محسن پاکستان کی رحلت ایک قومی سانحہ

Spread the love

تحریر : صاحبزادہ سید ضیا النور:

سید ضیاالنور کنٹری ڈائریکٹر مسلم ہینڈز انٹز نیشنل یہ بات کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ من حیث القوم ہم محسن کش اور احسان فراموش ہیں، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی شخصیت ہمارے لئےبھیج دیتی ہے، جو اپنی صلاحیتوں سے ہمیں ایکذ قوم ہونے کا فخر دے دیتی ہے، قائداعظم محمد علی جناح نے جس طرح انگریزوں اور ہندوؤں کے مکروہ گٹھ جوڑ سے مقابلہ کرکے اور مسلمانوں کو ایک الگ قوم ثابت کرکے علیحدہ ملک حاصل کیا، اقوام کی تاریخ میں یہ منفرد واقعہ ہے، اگرچہ ہم نے اس احسان کا قائد اعظم کی زندگی میں ہی جو بدلہ دیا، وہ ہماری تاریخ کا شرمناک باب ہے۔ اس کے بعد ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے ہماری علیحدہ وجود اور ہندوؤں کے تسلط سے آزادی کو قبول نہیں کیا اور نوزائیدہ پاکستان کو دوبارہ اکھنڈ بھارت میں ضم کرنے اور مملکت پاکستان کو ختم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں، اگرچہ ہماری مسلح افواج نے محدود وسائل اور بے پناہ جذبہ ایمانی سے 1948، 1965، 1971 کی جنگوں میں دشمن کے عزائم ناکام بنائے لیکن 1974 میں خبیث دشمن نے ہمیں دباؤ میں رکھنے کے لئے ایٹمی دھماکے کردئیے، یہ ہمارے دفاعاورغیرت کے لیے کھلا چیلنج تھا اس وقت ہمارے وسائل تھے نہ ہی کوئی ایسی کوئی ماہر شخصیت جو اس چیلنج کا جواب دیتی, مگر بیلجیئم میں میٹرلجی
اور نیوکلیئرلکی تعلیم حاصل کرتے پاکستاکے سپوت، عبدالقدیر خان کی قومی و ملی غیرت نے جوش مارا اور بھارت کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے وطن واپس آگئے، اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے جذبے کو دیکھتے ہوئے موقع دیا، اگرچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ان کی قابلیت و صلاحیت اور حب الوطنی کے شایان شان سلوک نہیں کیا گیا، مگر انھوں نے محدود وسائل اور اختیارات کے باوجود ایک بہت بڑے مشن کابیڑا اٹھالیا اس کی ابتدا کہوٹہ میں ایٹمی ریسرچ لیبارٹری کی صورت میں شروع کی، اس وقت بھارت کے علاوہ اسرائیل، امریکہ اور دیگر ممالک بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے دشمن تھے اور ان کی ایجنسیاں سازشوں میں مصروف ، مگر ان کی سازشوں کو ناکام بنانے اور کہوٹہ لبارٹری کو ہر طرح کا تحفظ دینے میں مسلح افواج بالخصوص آئی ایس آئی نے کمال کر دکھایا اور ڈاکٹر عبد القدیر کی قیادت میں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری میں نا ممکن کو ممکن کر دکھایا اور 1980 میں پاکستان ایٹمی طاقت حاصل کر چکا تھا، یہ اتنا بڑا کارنامہ تھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نشان حیدر کے حق دار تھے، اگرچہ ان کو رسمی طور پر ہلال امتیاز اور نشان امتیاز جیسے اعزاز بھی دئے گئے مگر یہ ان کی ملک و قوم کے لئے خدمات کا مکمل اعتراف نہیں تھا ہمیں تو اس کارنامے کا احساس اور قدر نہیں تھی مگر امریکہ سمیت سامراج کی لابی ان کی دشمن بن گئی تھی افسوس یہ ہے کہ سامراج کی سازش کامیاب ہو گئی اور ڈاکٹر ص امریکہ کے دباؤ پر صدر جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو غلط الزامات لگا کر رسوا کیا، اور گھر میں نظر بند کرکے ایک لحاظ سے قید تنہائی میں ڈال دئیے، حالانکہ ڈاکٹر صاحب نے وطن کے لئے جو خدمت کی اور مکار دشمن کے مقابلے میں دفاع کو ایسی قوت دی کہ دشمن پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر مملکت بنانے کا حق بنتا تھا مگر ہم نے ان کو بے توقیر کیا اورستم ظریفی یہ ہوئی کہ وہ نظربندی کی حالت میں ہی بیمار ہوئے پھر دس اکتوبر کو فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ افسوس کے مرنے کے بعد بھی ہم ان کو وہ تکریم نہ دے سکے جس کے وہ مستحق تھے، چند دن پہلے ایک مزاحیہ اداکار فوت ہوا تو سندھ حکومت نے ایک ہفتہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا، مگر ڈاکٹر قدیر کے لئے ہماری حکومت سے یہ بھی نہ ہو سکا۔ڈاکٹر صاحب اس قوم کی نسلوں کے بھی محسن ہیں اور ہر غیرت مند پاکستانی ان کا احسان مانتا ہے مگر حکومتی سطح پر ان کی زندگی او مرنے پر وہ اقدام نہیں کئے جن کے ڈاکٹر صاحب مستحق تھے اس کے باوجود پوری قوم ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاگو ہے مسلم ہینڈز اپنے تمام سکولوں اور اداروں میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کرکے ڈاکٹعبدالقدیر صاحب کے کارناموں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ایصال ثواب کی اجتماعی دعا بھی کرے گی اللہ کریم ان کو جنت میں شہیدوں کے ساتھ رکھے لکورونا کی وباسے موت شہادت ہوتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں