوئی، اس بارے میں مختلف راوی مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ لیکن خود اقلیم بتاتیئ ہیں کہ یہ ملاقات محفل میں ہوئی تھی، یحییٰ خان بتاتے ہیں کہ میں جنرل رانی کو بچپن سے جانتا ہوں جب میرے والد کی گجرات میں پوسٹنگ تھی۔ سردار چوہدری نے لکھا ہے کہ یہ دونوں پہلی بار سیالکوٹ میں ملے جہاں رانی ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھیں۔
ملاقات چاہے جہاں ہوئی، اور جن حالات میں ہوئی، بہرحال کچھ ایسا ہی واقعہ ہوا جیسے روئی کو چنگاری دکھا دی گئی ہو۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ اقلیم اختر کے ہاں باقاعدگی سے آنے جانے لگے۔ اور اقلیم کا اثر و رسوخ بھی آہستہ آہستہ بڑھنے لگا
جنرل یحییٰ کی نظریں جنرل رانی کے علاوہ صدارت کی کرسی پر بھی لگی تھیں، اس لیے انہوں نے کچھ ایسی ڈوریاں ہلائیں کہ جنگ کے تین برس بعد ہی جنرل ایوب باگیں یحییٰ خان کو سونپ کر اقتدار کے سرکش گھوڑے سے الگ ہو گئے۔ ، یحییٰ خان ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ جنرل یحییٰ کا اقبال بلند ہوا تو بیگم اقلیم کے اختر بھی کو بھی بھاگ لگ گئے
بتایا جاتا ہے کہ اداکارہ ترانہ بھی جنرل رانی کی ٹیم کا حصہ تھیں، تاہم جس بڑی شخصیت کو اقلیم اختر نے جنرل یحییٰ خان متعارف کروایا وہ میڈیم نور جہاں ہیں۔
یحییٰ خان کو میڈم کی آواز پسند تھی (کم از اس معاملے میں انہیں صاحبِ ذوق کہا جا سکتا ہے!) جنرل رانی کے بقول، ایک رات انہوں نے نور جہاں کا گیت سننے کی فرمائش کی تو جنرل رانی نے کہا گیت کیا میں آپ کو خود نورجہاں سے ملوا دوں گی، اور کچھ دنوں کے اندر اندر جنرل رانی نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔
تاریخ میں جنرل رانی کے نام سے شہرت پانے والی یہ خاتون اقلیم آختر ایک متنازعہ کردار رہیں ہیں ہمیشہ لیکن بد قسمتی کہیے کہ جب بھی پاکستانی تاریخ لکھی جانے گی جنرل رانی کا کردار کبھی بھی مورخ کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکے گا
