تحریر :محمد طاہر شہزاد
ہماری حکومتوں ، حکمرانوں ہمارے اداروں کے غلط فیصلوں سے مثبت نتائج کی امید رکھنا ہماری ذہنی نا پختگی کی نشاندھی کرتی نظر آتی ھے۔
میں پچھلے چند سالوں سے میڈیا پر خاص کر جیو ٹی وی پر اور خاص کر جیو کے ایک کردار شہزاد راؤ کی سکولوں میں بچوں کو جنسی تعلیم دینے کی کمپین سے محظوظ ھو رھا ھوں ۔ میں کافی عرصہ سے معاشرے کے اس اہم موضوع پر قلم اٹھانا چاہ رھا تھا مگر اتنی زیادہ جوش وخروش مگر غیر معیاری اور غیر اخلاقی کمپین پر قلم نہ اٹھا سکا ۔
میرے خیال میں بچوں کو جنسی تعلیم اور ذہنی پختگی کے لیے صحیح پلیٹ فارم ، صحیح وقت ، صحیح ماحول ، صحیح انداز اور صحیح کردار کے انتخاب سے ہی بہترین اور مثبت رزلٹ کی امید رکھی جا سکتی ھے ۔
مگر ہم نے ایک غلط پلیٹ فارم کا انتخاب کر کے غلط اور بھونڈے انداز میں جنسی تعلیم پر زور دیا کہ اس تعلیم کے مثبت نتائج کی بجائے معاشرہ اور ہماری آنے والی نسلیں مذیدبگاڑ کا شکار ہوتی نظر آرھی ہیں ۔
میرے خیال کے مطابق اگر کسی بھی مقصد کے اچھے اور مثبت نتائج حاصل کرنے ھوں تو اس کے لیے صحیح پلیٹ فارم ، صحیح وقت صحیح انداز کے استعمال سے ھی بہترین اور مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ جبکہ میرا ذاتی خیال ھے کہ تعلیمی ادارے انسان کے کردار اور ذہنی بلودگی یا پختگی کو پالش کرنے کے لیے اتنے بہترین ثابت نہیں ہوسکتے جتنے والدین خاص کر لڑکیوں کے لیے ایک ماں ثابت ہوسکتی ھے ۔ کیونکہ تعلیمی ادارے کسی بھی انسان کی انفرادی سوچ انفرادی حالات انفرادی ماحول اور انفرادی کردار کو دیکھ کر جنسی تعلیم نہیں دیتے جسکے اثرات مثبت کی بجائے منفی اثر انداز ھونے کے چانسسزذیادہ ھوتے ہیں ۔ اور باقی کسر استاد کی اخلاقی اور ذہنی بلودگی یا پختگی اور ذاتی سوچ اور سمجھ بوجھ کی کمی کے بھی غلط اثرات بچوں کی سوچ اور کردار کو مزید بگاڑ سکتے ہیں ۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کے ماحول ، اساتذہ کے کردار ، سوچ اور ذہنی پختگی کی خبریں تو سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر دیکھتے اور سنتے ہی رھتے ہیں ، ابھی چند روز پہلے ہی کی ایک تعلیمی ادارے کے مفتی صاحب کی فذیکلی جنسی تعلیم کی ویڈیو اور اس سے پہلے ھر روز سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں دی گئی فذیکلی جنسی تعلیم کی خبروں سے بھی ہم خوب انجوائے کرتے رہتے ہیں تو کیا ہم نے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دینے کا فیصلہ درست کیا تھا یا غلط ۔
میرے خیال کے مطابق ہر استاد ھر بچے کو اپنی بیٹی اپنے بیٹے کی سوچ اور نظر سے جنسی تعلیم فراہم نہیں کرسکتا ۔ جبکہ ھر استاد کی ذہنی سلاحیتیں ، سوچ اور کردار بھی اس کی دی گئی تعلیم کے مثبت نتائج کے بجائے منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بن سکتے ھیں ،
جبکہ ایک والدہ یا ماں اپنی بچی کے ماحول سوچ کردار اور حالات سے بھی واقف ھوتی ھے اور جس سے وہ صحیح وقت صحیح حالات صحیح ماحول صحیح انداز کا انتخاب کر سکتی ھے اپنی بچی کی جنسی ، اخلاقی تعلیم اور ذہنی تربیت کے لیے ۔ اس لیے میرے خیال کے مطابق میڈیا اور تعلیمی اداروں کی بجائے والدین کو شعور دینے کی ضرورت ھے کہ اپنے بچوں کے ساتھ کونسلنگ کریں صحیح وقت ، صحیح حالات ، صحیح ماحول کا انتخاب کر کے ، نہیں تو ہمیں اگلے چند سال بعد پچھتانا پڑے گا اگر ہم نے غلط پلیٹ فارم کا انتخاب رد نہ کیا تو ۔ اور وقت کبھی واپس نہیں آتا صرف اثرات چھوڑ جاتا ھے ۔
میں اپنے بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے دلائل میں صرف یہی کہونگا کہ اگر ایک باپ کو کہا جائے کہ اپنی بیٹی کو جنسی تعلیم اور شعور دے تو کیا ایک باپ اور بیٹی اس انداز اس ماحول اس کردار اس بیباقی اس اعتماد کے ساتھ موزوں کونسلنگ کر سکتے ہیں جس ماحول میں ایک بیٹی اور ماں دوستانہ اور آزادانہ سوچ اور ماحول کے مطابق اعتماد سے کونسلنگ کر سکتے ہیں ۔ ایک بھائی آپنی بہن کی ایک فاحشہ ایک معصوم کلی کی کونسلنگ اس انداز میں کر سکتے ہیں کیا جس انداز جس ماحول جس اعتماد کے ساتھ ایک ماں آپنی بیٹی کی کونسلنگ کر سکتی ھے ؟
ہم نے تعلیمی اداروں کے ماحول کونسلنگ کرنے والوں کے کردار سوچ اور انداز کے کیا منفی نتائج حاصل کرنے ہیں یا صحیح پلیٹ فارم کا انتخاب کر کے اپنے بچوں کی جنسی اور اخلاقی تربیت کے مثبت نتائج حاصل کرنے ہیں ؟
میرے خیال کے مطابق ابھی بھی وقت ھے ہم اپنے بچوں کو شعور اور ذہنی پختگی اور جنسی تربیت اور تعلیم کے لیے صحیح پلیٹ فارم کا انتخاب کریں کہیں ایسا نہ ھو کہ کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ بچے ۔
آ ج ہمارے معاشرے میں جنسی بگاڑ بڑھتا جا رھا ھے اور جنسی درندے بڑھتے جارہے ہیں کیوں ؟
جس کے جواب میں ہم کہیں عورتوں کے لباس تو کہیں جنسی تعلیم کی کمی تو کہیں دوسرے جواز ڈھونڈھتے نظر آتے ہیں ، مگر میرے ذاتی تجذیے کے مطابق ہم نے ہمیشہ پلیٹ فارم کا انتخاب کرنے میں ھی غلطی کی ھے ۔ ہم رانگ پلیٹ فارم پر کھڑے ھو کر صحیح اور مطلوبہ گاڑی پکڑنے کی آمید پر کھڑے ھی رہ جاتے ہیں اور وقت کی ٹرین اتنی تیزی سے ھمارے سامنے سے گزر جاتی ھے کہ ہم پچھتانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ۔
آج بھی ابھی بھی وقت ہے ہم پلیٹ فارم کا انتخاب صحیح کر لیں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں میں اس جنسی بگاڑ کی روک تھام کے مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں جنسی تعلیم کے لیے تعلیمی اداروں ، میڈیا اور دوسرے پلیٹ فارمز کا انتخاب ترک کرنا ھوگا اور والدین خاص کر ماؤں کو شعور دینا ھوگا کہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ دوستی کریں ان کے قریب آئیں انہیں سمجھنے کی کوشش کریں ان کی صحیح وقت پر صحیح انداز میں صحیح ماحول میں دوستانہ انداز میں کونسلنگ کریں ۔
صرف بیٹیوں کی ھی کونسلنگ کی ضروت نہیں والدین کو بیٹوں کی بھی اتنی ھی کونسلنگ کی ضرورت ھے جتنی بیٹیوں کی ۔ کیونکہ آج ہمیں آپنے بیٹوں کو بھی درندے سے انسان بنانا ھے ۔ ایک مرد کو بھی شیطان سے انسان بنانا ھے ۔
کہیں ایسا نہ ھو کہ ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہ بچے ۔
اگر کل ہم نے اپنے معاشرے کو جنسی بھیڑیوں درندوں سے پاک کرنا ھے تو والدین کو اپنے بچوں پر توجہ دینی ھوگی ۔
آج صرف ماؤں یا والدین کی کونسلنگ سے بہترین نتائج بھی حاصل نہیں کیے جاسکتے ، کیونکہ ہم نے غلط انداز میں اور غلط پلیٹ فارمز کی سلیکشن سے معاشر میں اتنا بگاڑ پیدا کردیا ھے کہ اس بگاڑ کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے ہمیں اور بہت سے کام کرنے ھونگے ۔ آج ہم دیکھیں تو حکومتوں یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مواد کو سنسر یا بلاک کرنے کے لیے تو بہت کام ھوتے نظر آتے ہیں مگر بلیو فلمیں دیکھنے کے لیے ، بلیو سائٹس کی تشہیر کے سب راستے ہماری معصوم کلیوں میں جنسی اور ذہنی بگاڑ کے لیے کھلے چھوڑدیے گئے ہیں ۔ کس لیے اور کیوں ؟
میرے خیال کے مطابق قانون بنانے سے کبھی اصلاح کی امید نہیں رکھی جاسکتی ، بلکہ نیت اور ذہنیت اور انصاف کا ایک لفظ ھی سب لفظی یا کتابی یا قانونی اقدامات پر بھاری ھوتاھے ۔ مجھے آج تک انصاف کی تشریحات میں قانوں سازیوں کی سمجھ نہیں آئی۔ کیا بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں پر قانون ھوگا تب ھی انصاف دیا جاسکے گا یا ہمارے نبی پہلے انصاف دینے کی تشریح کے لیے ایک قانون بناتے تھے تب اسی کے تحت فیصلہ صادر کرتے تھے یا انصاف کی تشریح کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی بلکہ وقت ، حالات ماحول اور انداز ہر جرم پر انصاف کی تشریح تبدیل کر دیتے ہیں تو کیسے ہم ھر عدلوانصاف کی علیحدہ قانون سازی کر سکتے ہیں ۔ میرے خیال کے مطابق اگر نیت صاف ھو تو انصاف کے لیے قانون سازی کے بہانے نہیں ڈھونڈھنے پڑتے ۔
آج ہمیں سوچنا ھوگا کہ انصاف کے لیے قانون سازی کے بہانے ڈھونڈنے کی بجائے انصاف دینے والے کرداروں پر توجہ دینے کی ضرورت ھے ۔ مجھے آج بہت خوشی ھوئی سن کر کے ہماری سپریم کورٹ نے اپنے زیر التوا کیسسزکی 50 ھزار کی لمٹ کراس کر لی ھے اور مجھے اب امید نظر آرھی ھے کہ ہماری عدلیہ اسی محنت اور لگن سے عدل کا قتل عام کرتی رھی تو بہت جلد ایک لاکھ زیر التواکیسسز کا ریکارڈ بھی توڑنے میں کامیاب ھو جائے گی ۔
ابھی بھی وقت ھے ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ھوگا اپنے بچوں کی ذہنی اور جنسی تربیت کے لیے صحیح پلیٹ فارم کے انتخاب کے لیے ۔ اپنے عدل کے پلیٹ فارم پر صحیح کرداروں کی سلیکشنز پر سوچنا پڑے گا ، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا سے ولغر مواد کے خاتمے پر سختی سے عملدر آمد کروانا ھوگا صرف والدین کی کونسلنگ سے اپنے معاشرے کے اتنے بگاڑ کی اصلاح ممکن نہیں ۔
ابھی بھی سوچئیے صحیح پلیٹ فارم کا انتخاب کریں کہیں ایسا نہ ھو کہ وقت کی ٹرین گزر جائے اور ہم غلط پلیٹ فارم پر کھڑے ٹرین کا انتظار ھی کرتے رہ جائیں۔ اور اس وقت ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں بچے گا ، نہ عزت ، نہ رشتے ، نہ اخلاق اور نہ معاشرہ ،
ذرا سوچئیے؟