تحریر چوہدری زاہد حیات
بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں اور اللہ کی رحمت نصیب والوں کو ہی ملتی ہیں
بیٹیاں رحمت قدرت کا حسین تحفہ ہوتی ہیں اور یقین کریں یہ عطیہ خداوندی ہوتی ہیں ان سے گھر کا آنگن آباد ہوتا ہے گھر کا آنگن مہکتا ہے معصوم چڑیوں کی طرح چہچہاتی اور کوئلوں کی طرح کوکتی ہیں ان کی چمک دمک سے زندگی کے رنگ بھلے لگتے ہیں زندگی خوبصورت لگتی ہے زندگی بھر پور لگتی ہے۔ ان کے آ جانے سے گویا بہار آ جاتی ہے موسم خوبصورت ہو جاتا ہے قانون قدرت ہے کہ نازو نعم لاڈ و پیار سے سے پلنے والی ان بیٹیوں کو بیاہ کے دوسرے گھر بھیج دیا جاتا ہے اور پھر ان کے جانے سے جیسے والدین کے گھر سونے ہو کے رہ جاتے ہیں گھر پر ایک دفعہ تنہائی کا آسیب جاتا ہے بے رونقی گھر کے در و دیوار سے ٹپکتی ہے۔ ماں اور باپ کی انگلی پکڑ کے چلنے والی بیٹیاں باپ سے اپنی ہر بات ضد کر کے منوا لینے والیاں اللہ کی یہ رحمتیں۔ بابل کی دہلیز پار کر کے پیا کی دہلیز تک پہنچ جاتی ہیں اور بیٹوں کے جانے سے گھر ہی نہیں دل بھی ویران اور سونے سونے ہو جاتے ہیں۔ گڑیوں سے کھیلنے گڈے اور گڈی کے بیاہ رچانے والی بیٹیاں جب اپنے ہاتھوں پر مہندی رچائے اپنے گھروں سے اپنے پیا کے گھروں میں رخصت ہوتی ہیں تو دلوں میں اک عجیب سی کیفیت در آتی ہے۔خوشی غم اضطراب اور بے چینی و بے کلی کی ایک ملی جلی کیفیت طاری ہو جاتی ہے خوشی اور غم کے ملے جلے احساسات ہوتے ہیں ۔ رخصتی کے بعد بھی یہی احساس ہوتا ہے کہ بیٹی اپنے گھر کے ہی کسی کمرے میں موجود ہے۔ گھر کے ہر حصے سے ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور باپ کی جان ان دونوں کو گھر میں ہر جگہ نظر آتی ہے اس کے وجود کا لمس اور خوشبو اپنے ارد گرد محسوس ہوتی ہے۔ ہر والدین اپنی بیٹی کی خوشی کو مقدم رکھتے ہیں اس کا خیال رکھتے ہیں اس کی معصوم اور ننھی خواہشوں کو پورا کرتے ہیں اس کی بہتر تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے ہیں اسے ضرورت کی ہر شے دے کر پرائے گھر رخصت کر دیتے ہیں یعنی ننھی پری اپنے گھر کی ہو جاتی ہے اچھے نصیب اور اس کے گھر کو آباد رکھنے کی دعاؤں کے ساتھ۔ پرائے گھر کو اپنا گھر بنانے کی نصحیت بھی کرتے ہیں ہر بیٹی اپنے بابا کی ملکہ ہوتی ہے ہر ماں باپ اپنی گڑیا کے اچھے نصیب کی نصیب ہونے کی دعا کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی باپ اپنی بیٹیوں کا نصیب خود نہیں لکھ سکتا انہیں دنیا کی ہر آسائش دے سکتا ہے اچھانصیب تو کاتب تقدیر نے ہی لکھنا ہے والدین اپنی بیٹیوں کے اچھے نصیب کیلئے رحمت خداوندی کے ہمشہ ہی طلب گار رہتے ہیں بیٹیاں بھی اپنے سگھڑپن اور اچھی تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ ہو کر سسرال کو بھی اپنا گھر اور جنت کا نمونہ بنا سکتی ہیں۔ سسرال والے بھی اپنی بیٹیوں کا درجہ دے کر بہو کو بھی اپنی بیٹی ہونے کا احساس دے سکتے ہیں
بیٹیوں کی بہتر پرورش کے لئے فخر کایئنات نے خصوصی احکام بھی دیئے اور عملی طور پر اپنی پیاری بیٹی اور خاتون جنت کی ہمیشہ عزت افزائی کی اس لئے ہمیں بھی بیٹیوں کو اسی طرح اہمیت دینا چایئے بیٹاں سب کی سانجھی ہوتیں یہ ہمارے معاشرے کا سب سے خوبصورت محاورہ ہے ہر فرد کی عزت بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن اللہ کی یہ رحمتیں جو بیٹوں کی شکل میں ہمیں عطاء کی جاتی ان کو تو متاعِ حیات ہی ان کی عزت ہوتی ہے کسی معصوم بیٹی کی ذرا سی بات پر افسانے گھڑنے والوں کہ یہ سمجھنا ہوگا کہ اللہ کی رحمت پر بہتان باندھنے والوں سے اللہ کبھی خوش نہیں ہو سکتا
بیٹی کی عزت کا معیار تو فخر کائنات رحمت اللعالمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرما دیا جب بھی حضرت سیدہ فاطمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کھڑے ہو جاتے دو جہانوں کا سردار فخر کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ہی اپنی امت کو بتا رہا کہ بیٹیاں تو واجب الااحترام ہوتیں
ایک بیٹی کی تعلیم ایک پوری قوم کو تعلیم دینے کے مترادف ہوتا ایک پوری نسل کو تربیت دینے کے برابر ہوتا ہے محفوظ تعلیم یافتہ اور باکردار بیٹیاں پوری قوم کو بدل دیتیں ہیں گھر قوم معاشرہ ان سب کی بہترین تشکیل کے لیے بیٹیوں کی اچھی تربیت تعلیم اور کردار سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں
