مہنگائی

Spread the love

کالم نگار:- چوہدری غضنفرعلی گل
مہنگائی ایک ایسا لفظ جو آجکل ہر ادمی کی زبان پر ہے۔ پہلے دور میں مہنگائی کا ورد صرف غریب لوگ جن کی تنخواہیں 15 سے 20 کے درمیان تھی وہ لوگ ہی یہ ورد کرتے تھے ۔ کے چینی مہنگی ہو گئی ہے آٹا مہنگا ہو گیا ہے مگر اج کے اس دور حکومت میں غریبوں کی تو بولتی ہی بند ہو گئی ہے ابھی 20 سے 50 ہزار سیلری لینے والے افراد نے بھی منگائی مہنگائی کا ورد شروع کر دیا ہے ۔ اور ابھی آٹے چینی پتی کے ریٹ پر باتیں کرتے ہیں پریشانی ظائر کرتے نظر آتے ہیں ۔ اور تو اور ایک لاکھ ماہانہ تنخواہیں لینے والے بھی ابھی گبھرائے گبھرائے نظر آتے ہیں ۔ اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟کیا مہنگائی صرف پاکستان میں ہوئی ہے ؟ کیا عمران خان مہنگائی کا ذمہ دار ہے ؟ یہ چند سوالات ہیں جن کا جواب لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کا شور ہے کہ مہنگائی موجود دور نے کی ہے یہ نالائق ہیں نا اہل ہیں اور یسے ہی ہیشمار القابات اپوزیشن حکومت کو دیتی ہے۔ مگر حکومت کہتی ہے یہ اپوزیشن کی کرپشن کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ قوم ابھی تقسیم ہے عمران خان کے سپورٹرز کہتے ہیں خان ہینڈ سم اور اچھی انگریزی بولنے والا لیڈر ہے اور ایماندار اور خوددار لیڈر ہے مہنگائی پر سوال کرئیں تو کہتے ہیں absolutely not جب سپر پور کو بولیں گئے تو مہنگائی کا سامنا پڑے گا ۔ لیکن اپوزیش سے پوچھیں تو کہتی ہیں یہ نااہل نالائق لوگ ہیں ۔ عمران خان کے پاس کرپٹ کابینہ ہے۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جو سابق حکومت میں موجود تھے ۔ عوام کی اکثریت کہتی ہے خان خود ایماندار آدمی ہے مگر اس کے پاس ٹیم نہیں ہے ۔ کرپٹ نالائق لوگ اس کی کابینہ میں شامل ہیں ۔ ابھی اصل وجہ کیا ہے سچا کون ہے اور جھوٹ کون بول رہا ہے حکومت یا اپوزیشن ۔۔۔ اصل وجہ دیکھی جائے تو مہنگائی تو کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہوئی ہے بے روزگاری بھی دنیا بھر میں ہوئی ہے ۔ تو پھر منگائی کا رونا صرف پاکستان میں کیوں بے روزگاری پاکستان میں ہی کیوں زیادہ نظر آرہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ کے پاکستانیوں کی بڑی تعداد سعودیہ اور دبئی میں کام کرتی ہے کرونا وائرس کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں بند ہو گئی وہ سب لوگ بے روزگار ہو کر پاکستان پہنچ گئے ہیں ۔ جہاں وہ ہر ماہ 50 ہزار پاکستان بھیجتے تھے وہاں وہ 0 ہو گئے ہیں پاکستان میں روزگار پہلے ہی کم تھا اوپر سے بیرون ملک سے جانے والے لوگو کی وجہ سے مذید کم ہو گیا۔ دوسری بڑی وجہ جس سے مہنگائی زیادہ لگتی ہے وہ ہے موجود حکومت نے 3 سال میں صرف 10 فی صد تنخواہوں میں اضافہ کیا مہنگائی 50 فی صد بڑھی مگر تنخواہ 10 فی صد جس سے مہنگائی زیادہ محسوس ہوتی ہے اگر سیلری 30 سے 40 فی صد بڑ جاتی تو مہنگائی محسوس نا ہوتی مزدور کی دیاڑی 5 سو سے 8 سو تک ہے جس کو 1 ہزار کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جب انکم کم اور خرچے زیادہ ہوتے ہیں تو مہنگائی محسوس ہوتی ہے ۔ ایک کہانی ہے کے کسی گوں میں ایک ادمی گندم سیل کرنے آتا ہے آواز لگاتا ہے 1 روپے کی ایک بوری ایک بچہ اپنے باپ سے کہتا ہے ابو گندم خرید لیں ایک روپے کی ایک بوری مل رہی ہے سستی ہے باپ بیٹے کو کہتا ہے نہیں بیٹا یہ بہت مہنگی ہے 6 ماہ بعد وہ ہی آدمی دوبارہ گاوں آتا ہے آواز لگاتا ہے 4 روپے کی ایک بوری گندم لے لو ۔ باپ بیٹے کو بولتا ہے بیٹا جاو اس کو بولو 4 بوریاں گندم دئے جائے بیٹا پریشان ہو کر سوال کر تا ہے کہ ابو جب ایک روپے کی بوری تھی آپ نے نہیں خریدی کہتے تھے مہنگی ہے آج 4 روپے کی ایک ہے آج 4 خرید رہئے ہیں ایسا کیوں یہ تو مہنگی ہے ابھی تو باپ کہتا ہے بیٹا اس دن میرے پاس ایک روپیہ نہیں تھا اس لیے میرے لیے یہ مہنگی تھی آج میرے پاس پیسے ہیں اس لیے اب یہ میرے لیے مہنگی نہیں ہے ۔ تو بات یہ ہے کے جب سیلری 15 ہزار ہو گئی اور وہ چیزیں جو پہلے 15 ہزار کی آ جاتی تھی وہ 20 ہزار کی آئے گئی تو 5 ہزار انکم سے کم ہو جائے گا تو مہنگائی تو لگے گئی اگر سیلری 15 سے زیادہ ہو کر 20 ہو جاتی ہے تو مہنگایی محسوس نہیں ہو گئی کیونکہ انکم اور اخراجات میں توازن قائم ہوتا ہے ۔ حکومت کو مہنگائی کنٹرول کرنی ہے تو ان افراد کی سیلری اس بجٹ میں 30 فی صد بڑھانی ہو گئی تاکہ انکم اور اخراجات میں توازن قائم ہو سکے۔ حکومت کی نالائقی تو اس میں ہے کے انہوں نے بہتر منصوبہ بندی نہیں کی ۔ بجٹ تیار کرنے والوں کو دیکھنا ہو گا کہ اگر آپ 50 ہزار سے نیچے سیلری لینے والوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کرئے گئے تو وہ زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے آٹا چینی گھی کیسے خریدے گئے۔ جس تناسب سے مہنگائی اوپر گئی ہے اسی تناسب سے سیلری کو زیادہ کرنا ہو گا ۔ دوسرا حکومت کو زراعت پر توجہ دینی ہو گئی۔ آیک چھوٹا کسان زمین کی کاشت کے لیے ہی پریشان ہوتا ہے کے زمین کو کیسے کاشت کرو کیونکہ چھوٹا کسان 10 لاکھ کا ٹریکٹر نہیں خرید سکتا جو زمین ایک لیٹر ڈیزل تقریبا 1 سو روپے  سے تیار کی جا سکتی ہے اسی زمین کو کسان دوسرے لوگو کے ٹریکٹر سے 1 ہزار میں تیار کرواتا ہے ابھی کسان پہلے سے ہی 9 سو روپے زیادہ لگا چکا ہوتا ہے تو اس کو فائدہ کیا ہو گا ۔ سبزیوں کے بیجوں کو لوگو میں تقسیم کیا جائے۔ ٹیوول اور سولر موٹروں کے لیے حکومت مدد کرئے ۔ ابھی مدد تو کرتی ہے مگر سب ٹوپی ڈرامہ ہے ۔ جو چیز بازار سے 100 روپے کی ملتی ہے اسی چیز پر 2 سو روپے کی قیمت لگا کر سو روپے کی سبسڈی کا اعلان کیا جاتا ہے اس لیے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔ حکومت اور انتظامیہ کو صدق دل سے کسان کے لیے آسان قسطوں پر فنڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاسود قرضوں کا اشتہار لگا کر 15 فی انٹرسٹ لگا دیا جاتا ہے یہ تو غریب کے ساتھ مذاق ہے۔ مہنگائی کو ختم کرنا ہے تو اس پر ایک بہترین کام کی ضرورت ہے چھوٹے لیول کے سرکاری ملازمین کی سیلری کم سے کم اتنی کرنے کی ضرورت ہے کے وہ 7 افراد کے لیے آٹا چینی گھی دودھ سبزی فروٹ ایک ماہ کے لیے آسانی سے خرید سکے ۔ بجٹ بنانے والوں کو عقل سلیم سے کام لینا ہو گا ۔ ٹیکس لگائیں مگر عام آدمی کا خیال رکھا جائے ایک آدمی کی تنخواہ 1 لاکھ ہے تو اس کو 5 فی صد بڑھو مگر جس کی سیلری 20 ہزار ہے اس کی سیلری 15 فی صد بڑھاو تاکہ انکم اور مہنگائی میں توازن قائم رہئے اور مہنگائی زیادہ محسوس نا ہو۔ بے روزگاری ختم کرنی ہے تو حکومتی اداروں کو بہتر کرنا ہو گا ۔ کوئی نیا آدمی کاروبار شروع کرنے لگتا ہے تو ہر محکمہ ایسے اس پر حملہ کرتا ہے جیسے شکاری کتے کسی شکار پر ۔ محکمے تعاون کے بجائے چائے پانی کا سوال کرتے ہیں ۔ مجبوراً شریف آدمی یا بھاگ جاتا ہے یا پھر معیار کو کم کر کہ دو نمبری شروع کر دیتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں