تحریر: محمّد شہزاد بھٹی بھاول نگر
نجانے پھر مصروفیت سے فراغت ملے گی یا نہیں اس لئے آج ہی بات ہو گی ایک ایسی غیر سیاسی تحریک کی جس نے نہ صرف پاکستان کے کونے کونے میں بلکہ دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں اس نے اسلام کا پیغام نہ پہنچایا ہو۔ یہ 1978 کے قریب کی بات ہے کہ کراچی کے اوور سٹی ایریا میں ایک مسجد ہے جس کا نام ہے نور مسجد، اس میں ایک 28 سالہ نوجوان امامت کیا کرتا تھا۔ تھا تو وہ ایک مسجد کا امام ہی لیکن اس امام مسجد کا انداز کچھ الگ تھا بے عملی کے طوفان سے لوگوں کو بچانے کے لیے وہ پریکٹیکلی عملا کوشش کیا کرتا تھا نمازیوں فکری تربيت کیا کرتا تھا جو لوگ نماز کے لئے نہیں آتے تھے انہیں بھی اچھے انداز میں بلانے جایا کرتا تھا اور لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتا تھا بس اس کی ایک ہی دھن تھی کہ بد عملی کا شکار ہونے والوں کی اصلاح کریں اور اس کے اخلاص کو دیکھ کے یہ لگتا بھی تھا کہ یہ امام مسجد ایک دن اپنے نیک مقصد میں ضرور کامیاب ہو گا پھر اس کی زندگی میں عجب موڑ آیا اور وہ دن تھا 2 ستمبر 1981 کا جب عاشقان رسول کی ایک بہت بڑی تحریک دعوت اسلامی کا آغاز ہوا۔ اس امام مسجد کی اپنے رفقاء سے مل کے بھرپور کوششوں کے نتیجے میں دعوت اسلامی ترقی کرتی گئی اور اس امام مسجد کو آج دنیا امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آج ایک بہت بڑی تعداد آپ کو اپنا رہبر و رہنما مان کر اسلامی تعلیمات کو اپنانے لگی ہے۔ یاد رہے کسی بھی کامیاب اور ایکٹیو تحریک کی دو علامات ہوتیں ہیں۔ نمبر ون، دعوت اسلامی کا واضع اور پر اثر مقصد، کرسٹل اینڈ کلئیر گول اور کیا خوبصورت مقصد ہے کہ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔ اس مقصد و مشن کی تکمیل کے لئے امیر اہل سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی صاحب کے جذبے کو لارج سکیل پر ایک مضبوط نظام کی ضرورت تھی لہٰذا اس بات پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھی گئی اور دعوت اسلامی کا نظام مظبوط سے مظبوط تر ہوتا گیا۔ اس تحریک کی کامیابی کی بنیادی وجہ جذبہ اخلاص اور اللّه کریم کی رضا تھی کیونکہ جس دعوت کی پیچھے ذاتی مفاد یا لالچ وغیرہ موجود ہو اس کے نتائج اس سے مختلف اور بعض اوقات عبرتناک ہوتے ہیں۔ مولانا محمّد الیاس عطار قادری رضوی صاحب شروع سے ہی پیکر اخلاص تھے وہ اپنا پیغام عام کرنے کے لئے کراچی کے مختلف دور دراز علاقوں کا سفر کر کے اصلاحی بیانات کیا کرتے تھے سفری اخراجات سے لے کر کہ کھانے پینے کے اخراجات وغیرہ اپنی جیب سے ہی ادا کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے حتی کہ نمک اور پانی بھی اپنے ساتھ رکھتے تاکہ اتنی معمولی سی چیز کے لئے بھی کسی سے سوال نہ کرنا پڑے۔ جب دعوت دینے والے کے اخلاص کا یہ عالم ہو تو دعوت دینے والے کی زبان ہی متاثر نہیں کرتی بلکہ اس کا کردار بھی آنکھوں کو بھاتا ہے لہٰذا اس دعوت کا اثر لوگوں نے جلدی ہی قبول کرنا شروع کر دیا معاشرے میں رہنے والے ہر عمر کے افراد خصوصاً نوجوان اس تحریک سے وابستہ ہونے لگے۔ مولانا محممد الیاس عطار قادری رضوی صاحب کی دعوت میں سب سے متاثرکن پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اصلاح امّت پے مشتمل مقصد کو اپنے سے منسلک تمام لوگوں کے سینوں میں اتار دیا اور دعوت اسلامی کے کام کو آگے بڑھنے کے لئے انتہائی آسان اور پاکیزہ انداز دیا یہ وہی دعوت اسلوب ہے جسے انبیاء کی سنت اور اولیائے کرام کا انداز اصلاح کہنا درست ہو گا۔ اب آتے ہیں ترقی کی دوسری علامت کی طرف، وه ہے دعوت اسلامی کا منظم اور مربوط نظام، دعوت اسلامی جوں جوں ترقی کرتی گئی اس کا کام بھی بڑھتا گیا اب ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے لہٰذا تمام زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مرکزی مجلس شوریٰ قائم کی گئی اور تنظیمی ڈیوٹیاں مختلف لوگوں کو سونپ دیں گئیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی تنظیم کی بقاء اس کے افراد کی بہترین تربيت پر ہوتی ہے کیونکہ غیر تربیت یافتہ افراد کی کثرت جو ہے کسی بھی تنظیم کے لئے نقصان کا باعث بن سکتی ہے لہٰذا امیر اہل سنت مولانا الیاس عطار قادری رضوی صاحب نے گھر، بازار، سکول، کالج، یونیورسٹی سے لے کر انسان کی آخری آرام گاہ تک درس و اجتماعات کا ایسا ایک ایسا نظام رائج کیا جس کے بہترین نتائج آج دیکھے جا سکتے ہیں۔ گزشتہ چالیس سالوں میں اس تحریک سے وابستہ لوگوں میں علمی ذوق اس قدر بڑھا ہے کہ اس کا اندازه اس تحریک کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی ہر کتاب کی ریکارڈ سیل سے لگایا جا سکتا ہے یہ تحریک اپنی کتب کی سیل کے لئے گاہک ہی نہیں بلکہ ریڈرز بڑھاتی ہے اور اپنے مبلغین کو باقاعدہ ٹارگٹ دئیے جاتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی فعال نظام کو موثر بنانے کے لئے نرمی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے دعوت اسلامی بھی اپنا پیغام نرمی کے ساتھ پہنچانے پر یقین رکھتی ہے یہ دعوت اسلامی کی چالیس سالہ جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ اس کے پیغام محبت سے متاثر ہو کے کئی غیر مسلم دامن اسلام سے وابستہ ہو گئے اس کے علاوہ بے شمار بےنمازی، چور، ڈاکو، شرابی، زانی بدکار افراد تائب ہو کر پانچ وقت کے نمازی اور دین پر چلنے والے بن گئے جو آج دین کی ترویج کے لئے شب و روز مصروف عمل ہیں۔ اللّه کریم سے دعا ہے کہ دعوت اسلامی کے اس باغ کو مذید پھلتا پھولتا رکھے اور امیر اہل سنت مولانا الیاس عطار قادری رضوی صاحب کے سایہ کو ہم پر تا دیر سلامت رکھے۔ آمین