عنوان : اصل چوہدری تو نجو نکلا !!!
!!! یہ وہ جملہ تھا جس نے میرے دماغ میں چلنے والے گرداب کو سکون بخشا۔ دراصل بروز جمعرات دوپہر دفتر سے گھر پہنچا تو ہمارے پڑوس میں موجود ایک گھر کے باہر مردوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ گاڑی گیراج میں کھڑی کرکے جیسے ہی بھیڑ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس گھر کا رہائشی نجو فوت ہوگیا ہے۔ وقت گزرا اعلان ہوا کہ رات آٹھ بجے جنازہ گاہ میں جنازہ ہے۔ مغرب کی نماز ادا کرکے والد صاحب کو ساتھ لیا تو بیٹے محمد احمد نے بھی کہا کہ میں نے بھی جنازہ پڑھنے جانا ہے والد صاحب کے منع کرنے کے باوجود وہ باضد رہا میں نے اس سے مکمل جنازہ سنا تو حامی بھر لی اورابو اور بیٹے کو لئے کر گھر سے نکلا۔ پر یہ کیا میت کے ساتھ بے بہا افراد جو کہ بڑھتے ہی جارہے تھے۔ جنازہ گاہ پہنچا تو وہاں جگہ کم پڑگئی تو جنازہ گاہ سے آگے میدان میں صفیں درست کی جانے لگیں۔ میں کوئی آٹھویں یا دسویں صف میں تھا کہ صفوں پر صفیں بنتی جارہی تھیں اور لوگوں کا سمندر تھمنے کا نام ہی نہیں لئے رہا تھا غرض اس رش کو دیکھ کر دماغ نہ جانے کن خیالات میں گم ہونے لگا اس نجو پر رشک آنے لگا جس کا جنازہ پڑھنے نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ آرہے تھے۔ کوئی تقریر نہیں ہوئی کوئی واعظ و نصیحت میں وقت نہیں لگا پھر بھی آٹھ بجے والا جنازہ آٹھ بجکر بیس منٹ پر چلا گیا وجہ صرف ایک تھی کہ ابھی تک صفوں پر صفیں بن رہیں تھیں۔ ہر بندے کی زباں پر ایک ہی جملہ تھا کہ کتنا بڑا جنازہ ہے نصیبوں والا ہے نجو۔ یکدم اس اعلان نے مجھے خیالات کے بھنور سے نکالا کہ جس کسی کا نجو سے لین دین کا معاملہ ہے وہ اس کے بھائی و بیٹوں سے مل لئے اور اللہ کے لیئے بحیثیت بشر اس سے کوئی غلطی ہوئی ہو اسے معاف کردے۔جنازہ ہوا اور رش کے باعث واپسی پر دشواری تھی لیکن دماغ ابھی تک الجھن میں تھا کہ آخر یہ نجو تھا کون؟؟؟ نہ کوئی وزیر, ایم این اے, ایم پی اے کونسلر, چوہدری, عالم دین یا پھر کوئ اثرورسوخ والی شخصیت کچھ بھی نہیں, تو پھر آخر اس نفسا نفسی کے دور میں اتنی عوام اس کے جنازے میں کیوں آئی؟؟؟ میرے دماغ میں نجو کا حلیہ بھی دوڑ رہا تھا کہ لباس بھی درمیانہ , کندھے پر پرنا کبھی کسی کو کچھ دیتے نہیں دیکھا سادہ سفید پوش پھر آخر ایسا کیا کہ لوگ اس کے جنازے کو دیکھ کر رشک کرنے لگے اور میں بھی جس کو نجو کا مکمل نام تک معلوم نہیں تھا اس کے جنازے میں اپنے والد اور بیٹے کے ہمراہ اس کے لیئے دعائے مغفرت کے لیئے موجود تھا۔ یک دم دماغ میں نجو سے ہوئی ملاقاتیں یاد آئیں جو کہ انتہائی محدود اور چند جملوں پر محیط تھیں۔ مخصوص انداز ” السلام علیکم میاں جی! اور میاں جی ٹھیک او” مسکراتا چہرہ اور بس۔ یہ لمحات میرے ذہن میں آتے ہی مجھے اپنے سوالات کے جوابات ملنا شروع ہوگئے اور ان سب سوالات کا صرف ایک ہی جواب تھا” اخلاق” جی بلکل ” حسن اخلاق” ۔ یہ نجو کا صرف حسن اخلاق ہی تھا جس نے آج لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ اس کے جنازے میں جوق در جوق آئے اور ساتھ ہی مجھے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول یاد آگیا ان کا کہنا تھا کہ ” ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے”۔ کیا آپ کا اور میرا اخلاق بھی ایسا ہے؟؟؟ سوچنا تو ضرور پڑے گا کیونکہ کل کو ہمارا بھی جنازہ پڑھا جانے والا ہے۔