! تحریر شمیم اشرف
بڑوں سے سنا تھا سیاست نام ہے عوامی خدمت کا۔ لیکن یہ کیا آزاد کشمیر کی سیاست کس رخ جا رہی ؟عوامی خدمت کے نام پر ذاتی خدمت کو ترجیح۔آزاد کشمیر میں 25جولائی کو ہونے والے عام انتخابات نے نام نہاد عوامی نمائندوں کے چہروں سے میک اپ اتار کر انکے چہروں کے بدنما داغ دھبے واضح کردئیے۔ ہمارے نام نہاد عوامی نمائندے اقتدار کی ہوس میں یہ تک بھول گئے کہ کل تک جس پارٹی کے نام پر 5سال کرسی کا پروٹوکول انجوائے کیا آج اپنی انتخابی مہم میں اسی جماعت کے قائدین کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر پارلیمانی نعرے لگا کر عوام پر ایک بار پھر اپنی معصومیت اور پاک دامنی ثابت کریں گے اور بآسانی ایک بار پھر ایک نئی جماعت کے نام پر حکومت کا حصہ ہونگے۔لیکن اس میں قصور کس کا ہے یہ ایک اہم سوا ل ہے؟
ہم پارٹی ٹکٹ بیچنے کا الزام پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر لگاتے ہیں۔میں مانتی ہوں کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ضمیر خریدنے کی روش نے ملکی سیاست کو گندا کیا ہے لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ اگر کوئی بکنے کو تیار نہ ہو تو کوئی خریدار بھی نہیں ملتا ۔قیمت اسی کی لگتی ہے جو مارکیٹ میں بکنے کو تیار ہو۔آج پورے آزاد کشمیر میں نظریاتی کارکنوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے کے نعرہ عام ہے،سوشل میڈیا میں ہرجماعت کا ٹکٹ سے محروم امیدوار،اپنے حلقے کے نامزد امید وار پرپیرا شوٹر اور پیسے سے ٹکٹ خریدنے کا الزام لگاتا نظر آئے گا۔ لیکن کوئی یہ بتانا پسند کرے گا کہ آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست سے مراد کیا لی جائے؟ موجودہ صورتحال میں تو تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا نظریہ صرف اقتدار تک پہنچنا ہے جس کے لئے سب جائز ہے ایسے میں کسی کے ساتھ زیادتی تصورنہیںکی جا سکتی۔تاریخ کے اورق کو اگر پلٹا جائے تو واضح ہے جو جماعت مرکز میں حکومت میں ہوتی آزادکشمیر کے تمام امیدواروں اور کارکنوں کا جھکائو اسی جماعت کی طرف ہو جاتا۔اور آج بھی یہی ہو رہا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج تبدیلی ہے۔آج سے قبل کسی بھی جماعت کے ٹکٹ جماعتی پالیسیوں میں واضح کردہ ہدایات کے مطابق جاری کیے جاتے تھے اور ان ہدایات پر تمام امیدواروں کا پورا اترنا ناگزیر ہوتا تھا ۔لیکن پی ٹی آئی نے اپنے تبدیلی کے نعرے کو عملی جامعہ پہناتے ہوئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی اصل تبدیلی کی جھلک دیکھائی دی اور ڈیڑھ ماہ تک چلنے والی پارٹی ٹکٹو ں کی ریہرسل کسی کام نہ آئی اور پارٹی میں شامل ہونے سے قبل ہی دوسری جماعتوں کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ جاری کئے گئے۔ گزشتہ روز حلقہ ایل اے 16باغ3 سے لیگی نامز د امیدوار،فاروق حیدر کی کابینہ کے اہم رکن وزیر جنگلات سردار میر اکبر نے قرآن پاک پر حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر کے باغ سے پارٹی کا ٹکٹ حاصل کر لیا ۔بزرگ کہتے تھے کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔یہی کچھ نظر آیا سردار میر اکبر کی شمولیت کے وقت.کیا قسمت پائی ہے سردار میر اکبر نے ایک وقت میں دو دو جماعتوں کے ٹکٹ ۔5سال ن لیگ کے ٹکٹ پر اقتدار کے مزے لوٹے اور اب آنے والے 5 سالوں میں پی ٹی آئی کے لشکر میں شامل ہو کر حکومت کے خواب دیکھ رہے.جب کہ بہت سارے پرانے امیدوار ایک بھی پارٹی ٹکٹ حاصل نہ کر سکے۔بھائی ماننا پڑے گا ۔میر اکبر صاحب کے پاس کوئی تو گڈر سنگی ہے جس کی کمالات ہیں.سیاستدان سیاست کا چنائو ہی اسمبلی میں پہنچنے کے لئے کرتا ہے ان کی جماعتی وفاداریاں تبدیل کرنے کی سمجھ آتی ہے لیکن عوام کو کیا کہیں جو ایک الیکشن میں شیر پر نشان لگانے پر فخر محسوس کرینگے تو دوسرے الیکشن میں بلا پر مہر لگانے کے نعرے لگائیں گے ۔کیا یہ نظریاتی سیاست ہے ؟ایک شخص کی پارٹی تبدیلی کرنے کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس حلقے کے ووٹرز اور سپورٹرز کیوں ایک لمحہ میں خود کو بدل لیتے ہیں اصل سوچنے کا مقام یہ ہے ۔کیا ہمارے لیے ٹوٹی کھمبا اتنا اہم ہے جس کیلئے ہم اپنے اندر کے ضمیر کی آواز کو دبا دیتے ہیں اور اس ایک شخص کے پیچھے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ہم یہ بھی نہیں سوچتے یہ اقتدار تو صرف عارضی ہے یہاں تو ایک شخص کے نعرے لگانے کی بدولت ٹوٹی کھمبا مل جائے گا لیکن جب مقتدر اعلیٰ کے حضور پیش ہونگے تو وہاں کون سا لیڈر اور کون سی جماعت ہمیں سرخرو کروائے گی۔ووٹ ہمارا قومی فریضہ ہے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کے او ر صادق اور امین امیدوارکو د ینا چاہیے۔جو لوگ ایک لمحے میں اپنی جماعتی وفاداریاں بدل سکتے انھوں نے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدے کیا پورے کرنے ؟فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔یہ جو عوامی خدمت کی بجائے ذاتی خدمت کا جذبہ سیاستدانوں میں پروان چڑھ رہا یہ عوام کی طاقت سے ہی ختم ہو سکتا ۔عوام ہی اس نظریہ کو جڑ سے اکھاڑنے کیوجہ بن سکتی۔ بس ہمت کرنے کی ضرورت ہے عوام کو اپنی اور اپنی ووٹ کی طاقت کو جاننے کی ضرورت ہے۔عوام اگر آنے والے انتخابات میں اپنی ووٹ کی پرچی سے ایسے نام نہاد ضمیر فروشوں کو اقتدار سے باہر کر دیں تو آنے والے دنوں میں کوئی بھی اقتدار کی ہوش میں کسی کا حق چھننے کی جرت نہیں کر سکتا نہ کوئی خریدار ہو گا اور نہ کوئی بکائو۔فیصلہ آپکا۔