ایٹمی دھماکوں کی اصل کہانی

Spread the love

ذوالفقار احمد چیمه
قسط نمبر1

میں مئی 1998 میں وزیرِاعظم کا اسٹاف آفیسر تھا اور ملک میں امن و امان اور سنگین جرائم سے متعلقہ امور دیکھنا اور وزیرِاعظم کو بریف کرنا میری ذمّے داری تھی۔

اس بار یومِ تکبیرپر28 مئی 1998کی شام کو، پرائم منسٹر نوازشریف کی پاکستان کے کامیاب ایٹمی تجربات کے بارے میں پی ٹی وی اسلام آباد میں تاریخی تقریر ریکارڈ کرانے کے فوراً بعد لی گئی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو محترم احسن اقبال صاحب نے مجھے بھی بھیج دی۔

اس لیے کہ اُس وقت اسٹاف آفیسر کی حیثیّت سے میں بھی پرائم منسٹر کے ساتھ کھڑا تھا، بلاشبہ یہ ایک تاریخی تصویر تھی جس پر احسن اقبال صاحب کا مشکور ہوں۔ تصویر دیکھ کربہت سے لوگوں نے اپنے کمنٹس میں پوچھنا شروع کردیا کہ “دھماکے کرنے کا اصل فیصلہ کس کا تھا؟ “کس کے دباؤ کے تحت میاں نوازشریف نے دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا؟ یہ تو اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

آج کے 18سے28سال تک کے نوجوان توایٹمی دھماکوں کی حقیقت، اہمیّت اور افادیّت سے ہی بے خبر ہیں اور اس ضمن میں مختلف گمراہ کن خبریں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں، لہٰذا سوچا کہ انھیں اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اصل حقائق تحریر کرکے اپنا فرض نبھارہا ہوں۔

11مئی 1998کو پرائم منسٹر نوازشریف ای سی او کانفرنس کے سلسلے میں قازقستان کے دارالحکومت الماتے میں تھے(بعد میں قازقستان نے آستانہ کے نام سے نیا درالحکومت قائم کرلیا ہے)، موسم بڑا دلفریب تھا، پرائم منسٹر صاحب کا موڈ بھی خوشگوار تھا۔

شام کو سیکریٹری خارجہ تقریباً دوڑتے ہوئے آئے اور وزیرِاعظم کو بتایا کہ “سر ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کردیے ہیں، جو ہمارے لیے تشویش کا موجب ہے۔” یہ سنتے ہی پرائم منسٹر صاحب پریشان ہوگئے اور ان کے چہرے سے گہری تشویش جھلکنے لگی، وہ وفد میں موجود وزرأ کو علیحدہ کمرے میں لے گئے اور نئی صورتِ حال اور بھارتی دھماکوں کے مضمرات کے بارے میں غور وخوض شروع کردیا، میٹنگ کا بنیادی موضوع یہ تھا کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ اہم وزرأ میں سے سرتاج عزیز اس بات کے مخالف تھے کہ پاکستان بھی جوابی طور پر دھماکے کردے۔

ان کا خیال تھا کہ دھماکے کرنے سے پاکستان پر Sanctionsلگ جائیں گی اور ملک معاشی مسائل کا شکار ہوجائے گا۔ جب کہ مشاہد حسین (جنھوں نے بعد میں جنرل مشرّف کی حمایت کرکے کمزوری دکھائی، مگر وہ ایک قابل اور محبّ ِ وطن شخص ہیں) دھماکے کرنے کے حامی تھے۔

وہیں وزیرِاعظم نے بی بی سی اور انڈین ٹی وی پر بھارتی حکمرانوں کے متکبّرانہ اور جارحانہ یبانات سنے تو انھوں نے تشویش آمیز لہجے میں کہا، “یہ تو پاکستان کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے۔” پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد پرائم منسٹر نے اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد سعید مہدی کو علیحدہ بلا کر پاکستان میں دو شخصیات کو خصوصی پیغام پہنچانے کی ہدایت کی، اور اس کے بعد ایک دو وزراء کو بھی خصوصی ہدایات دیں۔ ان دونوں باتوں کا ذکر کل ہوگا۔ وزیرِاعظم نے قازقستان کا دورہ مختصر کرکے وطن واپس پہنچنے کا فیصلہ کیا۔

پرائم منسٹر نے الماتے میں ہی اپنے ملٹری سیکریٹری کو فوری طور پر ڈی سی سی (ڈیفنس سے متعلقہ وہ کمیٹی جس میں تینوں مسلّح افواج کے سربراہان اور دفاع، خارجہ، خزانہ اور داخلہ امور کے وزرأ شریک ہوتے ہیں) کی میٹنگ بلانے کی ہدایات دے دیں۔

ڈی سی سی کی میٹنگ 14مئی کو ہوئی، اس میں مسلّح افواج کے سربراہان نے کیا رائے دی، یہ بتانے سے پہلے میں پرائم منسٹر ہاؤس میں ہونے والی ایک اور اہم میٹنگ کا ذکر کروں گا۔ مگر اس سے پہلے قارئین یہ جان لیں کہ ایٹم بم بنانے کے لیے کئی مراحل طے کرنے پڑتے ہیں، سب سے اہم مرحلہ یقیناً یورینیم کی enrichmentکا ہے اور یہ کارنامہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم نے سرانجام دیا تھا مگر اس کا دوسرا حصّہ بھی بے حد اہم ہے اوروہ ہے تمام componentsکو اکٹھا کرکے بم کی شکل دینا اور پھر آخر میں اسے detonateکرکے دیکھنا کہ تجربہ کامیاب بھی ہوا ہے یا نہیں؟ کئی موجودہ ایٹمی قوّتوں کے پہلے پہل کیے گئے تجربات ناکام بھی ہوئے ہیں۔

دھماکے کرنے کے تمام امور کے نگران اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرثمر مبارک مندتھے۔ وہ اور ان کی بیگم صاحبہ اولڈ راوین یعنی گورنمنٹ کالج لاہور کے فارغ التّحصیل ہیں۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب نے چند اولڈ راوینز کو جن میں راقم بھی شامل تھااپنے گھر چائے پر بلایا جہاں انھوں نے یہ انکشاف کیا (جس کی تصدیق دوسرے ذرایع سے بھی ہوگئی) کہ بیرونی دورے سے واپس آتے ہی پرائم منسٹر نے مجھے طلب کیا۔

پرائم منسٹر ہاؤس میں 13مئی کو ہونے والی اس انتہائی اہم میٹنگ میں اتفاق سے تینوں اولڈ راوین شریک تھے، پرائم منسٹر نوازشریف، ان کے پرنسپل سیکریٹری سعید مہدی اورمیں، ڈاکٹر ثمر مبارک۔ پرائم منسٹر نے ملتے ہی مجھ سے کہا، “ڈاکٹر صاحب! بھارت نے جو کچھ کیا ہے آپ کے علم میں ہوگا؟ ” میں نے کہا، ” جی سر بالکل ہمارے علم میں ہے”۔ جس پر پرائم منسٹر نے ڈاکٹر ثمر مبارک سے ایک انتہائی اہم بات پوچھ لی۔ وزیرِاعظم نے کیا پوچھا اور ڈاکٹر ثمر مبارک نے کیا جواب دیا یہ بھی کل کے کالم میں بتاؤں گا۔

اس سے گزشتہ روز یعنی 14مئی کو ڈی سی سی کی میٹنگ ہوئی، کابینہ کے اہم ترین وزراء اس مسئلے پر یکسو نہیں تھے، ان کی آرأ مختلف تھیں، وزیرِاعظم کے قریب ترین رفقاء میں سے جناب سرتاج عزیز اور چوہدری نثار علی خان دھماکے کرنے کے مخالف تھے جب کہ راجہ ظفرالحق، مشاہد حسین اور گوہر ایوب وغیرہ حامیوں میں شامل تھے، پنڈی والے شیخ جی کابینہ میں ہونے کے باوجود نہ تین میں تھے نہ تیرہ میں۔ جس طرح کابینہ حامیوں اور مخالفوں میں بٹی ہوئی تھی، اسی طرح سروس چیفسز بھی منقسم تھے۔

اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت سے رائے مانگی گئی تو انھوں نے فوری دھماکے کرنے کی حمایت نہیں کی بلکہ یہ کہا کہ اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں اور اس کے منفی اثرات پر اچھی طرح غور ہونا چاہیے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ آرمی چیف کی رائے کے برعکس رائے نہیں دیتے۔ نیول چیف نے بھی دھماکوں کی مخالفت کی، ایئر چیف نے کہا کہ دھماکے کرکے بھارت نے خطّے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا ہے لہٰذا اب ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی دھماکے کرکے ایٹمی قوّت حاصل کریں۔

اُس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی طرف سے دباؤ ڈالنا تو دور کی بات ہے انھوں نے تو اس کی حمایت بھی نہیں کی۔ اس کے بعد وزیرِاعظم نے مختلف طبقۂ فکر کے نمایندہ افراد کو بلاکر ان کے ساتھ مشاور ت شروع کردی۔ پرائم منسٹر کے پریس سیکریٹری رائے ریاض کو یہ ذمّے داری سونپی گئی کہ وہ ہر روز اخبارات و رسائل میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے، کے موضوع پر چھپنے والے اہم مضامین کا خلاصہ وزیرِاعظم کے سامنے پیش کریں۔

وہ بتاتے تھے کہ لکھنے والوں کی واضح اکثریّت دھماکوں کے حق میں تھی مگر کچھ لوگ خلاف بھی تھے، 1965 کی جنگ کے آغاز میں پاکستانی صدر کے لیے یادگار اور تاریخی تقریر لکھنے والے الطاف گوہر صاحب بھی دھماکوں کے حق میں مضامین لکھنے لگے۔ ان کے مضامین مَیں نے وزیرِاعظم کو دکھانا شروع کر دیے۔

اسی اثناء میں دو مزید developments ہوئیں، امریکا کے صدر بل کلنٹن نے وزیرِاعظم پاکستان کو فون کیا اور انھیں بھارتی دھماکوں سے مشتعل نہ ہونے اور restraint(ضبط و تحمّل) سے کام لینے پر زور دیا۔ جواب میں وزیرِاعظم، بھارت کے پاکستان کے بارے میں جارحانہ عزائم اور خطّے میں بگڑنے والے طاقت کے توازن کی طرف امریکی صدر کی توجّہ مبذول کراتے رہے۔ امریکی صدر کو ایک فون پر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوسکے تو بھی انھوں نے کوشش جاری رکھی، اور ہر دوسرے روز وہ پاکستانی پرائم منسٹر کو فون پر دھماکے کرنے کے خطرناک مضمرات سے آگاہ کرنے لگے۔

دو ملکوں کے سربراہوں کی فون پر بات چیت ایسے نہیں ہوتی کہ پاکستان کے پرائم منسٹر کے فون پر گھنٹی بجی انھوں نے اٹھایا اور دوسری طرف سے امریکی صدر بول پڑے، اس کے لیے پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو اطلاع دی جاتی تھی کہ فلاں وقت پر امریکی صدر پاکستانی وزیرِاعظم کو کال کریں گے، اِدھر اسلام آباد والے کال ریسیو کرنے کے تماتر انتظامات مکمل کرتے تھے، پرائم منسٹر کے اسٹاف کو پتہ ہوتا تھا کہ آج اتنے بجے امریکی صدر کی کال آئے گی۔

کلنٹن صاحب نے پہلے سمجھانے اور پھر ڈرانے کی کوشش کی اور اس کے بعد انھوں نے لالچ (incentive)دینے کا حربہ استعمال کرنا شروع کردیا۔ آخری کال میں انھوں نے پاکستانی پرائم منسٹر کو پانچ ارب ڈالر کی پیشکش کی، حتّی کہ یہ بھی پیشکش کردی کہ ملک کی ضروریات کے لیے اتنے ارب ڈالرالگ دیں گے اور آپ کے ذاتی اکاؤنٹ میں اتنے ارب ڈالر علیحدہ جمع کرادیں گے۔ پیشکش بلاشبہ بڑی دلکش اور دلفریب تھی۔

قسط نمبر 2

میں نے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ کامیاب ایٹمی دھماکوں کے بعد بھارتی حکمران اور میڈیا جارحانہ انداز میں پاکستان کو دھمکیاں دینے لگے۔

ملک کی سلامتی پر خطرے کے سیاہ بادل منڈلاتے دیکھ کر وزیرِاعظم نے 11 مئی کو قازقستان سے ہی اپنے پرنسپل سیکریٹری کو پاکستان میں دو اہم شخصیات سے فوری طور پر رابطہ کرکے انھیں وزیرِاعظم کی خصوصی ہدایات پہنچانے کی ہدایت کی تھی ۔

جی ہاں! وزیرِاعظم نوازشریف صاحب نے سعید مہدی صاحب کو علیحدہ لے جاکر کہا کہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اور ڈاکٹر عبدالقدیرسے فوراً رابطہ کریں اور دونوں کو میری طرف سے کہہ دیں، ’’پاکستان کے پاس اب ایٹمی قوّت بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں، لہٰذا آپ فوری دھماکے کرنے کے انتظامات کریں‘‘۔ رابطہ کرنے پر جنرل کرامت نے کہا کہ اس مسئلے پر ڈیفنس کمیٹی میں تفصیلی بحث ہو نی چاہیے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ دھماکوں کے لیے چند ہفتوں کی مہلت درکار ہے۔
میں نے کل کے کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ پرائم منسٹر نے وطن واپس پہنچتے ہی ڈی سی سی کی میٹنگ سے بھی ایک دن پہلے ایک اور اہم میٹنگ کی جس میں پرنسپل سیکریٹری اور ڈاکٹر ثمر مبارک شریک تھے، اس میں پرائم منسٹر نے ڈاکٹر ثمر مبارک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! ملکی سلامتی خطرے میں پڑچکی ہے، وطنِ عزیز کے دفاع کی ذمے داری میرے اور آپ کے کندھوں پر ہے۔

ہم نے ہر قیمت پر یہ ذمّے داری نبھانی ہے ورنہ ہم اﷲ کو جواب دے سکیں گے اور نہ قوم کو۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، سر! آپ بالکل بجا کہہ رہے ہیں ۔ پھر پرائم منسٹر نے پوچھا،’’آپ کو دھماکوں کے لیے کتنا وقت درکار ہے‘‘؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا،’’سر!دو ہفتے۔‘‘ اس پر پرائم منسٹر نے فیصلہ کن انداز میں کہا،’’فوراً تیاری شروع کردیجئے اور Secracyلیک نہ ہو‘‘۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر ملاقات میں یہ ساری کہانی سناتے ہوئے خود ہی وضاحت کی،’’پرائم منسٹر کا ذہن واضح تھا ، معمولی سا بھی شک و شبہ یا ابہام نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے دو ٹوک انداز میں حکم دے دیا، جس کے بعد20مئی سے ہم نے متعلقہ سازوسامانTesting siteتک پہنچانا شروع کر دیا‘‘۔ دوہفتے کا وقت گزارنے کے لیے وزیرِاعظم نے ’’مشاورت‘‘ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اخبارات و رسائل کے مدیران کو بلاکر ان سے بھی رائے مانگی گئی۔

مختلف لوگ مختلف باتیں کرتے رہے، آخر میں بزرگ صحافی مجید نظامی صاحب سے پوچھا گیا تو انھوں نے اپنا وہ مشہور فقرہ بولا ،’’میاں صاحب! دھماکے کردیں ورنہ قوم آپ کا دھماکا کردے گی‘‘۔اس پر بڑی تالیاں بجیں۔ پرائم منسٹر اُسی وقت یہ بتاکر کہ میں دھماکے کرنے کی ہدایات دے چکاہوں اور سامان بھی testing siteکی طرف روانہ ہوچکا ہے،زیادہ زور سے تالیاں بجوا سکتے تھے مگر وہ ملک کے ذمّے دار سربراہ تھے اس لیے خاموش رہے اور مسکراتے رہے۔ وزیرِاعظم کو دراصل یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ خدانخواستہ بات لیک ہوگئی تو شائد اس پر عملدرآمد نہ ہوسکے اور یہ کہ امریکا اور یورپ پاکستان کے خلاف کوئی ایسا جارحانہ اقدام کردیں جو ہمیں ایٹمی قوّت بننے سے روک دے۔

اُدھرپانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد بھارتی حکومت ذہنی توازن کھو بیٹھی تھی۔ بھارتی حکمرانوں اور میڈیا پر ہذیانی کیفیّت طاری ہوگئی، دونوں پاکستان کو کھلم کھلا دھمکیاں دینے لگے۔ بھارتی مسلمانوں کے لیے جینا دوبھرکردیاگیا، انھیں کہا جانے لگا ۔ بی جے پی کے وزیروں نے کہنا شروع کردیا کہ ’’پاکستان کشمیر کو ہمارا حصّہ تسلیم کرلے ورنہ ہم اسے سبق سکھادیں گے، پاکستان کواب ہمارے کہنے پر چلنا ہوگا ورنہ‘‘ ۔

بھارتی حکمرانوں کے بیانات اور تقریروں میں تکّبر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے تضحیک ، اہانت اور دھمکیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یوں لگتا تھا کہ بھارت نے ایٹمی قوّت صرف پاکستان کو ’’سبق سکھانے‘‘ کے لیے حاصل کی ہے۔وزیرِ اعظم نوازشریف صاحب یہ سب سن اور دیکھ رہے تھے، بھارت کی دھمکیاں سن کر اُنکا چہرہ مزید لال ہوجاتا اور غصّے کے آثار نمایاں ہوجاتے۔ مگر وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور کب کرنے جارہے ہیں، اس راز سے زیادہ تر وزراء بھی بے خبر تھے۔

28مئی کی دوپہر کو میں پرائم منسٹر آفس کے چوتھے فلور پر اپنے آفس میں بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ آپریٹر نے کہا، ڈاکٹر صاحب ضروری بات کرنا چاہتے ہیں،دوسرے طرف میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد صاحب تھے۔ انھوں نے بے پناہ خوشی کے عالم میں بتایا ’’مجھے ابھی ابھی چاغی سے ایک آرمی افسر نے فون پرمبارکباد دی ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان نے کامیاب ایٹمی دھماکے کردیے ہیں۔

الحمدللہ۔ بی بی سی پر یہی بریکنگ نیوز چل رہی ہے، پاکستانی میڈیا خاموش ہے، پتہ کرکے بتائیں‘‘میں بھاگم بھاگ پرائم منسٹر ہاؤس پہنچا تو وہاں خاموشی تھی، البتہ سعید مہدی صاحب مل گئے جنھوں نے تصدیق کی اور بتایا کہ پرائم منسٹر صاحب لباس تبدیل کرنے گئے ہیں، ابھی چند منٹ بعد وہ قوم سے خطاب کے لیے ٹی وی اسٹیشن جائیں گے۔ ملٹری سیکریٹری نے بتایا کہ پرائم منسٹر صاحب ساری رات نہیں سوئے، بس کامیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد مشاہد حسین سیّد اور الطاف گوہر بھی پہنچ گئے۔

سب ایک دوسرے کو مبارکیں دے رہے تھے ۔اتنے میں گھنٹی بجی، سب الرٹ ہوگئے، وزیرِاعظم رہائشی حصّے سے نمودار ہوئے تو ان کا چہرہ مسرّت و افتخار سے دمک رہا تھا۔ میں نے مبارکباد دی توکہنے لگے،’’اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے سب کچھ کامیابی سے ہوگیا ہے۔ پھر کہا،’’ٹی وی اسٹیشن چل رہے ہیں، ساتھ ہی آجائیں‘‘۔ دو تین منٹ میں ہم پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہوگئے۔اور اس کے کچھ ہی دیر بعد پاکستان کے کروڑوں شہریوں اور دنیا بھر کے اربوں افراد نے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر وزیرِاعظم میاں نواز شریف کی آواز سنی، ’’ہم نے ہندوستان کے پانچ دھماکوں کے مقابلے میں چھ کامیاب ایٹمی دھماکے کرکے حساب چکا دیا ہے، پاکستان اب اﷲ کے فضل و کرم سے ایٹمی قوّت بن چکا ہے، اب انشاء اﷲ کوئی دشمن وطنِ عزیز کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گا‘‘۔

وزیرِاعظم کے یہ الفاظ سنتے ہی پاکستانیوں کے چہرے خوشی اور فخر سے چمک اُٹھے۔ وہ ایک دوسرے سے بغلگیر ہوکر مبارکبادیں دینے لگے، لاکھوں نوجوان سڑکوں پرنکل آئے، ملک بھر کے شہر اوردیہات نعرۂ تکبیر اﷲ اکبر سے گونج اُٹھے۔ ٹنوں کے حساب سے مٹھائیاں بانٹ دی گئیں۔ کراچی سے چترال تک اور مہران سے بلوچستان تک ایک جیساجوش و جذبہ تھا۔ ایک جرأتمندانہ فیصلے نے قوم کو متحد کردیا۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں (جہاں عربی شیخ پاکستانیوں کو مسکین کہتے اور حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے)تیس تیس فٹ لمبی گاڑیوں سے اتر کر کھرب پتی عرب امرائٔ پاکستانی مزدوروں سے بغلگیر ہوتے رہے۔ پوری دنیائے اسلام میں فخر و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔

دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس خیال سے احساسِ تحفّظ پیدا ہوا کہ یہ قوّت صرف پاکستان کی نہیں پوری مسلم دنیا کی مشترکہ قوّت ہے۔ پاکستانی بجا طور پر یہ سمجھنے لگے کہ بھارت کے تمام جارحانہ عزائم خاک میں مل گئے ہیں اور اب ہماری سالمیّت کو کوئی خطرہ نہیں۔ اہلِ دانش نے بجا طور پر کہا اور لکھا کہ

14 اگست 1947کے بعد یہ پاکستان کے قومی وقار اورعزّت و عظمت کی سربلندی کاسب سے بڑا دن ہے ۔ ذاتی طور پر میرے لیے یہ بات ہمیشہ مسرّت و افتخار کا باعث رہے گی کہ ان تاریخی لمحات کا میں عینی شاہد ہوں اور جس وقت پاکستان کا وزیرِاعظم وطنِ عزیز کے ناقابلِ تسخیر بن جانے کا اعلان کررہا تھا تو میں پی ٹی وی کے اُسی اسٹوڈیو میں چند فٹ کے فاصلے پرموجود تھا اور وہ تاریخی کلمات ادا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ دو روز بعد وزیرِاعظم لاہور پہنچے جہاں انھوں نے ایک پر جوش ہجوم سے خطاب کیا، جس کے صرف دو جملے قارئین سے شیئر کررہا ہوں ۔

’’ہمارے ایٹمی پروگرام کی بنیاد بھی ایک سیاسی راہنما ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی تھی اور اس کی تکمیل کا اعزاز اﷲ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے۔ امریکی صدر نے بار بار فون کرکے کہا کہ نوازشریف صاحب آپ دھماکے نہ کریں، ہم آپ کو پانچ ارب ڈالر فوراً دیتے ہیں، اس کے علاوہ بھی وہ کئی incentives دیتے رہے۔ کلنٹن صاحب! آپ ہماری عزت اور وقار کو ڈالروں سے خریدنا چاہتے ہیں۔ آپ ہماری قومی غیرت کا اندازہ نہیں لگا سکتے‘‘۔

مخالفین و حاسدین جو چاہیں کہیں، لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ناقابلِ تسخیربنانے کا فیصلہ میاں نواز شریف کا اپنا فیصلہ تھا۔ وہ نہ پابندیوں سے گبھرائے اور نہ دباؤ کی پرواہ کی، انھوں نے بے تحاشا پریشر اور تحریص کو رد کرکے صرف ملکی بقأ اور سلامتی کے لیے یہ جرأتمندانہ فیصلہ کیا۔ اُدھر بھارت میں پورے ملک پر سکتہ طاری ہوگیا، لوک سبھا کا اجلاس ختم کردیا گیا۔

بھارتی لیڈروں اور میڈیا کی زبانیں گنگ ہوگئیں، کہاں پاکستان کو ختم کرنے کی شیخیاں اور دھمکیاں اور کہاں پاکستان کے ایٹمی قوّت بننے کے چند ماہ بعد اُسی بی جے پی کا وزیرِاعظم خود پاکستان آیا ، اپنی خواہش پرمینارِ پاکستان پر گیا اور وہاں جاکر پوری دنیا کے سامنے اعتراف کیا کہ ’’پاکستان ایک حقیقت ہے جسے کوئی جھٹلا نہیں سکتا، اب ہم آپس میں جنگ نہیں کریں گے‘‘۔ مگر پھر دوکام ایسے ہوگئے کہ جن کے باعث ہم قیامِ پاکستان کے بعد کیے جانے والے اس سب سے بہترین فیصلے کے ثمرات سے پوری طرح فیضیاب ہونے سے محروم رہے۔ (باقی آیندہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں