کچے گھڑے

Spread the love

تحریر:چوہدری عابد محمود

”ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں، ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے“


دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی، 4 اگست یوم شہدائے پولیس کے نام سے منسوب کیا گیاہے،4 اگست کے دن پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت گلگت،بلتستان اور آذاد کشمیر میں پولیس کے شہداء کی سربلندی کے لئے تقاریب کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، ان تقاریب میں شہداء کی فیملیز کو بھی مدعو کیا جاتا ہے، ان کو تحفے تحائف بھی دئیے جاتے ہیں، پنجاب پولیس کے 1500 سے زائد جبکہ جہلم پولیس کے 9 شہداء کے خون سے رنگی ہے۔پنجاب پولیس کی ملک و قوم کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے اور لازوال داستانیں رقم کرنے والے شہیدوں سے ہماری تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں، جذبہ حب الوطنی ہی ملکی آذادی پر امن شہری زندگی کا محافظ ہوتا ہے، اسی جذبہ کیوجہ سے ہماری تاریخ کے اوراق پر ایسے ایسے لوگوں کا تذکرہ موجود ہے، جنہوں نے جذبہ حب الوطن سے سرشار ہو کر بلند ہمتی کی مثالیں قائم کیں ِ، پنجاب پولیس کے سربراہ انعام غنی کی جانب سے شہدائے پنجاب کے لئے جہلم سمیت صوبے کے تمام افسران کو ہدایات جاری کی گئیں تھیں کہ تمام پولیس شہداء کی قبروں پر جا کر فاتحہ خوانی کی جائے اور شہداء کے اہل خانہ سے ملکر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی جائے، پنجاب پولیس میں ڈی آئی جی سے لیکر کانسٹیبل رینک کے افسران شہداء کی فہرست میں شامل ہیں، آئی جی پنجاب انعام غنی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ شہداء محکمہ کا سرمایہ ہیں، شہداء کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائیگی، شہداء ہمیشہ زندہ ہیں جو ہمارے دلوں میں آج بھی موجود ہیں، ”ہمارا خوں بھی شامل ہے تزئین گلستان میں، ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے“،جہلم پولیس کے سربراہ شاکر حسین داوڑ نے ملازمین کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دے رکھی ہے، ان کا یقین ہے کہ ہمارے جوان خوشحال ہونگے تو وہ عوام کی دن رات بہتر طریقے سے حفاظت کر سکیں گے، اگر جوان مسائل کا شکار ہوئے تو ان کے رویے بھی عوام سے بہتر نہ ہو سکیں گے، یوم شہدائے پولیس پر جہلم پولیس کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ڈی پی او شاکر حسین داوڑ کی جانب سے پولیس لائن میں جہلم پولیس کے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی جہاں شہداء کی فیملیز کو مدعو کیا گیا تھا، تحصیل پنڈدادنخان، تحصیل سوہاوہ، تحصیل دینہ میں بھی یادگارِ شہداء پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور پروقار تقاریب کا اہتمام کیا گیا۔ جہاں پولیس کا چاک و چوبند دستوں نے پولیس کے شہداء کو سلامی پیش کی، ان تقاریب میں جہلم پولیس کے افسران سمیت اہلکاروں نے شرکت کی، اس موقع نے ڈی پی او شاکر حسین داوڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”آؤ محبت سے سلام کر لیں جن کے حصے میں یہ مقام آتا ہے، بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جنکا لہو وطن کے کام آتا ہے، جہلم پولیس کے افسران و جوان کسی سے پیچھے نہیں، جنہوں نے ہمیشہ سے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنے گھربار، بچوں اور عزیز و اقارب کی پروا کئے بغیروطن عزیزکی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کئے، انہوں نے کہا کہ سماج دشمن عناصر، دہشت گردہوں یا پھر کورونا جیسی موذی وباء ہمیشہ ہی ہماری پولیس پیش پیش رہی، امن و امان میں کسی بھی ملک کی بقاء و استحکام اور ترقی کا انحصار ہوتاہے، جب تک ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہو جاتی اس وقت تک کسی بھی معاشرے میں بہتری کا تصور نہیں کیا جا سکتا، بدقسمتی سے گزشتہ 2 دہائیوں سے پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ رہا اور ہماری پولیس جوانوں نے دہشتگری کی اس جنگ میں بے مثال داستانیں رقم کیں، گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی4 اگست یوم شہداء پولیس بھر پور جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا، پولیس کی عظیم قربانیوں کی یاد میں ہر سال یوم شہداء پولیس منانے کا مقصد ان بہادر سپوتوں کو سلام پیش کرنا ہے، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ ملک و قوم پر نچھاور کیا، اگر ہم اپنے شہداء کو بھلا دیں گے تو یقینا پولیس فورس کا مورال ہر گز بلند نہیں ہوسکتا، محکمہ پولیس میں شہداء پولیس کی فیملی کی بہتری کے لئے کوششیں سامنے آرہی ہیں، شہداء کے بیوی بچوں کے لئے ایپ ویلفیئر آئی متعارف کروائی گئی ہے جس سے انکے گھر بیٹھے پنشن اور بچوں کے تعلیمی اخراجات کے مسائل حل کرنا شامل ہے۔ 4 اگست کو یوم شہداء پولیس منانے کا فیصلہ بھی ایک احسن اقدام ہے، جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شہداء پولیس کی فیملیاں تنہا نہیں ِ محکمہ پولیس، سول سوسائٹی ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور یہ شہداء ہمیں بہت عزیزہیں اور محکمہ پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں، بہادرمحمد امین ہیڈکانسٹیبل یکم مارچ 1999کو دینہ بس اسٹاپ پر اشتہاری ملزم کی گرفتاری پر پولیس مقابلے کے دوران جام شہادت نوش کر گئے، ہیڈ کانسٹیبل محمد رمضان 22 اپریل 2016 کو دورانِ گشت سٹی دینہ میں ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلے میں جام شہادت نوش کر گئے، محمد فاروق ہیڈ کانسٹیبل3 اگست 2005 کو اشتہاری مجرم کی گرفتاری پر جام شہادت نوش کر گئے، محمد فیاض کانسٹیبل 19 اگست 2014 کو بھیرہ موٹر وے انٹر چینج پر لاء اینڈ آرڈر ڈیوٹی کے دوران مجمع کو تخریبی سرگرمیوں سے روکتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، محمد سعید کانسٹیبل 26 اپریل 2014 کو تھانہ لِلہ کے قریب پولیس مقابلے میں جام شہادت نوش کر گئے، محمد صفدر خان 22 اگست 2001 کو نالہ بنہاں تھانہ چوٹالہ کے علاقہ میں پولیس مقابلہ کے دوران جام شہادت نوش کر گئے، محمد رمضان کانسٹیبل 26 اپریل 1994 کو تھانہ پنڈدادنخان کے علاقہ قمر میں ڈاکوؤں اور پولیس مقابلے میں جام شہادت نوش کر گئے، محمد رشید کانسٹیبل 6 جولائی 2004 کو ڈھوک اڈہ داخلی موہڑہ میں ایک قاتل کا تعاقب کرتے ہوئے مقابلے کے دوران جام شہادت نوش کر گئے، صداقت علی کانسٹیبل 5 فروری 1995 کو کالا گجراں کے قریب اشتہاری ملزم کی گرفتاری کے موقع پر پولیس مقابلہ میں جام شہادت نوش کر گئے، اورصوبہ بھر کے سینکڑوں جوان شہداء کی قربانی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پولیس کا جتنا کام مشکل ہے، اتنا شاید ہی کسی اور محکمے کا ہوگا، کسی بھی وقت چاہے دن ہو یا رات کسی بھی جگہ نا خوشگوار حادثہ یا واقع کی صورت میں پہنچنا اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا محکمہ پولیس ہی کا کام ہے، خوشی، غم، عید، تہوار شدید ترین موسمی حالات، طویل ڈیوٹی دینے کے لئے پولیس اہلکار ہمیں ہر جگہ الرٹ کھڑے نظرآتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں