معیشت کیا ہے ایک عام پاکستانی کیسے سمجھ سکتا ہے

Spread the love

تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
یوں تو معیشت اعدادوشمار کا ایساگورکھ دھندہ ہےجسے بغیر پڑھے سمجھناناممکن ہے۔تاہم کوشش کی ہے کہ اسےآسان الفاط میں بیان کرسکوں کیونکہ بہت سارئےعزیز/دوست اکثرمختلف سوالات کرتےہیں۔ معیشت معاش سےماخوزہےجسکامطلب ہےروزگارجبکہ جدید اصطلاح میں‏اس سے مراد انسانوں/ملکوں کےمابین لین دین/دولت کی منتقلی پرنظر رکھنےکاعمل نظام معیشت کہلاتاہے۔ کون کتنی حیثیت کامالک ہے؟ اسکی ظاہری وضع قطع بتاتی ہےجسکا انحصاراسکی آمدنی پرہوتاہے۔ اس وقت پوری دنیا کی دولت کاحجم93ٹریلین ڈالرزکے لگ بھگ ہے۔جسے ہم دنیا کی کل 7 بلین آبادی پر برابر‏تقسیم کریں تو اوسط فی کس آمدنی11818ڈالرزبنتی ہے۔جو24لاکھ 32ہزارسے زائد پاکستانی روپوں کے برابر ہے۔مجموعی طور پر تو یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیا کا ہر انسان خط غربت سے اوپر زندگی گزار رہا ہے کیونکہ عالمی بینک کہتا ہے کہ ایک آدمی کی اگر یومیہ آمدنی 3ڈالرزہےتو وہ غریب نہیں ہے۔‏لیکن اگر حقائق کا جائزہ لیں تو ایسا ہے نہیں کیونکہ دنیا کی 85 فیصد آبادی کی یومیہ آمدنی 30 ڈالرز جبکہ70 فیصد کی 10 ڈالرز سے بھی کم ہے۔ جبکہ 70 کروڑ افراد یعنی ہر دسویں آدمی کی یومیہ آمدنی 2 ڈالرز سےبھی کم ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق اس وقت پاکستانیوں کی فی کس سالانہ آمدنی1193ڈالرزہے۔‏جو 2لاکھ5 ہزار روپوں کے برابر ہے۔ جو عالمی اعدادوشمار کی طرح بظاہر حوصلہ افزا ہیں لیکن انفراد ی طور پر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔چونکہ خوشحالی یا بدحالی کا انحصار قوت خرید پر ہے۔ اورمعاشی نظام میں اس عمل کو جانچنے کے لئے فوڈباسکٹ کی ٹرم استعمال کی جاتی ہے۔جس میں ایک فرد کی یومیہ‏ضروریات کی مقدارکو بلحاظ قیمت جانچاجاتا ہے۔ ٹوکری میں آٹا،چاول، گھی، سبزی سمیت30 کے قریب اشیا شامل ہیں۔اس وقت ماہانہ فوڈ باسکٹ کی قیمت 4ہزار روپے کے لگ بھگ ہے۔جوسالانہ 50 ہزار بنتے ہیں۔ یعنی1 پاکستانی کو صرف زندہ رہنے کے لئے سالانہ 50 ہزار روپوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ایشین ڈویلپمنٹ‏بینک کے مطابق 24 فیصد پاکستانی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ یعنی ہر چوتھا پاکستانی غریب ہے۔جبکہ کرونا کیوجہ سے پچھلے2سالوں میں20 لاکھ مزید خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ قوت خرید میں کمی کیوجہ افراط زر کابڑھناہے۔ معاشی اندازہ کہتا ہے کہ فوڈ باسکٹ کی قیمت میں اضافہ سالانہ بنیادوں‏پر2 فیصد ہوتو نہ معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے نہ ہی مہنگائی کی شرح بڑھتی ہے۔لیکن یہ شرح جیسے جیسے بڑھے گی مہنگائی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اور اگر فی کس آمدنی میں اضافہ نہیں ہورہا اور نہ ہی ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا ہو رہاہے توغربت میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔ جس سے لوگ مایوس ہونگے‏تیجتا جرائم بڑھیں گے اورملک کا نظام گڑ بڑ ہوجائے گا۔حکومت دباو کا شکار ہوکر قرض لینے پر مجبور ہوجائے گی۔ پاکستان کا موجودہ انفلیشن ریٹ 12 فیصد ہے۔جو 2011کے 13 فیصد کے بعد بلند ترین ریٹ ہے۔ اگلے 4 سال میں یہ شرح 6فیصد تک آنیکی امید ہے کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی کی رفتارکااندازہ‏اسکی GDP سے لگایا جاتا ہے۔انگلش ماہرمعاشیات ولیم پیٹی نے1645میں سب سے پہلے اس عمل کو پیش کیا جب ہالینڈ کے ساتھ جنگ کیوجہ سے ٹیکس کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔اقوام متحدہ نے اس نظام کو بہتر جانتے ہوئے اس پر باقاعدہ پہلی کتاب1968میں شائع کی جسے IMF کی مدد سے 2008میں اضافے کے ساتھ‏دوبارہ شائع کیا گیا جو اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے۔ 1991میں امریکہ اور1993میں چین نے جب اس طریقہ کار کو اپنایا تو پوری دنیا اسی نظام کی جانب بھاگ کھڑی ہوئی۔ورلڈ GDP میں 24 فیصد حصے کے ساتھ امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔جبکہ چین15جاپان 6 جرمنی 5اوربھارت ساڑھے 3 فیصد کےساتھ دوسرئے ‏پانچویں نمبر پر موجود ہیں۔GDP سادہ الفاظ میں اگرسمجھیں تو کسی بھی ملک کی تمام آمدنی جس میں مصنوعات کی پیداوار سے لیکر سروسز کے شعبے شامل ہیں سے اخراجات جن میں دفاعی و پیداواری شامل ہیں کو نکال دیا جائے تو جو شرح باقی بچتی ہے وہ اس ملک کیGDPکہلاتی ہے۔اگر یہ شرح گزشتہ سال کی نسبت‏بڑھ رہی تو اسے مثبت گروتھ جبکہ اگر کم ہو تو منفی گروتھ ریٹ کہیں گے۔ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کا گروتھ ریٹ 2011میں 2015, 3.6 میں 4.6 کرونا کے زیر اثر 2020 میں منفی صفر اعشاریہ 4 جبکہ سال 2021 کا 3 اعشاریہ 9فیصد ہے۔دنیا میں جو ممالک اپنی آمدنی سے اخراجات کا حجم کم رکھتے ہیں‏وہ ترقی کے سفر پرگامزن رہتےہیں جبکہ جوممالک اپنی آمدنی کو وقت کےساتھ بڑھانہیں پاتےوہ ترقی پذیرممالک کی فہرست میں نمایاں ہوتے جاتےہیں۔ جبکہ دوسری بڑی وجہ درآمدات/ برآمدات کافرق ہے۔ جسےانگریزی میں ٹریڈ ڈیفیسیٹ کےنام سےجاناجاتاہے۔جن ممالک کی برآمدات کاحجم درآمدات کےحجم سےزیادہ ہے‏وہ ملک ٹریڈ سرپلس ہیں جرمنی جاپان چین ہالینڈاور روس ٹریڈ سرپلس میں ٹاپ 5ممالک ہیں۔ جبکہ جن ممالک کا انحصار درآمدات پر زیادہ ہے وہ منفی ٹریڈکا شکار ہیں۔ امریکہ برطانیہ کینیابرازیل آئرلینڈبدترین منفی ٹریڈ ڈیفیسیٹ کا شکار ہیں۔ معیشت دانوں کا کہناہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی معیشتیں‏اپنے زوال کی جانب رواں دواں ہیں۔ پاکستان تجارتی خسارئے کی فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے۔ تجارتی خسارئے کے شکار ممالک قرضوں کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔کیونکہ درآمدہ شدہ چیزوں کی قیمت ڈالرز میں ادا کرنا ہوتی ہے۔مانگ میں مسلسل اضافہ برقرار رہنے سے ڈالرزکی کمی کامسئلہ بن جاتا ‏(امریکہ کی کرنسی ڈالرہےاسی لئےبچاہواہے)۔حکومت بیلنس آف پیمنٹ کی ٖخاطر قرض لیتی رہتی ہے۔ مقامی کرنسی کی قدر کم ہوتی جاتی ہے جس سے بیرونی قرضوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔قرض وقت پر ادا نہ کرنیکی صورت میں سود کی شرح بھی بڑھنا شروع ہوجاتی ہے۔ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ پچھلا قرض‏ادا کرنے کے لئے نیا قرض نئی شرائط کے ساتھ لینا پڑتا ہے۔ حکومت جو چند ایک چیزوں پر مشکل سے عوام کو سبسڈی دے رہی ہوتی ہے وہ بھی ختم کرنا پڑتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہےکہ1946میں ہنگری اس قدر غریب ہوگیا تھا کہ اندرونی طور پرخریدوفروخت ممکن بنانے کے لئے 100 ٹریلین کے نوٹ چھاپنے پڑ گئے تھے۔‏جبکہ 2008میں زمبابوے کی کرنسی سے بھری ایک بوری بھی ایک امریکی ڈالر کا مقابلہ نہ کرپائی۔جس سے ملک دیوالیہ ہوگیا۔ مجبورا مقامی کرنسی ختم کرکے ملکی معیشت کوڈالر اور یورپین کرنسی کے استعمال سے سہار ا دیا گیا۔ برآمدات میں اضافے کا تعلق قدرقی وسائل اور افرادی قوت و ہنرمندی سے ‏جبکہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری بھی آمدنی میں اضافےکا ایک اہم جزو ہے۔جو اچھی طرزحکمرانی اور قانون کی بالادستی سے ہی ممکن ہے۔ روس 75 ٹریلین ڈالرز مالیت کے قدرتی وسائل کے ساتھ پہلے 45 ٹریلین کے ساتھ امریکہ دوسرئے 34 ٹریلین کے ساتھ سعودی عرب تیسرئے کینیڈا 33 ٹریلین کے ساتھ چوتھے۔‏جبکہ27 ٹریلین کےساتھ ایران پانچویں نمبرپرہے۔چونکہ یہ تمام ممالک اچھی طرزحکمرانی اوراندرونی طورپرمحفوظ ہیں اس لئےدنیاکی طاقتورترین25 معیشتوں میں شامل ہیں۔ جبکہ عراق،لیبیا،افغانستان اور یمن10 ٹریلین کےقدرتی ذخائرکےباوجود بدترین سیکورٹی صورتحال کے باعث ترقی پذیرممالک کی فہرست میں ‏آخری نمبروں پرہیں۔پاکستان بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جسکا اندازہ صرف ریکوڈک کے ذخائر سے لگا یا جاسکتا ہے جنکی مالیت 3ٹریلین ڈالرز کے لگ بھگ ہے۔لیکن بیڈ گورننس، کرپشن، مخدوش سیکورٹی حالات اور قانون کی بالادستی میں ناکامی نے قرضوں کی ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے کہ جہاں‏سے نکلنا اب کسی معجزے سے کم نہیں کیونکہ ماسوائے امن و عامہ کے ہماری ریٹنگ بجائے بہتر ہونے کے مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔139ممالککی فہرست میں نظام عدل 130 ویں نمبر پر ہے۔کرپشن میں 4 درجے تنزلی نے 180 ممالک کی فہرست میں 124 ویں نمبر پر پہنچا دیا ہے1995کے بعد پاکستان کبھی بھی 110ویں‏نمبرسےنیچے نہیں آیا۔دنیا ٹیکنالوجی کی مددسےخامیوں پرتیزی سےقابوپانے کی کوشش میں ہےجبکہ193ممالک کی اس فہرست میں بھی پاکستان 153ویں نمبرپرہے۔ٹیکس ریونیوکی187ممالک کی فہرست میں10فیصد کےساتھ 150ویں نمبرپرہے۔زمبابوےجو دیوالیہ ہوگیاتھا وہاں بھی یہ شرح22فیصدہوچکی ہے۔تمام مسائل کا 1 ہی حل ہے‏کہ ہم ذاتی مفادات کو بھلاکرصرف بطورمحب وطن رہناسیکھ لیں۔حکومت کی معیشت سمھالنے کی کوششوں کی حمایت کی جائے مملکت کی معاشی صورتحال کو سیاسی مفادات کے لیے نا استعمال کیا جائے کیونکہ اس معاشی تباہی کی ذمہ داری کا سبب یہ تین سال نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سالوں کی کوتاہیاں منئ لانڈرنگ اور کرپشن ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں