پاکستان میں بھڑکتی چنگاریاں

Spread the love

تحریر: محمد طاھر شہزاد

افغان جنگ کا ایک مرحلہ ختم ھوا مگر بڑے ڈرامائی انداز میں جس کی دنیا توقع نہیں کر رہی تھی ۔ امریکہ نے بیس سال جس افغان فوج کو جدید اسلحہ اور جنگی سازو سامان کی تربیت دی اور 83 ارب ڈالر کی خطیر رقم استعمال کر کے جدید اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج دی افغان حکومت کو ، اس کے باوجود افغان حکومت چند ماہ میں ھی جنگ ھار گئی ۔روس کے خلاف طویل مدت جنگ میں تو ہم کریڈٹ لیتے رہے آج تک مگر شائید کل بھی روس کے خلاف جیتی گئی جنگ طالبان نے اپنے زور بازو ، استقامت اور جذبہ ایمانی سے جیتی تھی ہم تو صرف کمیشن ایجنٹ کا رول ادا کرتے رھے کل بھی ڈالرز کے حصول کے لیے اور آج بھی طالبان نے اپنے زور بازو جذبہ جہاد و ایمان سے لبریز ھو کر یہ جنگ جیتی ھے ۔ کل تو روس کے خلاف ہم نے دوسروں کے میڈلز اپنے سینے پر سجا کر اپنی قوم اور دنیا سے خوب داد وصول کی ، مگر آج تو ہم خود امریکہ کے اتحادی تھے اور اگر امریکہ کو آج تاریخی شکست حاصل ھوئی ھے تو امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے ہمیں بھی آج تاریخی شکست ھوئی ھے ۔ ہم آج نعرے جو مرضی لگائیں مگر ہم آج امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے لیبل کو نہیں مٹا سکتے ۔
طویل مدت یہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی درد سر بنتی جا رہی تھی امریکہ کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ کو برقرار رکھنا مشکل ھوتا گیا بلآخر امریکہ نے فیصلہ کن مذاکرات کے ادوار شروع کئےطالبان سے، مگر ناکامی کے بعد بلآخر امریکہ طالبان سے صرف اپنا محفوظ راستہ لے کر اچانک رات کی تاریکی میں افغانستان چھوڑ گیا ، میرے خیال کے مطابق رات کی تاریکی میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے اقدام نے طالبان کے حوصلے بلند کردئیے اور افغان فوج کے حوصلے پست کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اس کے علاوہ افغان فوج کے حوصلے پست کرنے کی اہم وجہ افغان فوج کو تنخواہوں اور مراعات کی کئی ماہ سے عدم فراہمی ان کے حوصلے پست کرنے کا سبب بنی ۔ اگر امریکہ اچانک تنخواہوں اور مراعات سے دستبردار نہ ھوتا تو شائید عمر بھی یہ چنگاریاں افغانستان میں بھڑکتی رہتیں اوراس خطے کو اپنی لپیٹ میں جلائے رکھتیں ، اپنے تئیں امرکہ نے افغان فوج کو اتنا تربیت یافتہ اور منظم کر دیا تھا کہ افغان حکومت اور طالبان اپنی باقی ماندہ ساری زندگی آپس میں ھی لڑتے مرتے رہتے ، دوسری طرف امریکہ نے پاکستان کی بری معیشت کا فائدہ اٹھاتے ھوے اور پاکستان میں آپس کی سیاسی و عسکری کشیدگیوں ، فوج اور سیاست میں انتہا تک پہنچی ھوئی بد اعتمادی کا فائدہ اٹھاتے ھوے کمزور جرنیلز اور کمزور حکومت کو معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ڈالرزدکھا کر طالبان کے تمام کارڈز اوپن کروا لیے ۔ ڈالرزتو مل گئے پاکستان کو اور وقتی طور پر آئی ایم ایف کی سپورٹ بھی مل گئی مگر طالبان کا اعتماد کھو بیٹھے ہمارے جرنیل ۔ جو اعتماد دوغلی پالیسیوں کی بدولت بیسیوں سال سے قائم رکھے ھوے تھے وہ ہم نے گنوا دیا اس لالچ میں کہ امریکہ کی مجبوری ھے پاکستان ، جب تک امریکہ افغانستان میں پھنسا ھوا ھے ہم ڈالرز لیتے رہیں گے ۔ ہمارے جرنیلز کا خیال تھا کہ اتنی زیادہ سرمایا کاری کے بعد امریکہ کبھی بھی افغانستان چھوڑ کر نہیں جائے گا اور ہماری لاٹری نکلتی رھے گی کسی نہ کسی صورت میں ۔ ہم نے اسی خوش فہمی میں اپنے سارے کارڈز بھی امریکہ کو تھما دئیے ، ہم نے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے اپنے ان محب وطن قبائل کو بھی دہشتگرد بنا ڈالا جو قیام پاکستان سے ہمارے بارڈرز کی مفت میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر قربانیاں دے کر حفاظت کر رھے تھے ۔ ہم نے جرائم پیشہ بری ذہنیت کے قبائل اور محب وطن قبائل کو ایک ھی ترازو میں تولکر پاکستان پر جان چھڑکنے والے محب وطن قبائلیوں کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ، ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ ان محب وطن قبائلیوں کے بھی بچے ہیں خاندان ہیں جذبات ہیں ، ہم نے سب کو فضائی بمباری میں پورے پورے خاندانوں کو ، مدرسوں میں پڑھنے والے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور کوئی گھر کوئی مدرسہ کوئی دکان کوئی سر ڈھانپنے کی جگہ سلامت نہیں چھوڑی ۔ حتی کہ ہم نےان قبائلیوں کو روزگار فراہم کرنے والے میوے اور پھلوں کے خوبصورت باغوں تک کو آگ لگا دی ، ہم خوش تھے کہ امریکہ سے وافر مقدار میں ڈالزمل رہے ہیں، ہم بھارت کوانسانیت کا درس دینے والے بھارت کوحیوانگی کی حد تک غلیظ قرار دینے والے خود ان حدوں کو پار کرتے گئے ، دنیا اور اپنی قوم کے سامنے ھر مارے جانے والے انسان کو خوفناک دھشتگرد کی تصویر بنا کر پیش کرتے رہے ، میڈیا کو ہمارے ادارےمثبت تصویر کشی کے درس دیتے رہے اور انسانیت کا خون بہاتے رہے ۔ اور میڈیا کو کیا چاہیے تھا صرف پیسہ اور اسی پیسے کے لالچ میں میڈیا نے بھی انسانیت کی تذلیل پر آنکھیں بند کیے رکھیں ۔ سچ وہی دکھایا گیا جو
ہمارے اداروں کی زبان سے نکلتا تھا اور وہی تصویر کشی کی گئی جو تصویر امریکہ دکھانا چاہتا تھا دنیا کو ، نا ہمارےمیڈیا نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مصنوعی تصویر کشی کی نمائشوں میں اور نا ہمارے سیاست دانوں نے سوال پوچھنا گوارا کیا اور نہ دنیا نے پوچھنا یا دیکھنا گوارا کیا ، کیونکہ ہم بھی امریکہ کے ذہنی غلام تھے اور خوفزدہ دنیا بھی ۔ مگر ہم بھول گئے کہ دنیا کے لیے اس خون کی اہمیت نہیں جو ہمارے اپنوں کا تھا مگر ہم نے بھی اپنا خون بہنے دیا ، جب ظلم انتہا کو پہنچ جاتا ھے اور ظلم کی آہوپکار سننے اور انصاف دینے والی کوئی آواز نہیں ملتی تو ایک ماں ایک بھائی ایک بیٹا اپنے پیاروں کے خون کا انتقام لینے خود کھڑے ھو جاتے ھیں ، اور یہی ھوا ہمارے اپنے قبائل میں بھی ۔ انسان کتے کے بچے کو بھی مارتا ھے تو اس کی ماں بھونکتی ھے شور مچاتی ھے چیختی چلاتی ھے اس کو بچانے کے لیے اس کی مدد کے لیے مگر جب بھونک بھونک کر مایوس ھو جاتی ھے تو کاٹنے کو دوڑتی ھے اور کبھی کبھار اتنی خوفناک ھو جاتی ھے کہ اپنے بچوں پر حملا کرنے والوں کی جان تک لے لیتی ھے ، ایک جانور جب اپنے بچوں کو مرتے دیکھ کران کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک چلا جاتا ھے تو وہ قبائلی تو جیتے جاگتے احسات رکھنے والے انسان تھے ۔ ہم نے کیسے امید کر لی کہ وہ اپنے پیاروں کو آگ ، بموں گولیوں سے مرتا دیکھ کر اپنی محبت اپنے جذبات کو کنٹرول رکھ سکیں گے ۔ ہم بھول گئے کہ جب جانور اپنے بچوں کے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتاتوانسان کیسے کریں گے ؟
جب انہی انصاف سے مایوس قبائلیوں نے اپنے بچوں اپنے ماں باپ اپنے خاندانوں اپنے پیاروں کی موت کا انتقام ہمارے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار کے لیا تو ہمیں اتنی تکلیف ھوئی ، ہم بلکنے لگے ، آنکھوں کے آنسوروکنا ہمارے اداروں سے قوم سے مشکل ھوگئے ، ہم نے اپنے پیاروں کی محبت میں انتقاماً ملی نغمے بھی رلیز کر ڈالے عدالتوں کو بھی اتنی اذیت میں ذندہ رھنا مشکل نظر آنے لگا ہمارے میڈیا کی بھی آنکھیں نم ھو گئیں مگر کاش ہم اس وقت ہی اپنی آنکھیں کھول لیتے جب ان قبائل کے بچے مر رھے تھے ڈالرز کے لیے دھشت گرد قرار دے کر تب اگر ہم ان کی تکلیف محسوس کر لیتے تو شائید ہمارے بچے بھی نہ مرتے ۔ جب قوموں پر ظلم کی انتہا ھوجاتی ھے اور انصاف کے تمام دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں تو بغاوتیں ھی جنم لیتی ہیں ۔
میرے خیال کے مطابق تو اے پی ایس کے بچوں کے قاتل صرف طالبان نہیں بلکہ ہمارااپنا میڈیا ، عدالتیں اور پوری قوم سب ہی برابر کی ذمے دار ہیں جنہوں نے اسوقت کیوں یہ اذیت محسوس نہیں کی جب قبائل میں گھروں کے گھر خوفناک آگ برساتے بموں سے راکھ کے ڈھیر بن رھے تھے ۔ کاش اس وقت ہم ان معصوموں کی تکلیف سن کر ان کوانصاف فراہم کروانے کے لیے کھڑے ھو جاتے تو
اے پی ایس اور دیگر دھشتگرد کاروائیوں میں ھمارے اپنے لخت جگر بھی شائید نہ مرتے ،
میرا خیال ھے میں جذبات میں بہت آگے نکل گیا ھوں مجھے واپس یہ تسلسل وہیں سے جوڑنا چاہیے جہاں سے توڑا تھا افغان جنگ کا ۔
امریکہ نے اپنے تئیں طالبان اور افغان فوجوں اور پاکستان کو آپس میں لڑنے کے لیے چھوڑ دیا تھا ، امریکہ کو امید تھی کہ پاکستان اپنے قبائل کے خاتمے کے بعد بہت کمزور ھو گیا ھے، پاکستان کا بہت بڑا بجٹ تمام سرحدوں میں تقسیم کر دیا تھا امریکہ نے ، پاکستان کی کوئی سرحد محفوظ نہیں چھوڑی تھی ، امریکہ کا خیال تھا کہ اب اپنی باقی ماندہ زندگی طالبان اور افغان فوج آپس میں لڑتے ھوے گزار دیں گے اور پاکستان اس آگ میں دونو اطراف سے عمر بھر جلتا رھے گا اس طرح امریکہ نے اپنے خیال میں اس ٹرائی اینگل خطے میں اس انداز سے آگ لگائی تھی کہ عمر بھر اس آگ کی شدت میں اضافہ ھی ھوتا نظر آئے گا ، مگر خلاف توقع یہ آگ مزید بھڑکنے کی بجائے چند ماہ میں ھی بغیر نقصان اٹھائے خود بخود بجھ گئی ۔
افغانستان میں تو یہ آگ تقریبا بجھ گئی ھے مگر ابھی تھوڑی سی چنگاریاں ہیں جو وقت کے ساتھ آگ بھی پکڑ سکتی ہیں مگر پچانوے فیصد امید ھے کہ یہ آگ افغانستان سے بجھ گئی ھے ۔ مگر جو آگ پاکستان کے قبائل میں لگائی گئی تھی جسے ہم نے ٹی ٹی پی وغیرہ وغیرہ کے نام دے ڈالے تھے ان میں چنگاریاں بھڑکتی نظر آرہی ہیں ۔ ھو سکتا ھے افغانستان میں تو یہ آگ مکمل بجھ جائے مگر پاکستان میں یہ آگ شدت اختیار کر لے ، جو آگ ہم نے ڈالرز کے لیے لگائی تھی اب انہی شعلوں سے لگی آگ کو ہمارے لیے بجھانا مشکل نظر آرھا ھے ۔ ابھی اگلے چند ماہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں ، ہمیں بہت سوچ سمجھ کر بولنا ھوگا بہت سوچ سمجھ کر اپنا کردار ادا کرنا ھوگا ، ہماری تھوڑی سی غلطی اس آگ کو شعلوں میں بدل سکتی ھے ۔ اور شائید تب ہمارے لیے اس آگ کو اب بجھانا بھی ممکن نہ رھے اورایسا نہ ہو کہ یہ ملک ان بھڑکتےشعلوں میں جل کر خاک ھو جائے ، ہمیں ان شعلوں کو بھڑکنے سے روکنا ھے ، ہمیں اپنی پالیسیوں کو ریوائز کرنا ھوگا فورا۔ ہمیں اپنی موجودہ آرمی کمان کو ھٹا کر نئی کمان کو نئی پالیسیوں کو نئی سوچ کو جگہ دینی ھوگی ۔ ہماری موجودہ آرمی کمان اپنے سابقہ کردار کی بدولت طالبان اور دنیا کا اعتماد کھو چکے ہیں ۔ بھارت کو اس سارے گورکھ دھندے میں کوئی خاص نقصان نہیں ھوگا سوائے اس کے کہ اس کی افغانستان میں کی گئی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی ۔ بھارت افغانستان کا براہ راست ہمسایہ بھی نہیں اور نہ طالبان فوری طور پر اتنی دور جانے کا سوچ سکتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں بھارت کی مایوسی پر ڈھول بجانے کی بجائے سوچ سمجھ کر اپنے کردار کو دوبارہ نئے زاویے سے نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا ھوگا ۔ مولانا فضل رحمان اور سراج الحق جیسے کرداروں اور طالبان کی ہم خیال فوجی قیادت کو سامنے لاکر طالبان کوانگیج کرنا ھوگا ۔ ابھی بھی ہم نے اگر اسی آرمی قیادت پر انحصار کیا تو شائید ہم مزید دلدل میں پھنستے چلے جائینگے کیونکہ اس موجودہ قیادت نے اپنی ساکھ کھو دی ھے دنیا کی نظروں میں بھی اور طالبان کی نظروں میں بھی اور اپنی قوم کی نظروں میں بھی ۔
ابھی تک دو دن گزرنے کے باوجود ہم کوئی سرکاری سطح پر بیان دینے کے قابل بھی نہیں ھوے ۔ ہم ابھی بھی امریکہ سعودی عرب و دیگر دنیا کی طرف دیکھ رھے ہیں جبکہ چائنہ ھی ہم سے بہتر فیصلہ کرنے میں کامیاب ھوگیا ھے جس نے فورا طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضا مندی دے کر طالبان سے اچھے مراسم کی ابتداء کر دی ھے ۔ جبکہ یہ فیصلہ ہمیں سب سے پہلے لینا چاہیے تھا طالبان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ۔ چاہے یہ فیصلہ مجبوری سمجھ کر کرتے ، ہم آج فیصلہ کرنے میں جتنی دیر لگائیں گے طالبان اتنا ہم سے دور ھوتے جائیں گے ۔میرے خیال کے مطابق ہمیں اب دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے چاہیے ، پہلے ہم نےجن کے لیے غلط فیصلے کیے انہوں نے کون سا ساتھ نبھایا ھے جو آج ایک بار پھر ہم انہی کرداروں کی طرف دیکھ رھے ہیں ۔ ہمارے مستقبل کا دارومدار اب طالبان سے اچھے مراسم پر ہے ۔ اور اگر خدا نہ خواستہ ہم نے اب بھی وقت پر صحیح فیصلے نہ کیے تو ہمارے ملک میں بھڑکتی ھوئی یہ چنگاریاں کسی اور کو نہیں ہمارے اپنےملک کو جلا کر راکھ کر دینگی ۔ اور اگر یہ شعلے ایک بار شدت پکڑ گئے تو ان شعلوں کو بجھانا بھی شائید ہمارے لیے ممکن نہ رھے ۔ آج ہم ان سوچوں میں بحث کرتے نظر آرھے ہیں کہ افغان اپنی قوم کو کتنے حقوق دیتے ہیں ؟ عورتوں کو کتنے حقوق دیتے ہیں طالبان۔ کہیں سزاؤں میں شدت تو نہیں ھوگی طالبان اپنی عوام کو آئینی آزادی دینگے بھی یا نہیں وغیرہ وغیرہ
ہم ان بحثوں میں الجھے ھوے ہیں جو ہماری بحثیں ہیں ھی نہیں ۔ ہمارے حقوق ہی نہیں افغان قوم کے اپنے مسائل ہیں ۔ طالبان اپنی قوم کے لیے جو مرضی فیصلہ کریں ، عوام بھی انہی کی ھے ، زمین بھی انہی کی ھے اور حکمرانی بھی انہی کی ھے اس لیے ہمیں فلحال اس سے قطع نظر کہ طالبان کیسی حکومت یا نظام نافذ کرتے ہیں طالبان سے دوستی کے رشتے استوار کرنے ھونگے ۔
ہمارا المیہ یہی ھے کہ ہم خود جن حقوق کو جس آزادی کو جس عدل و انصاف کو اپنے ملک میں 74 سال سے نافذ نہیں کر سکے اس کی ڈیمانڈ ہم طالبان سے کرتے نظر آرھے ہیں ۔
ہمیں اپنے ہمدردی کے بارڈرز بند کرنے ھونگے کیونکہ پہلے ھی ہم نے لاکھوں افغانیوں کو پناہ دے کر اپنے ملک میں ہیرؤن ، کلاشنکوف و دیگر جرائم کی راہ ہموار کی اور اپنی معیشت کی تباہی کی بنیاد رکھی ۔ اب جس خطے کے ممالک کو ہمدردی ھو افغان عوام سے اس تک رسائی دینے تک ہمدردیاں نبھائی جائیں نہ کہ ایک بار پھر ڈالرز کے لالچ میں اپنی سرحدیں کھول دی جائیں ۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر اپنے فیصلے کرنے چاہیے مگر پہلے ہمیں اس خوف سے آزاد ھونا ھو گا کہ اگلا ھدف کیا ھوگا طالبان کا ۔ اس خوف سے نکلنے کے لیے ہمیں اپنے لیے ایک خوبصورت گراؤنڈ بنانا ھو گا ، فورا اپنی نئی آرمی کمانڈ سامنے لا کر ۔ نہیں تو باجوہ صاحب کی پارلیمنٹ کو دی گئی خفیہ بریفنگ بھی کام نہیں آئے گی اور نہ کل کا وزیر اعظم کی طرف سے بلایا گیا نیشنل سکیورٹی کا اجلاس کام آئے گا ۔ ہمیں آپنے فیصلے فورا کرنے ھونگے ۔ اس سے پہلے کے طالبان اپنی سوچ کو پختہ کر لیں ۔ ابھی دیر نہیں ھوئی جرنل باجوہ و دیگر موجودہ جرنیلز سے استعفے لے کر فورا نئی تازہ دم کمان کے ساتھ دیگر طلبان دوست سوچ کو آگے کر کے طالبان کو انگیج کیا جائے ۔
کہیں ایسا نہ ھو کے بہت دیر ھو جائے اور ہمارے ملک میں بھڑکنے والی چنگاریاں شعلوں میں نہ بدل جائیں ۔
ذرا سوچئے ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں