خالق کانئات کی اس کانئات کی سچائیاں

Spread the love

تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
بے شمار کہانیوں میں عاشق کو اپنے محبوب کی محبت میں چاند تارئے توڑلانے کی باتیں کرتے پڑھا، دیکھا اور سنا جبکہ خود بھی اس ناقابل عمل جملے کوجذبات میں برسوں بسائےرکھا۔لیکن نہ سنتےوقت اسکی گہرائی کا اندازہ تھا نہ کہتے ہوئے۔وقت گزرتا گیا۔تاریخ سےلگاو پیدا ہوا۔ لکھنےاورکچھ نہ‏ کچھ جانتے رہنے کی فطرت اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سمجھتا ہوں۔ تو جغرافیائی اور خلائی سائنس کو سب سے دلچسپ اور اہم پایا۔لیکن افسوس کے ساتھ ان اہم ترین موضوعات کا احاطہ عصر حاضر کے علما کو کرتے بہت کم دیکھا ہے۔حالانکہ قرآن مجید کی 6666آیات میں سے قریبا 1000 سائنس کے متعلق ہیں۔ چند دن پہلے ایک عالم دین کو سننے کا‏موقع ملا جنہوں نے اپنے چند منٹ کے بیان میں لفظ کائنات کو کئی مرتبہ دہرایا۔خواہش رہی کہ وہ جو فرما رہے تھے کہ اللہ سبحان و تعالی نے عشق محمد میں کائنات تخلیق کی اگر تشریح کردیتے کہ کائنات کتنی وسیع ہے؟ تو بیان سننے کا مقصد پورا ہوجاتا یہ۔خواہش تو پوری نہ ہوسکی البتہ انٹرنیٹ کی سہولت اور جستجو کے جذبے نے اکسایا کہ خود کوشش کی جائے کہ کائنات کی سچائی شاید کچھ سمجھ اجائے کہ یہ کائنات جو خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر تخلیق کی گئی آخر کتنی بڑی ہے؟ اللہ سبحان و تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یقینا لازوال تحفہ ہی دیا ہوگا۔۔‏سورت الانبیا کی آئت نمبر 30بتاتی ہے کہ کائنات ایک اکائی تھی جسے پھاڑ کر جدا جدا کردیاگیا۔ 14 سو سال پہلے کے فرمان الہی کو بتدریج مشاہدات کی روشنی میں پہلی بار 1920میں بگ بینگ یعنی بہت بڑئے دھماکے کا نام دیا گیا۔ جس سے قرآن کی حقانیت سب پر عیاں ہوگئی۔ اس وقت دنیا کے 7 ارب لوگ‏وجہ تخلیق کائنات کو14 ارب سال پہلے ہونیوالے دھماکے کو ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہی نظریہ قرآن کی اس حقیقت کو بھی منواتا ہے جسکے مطابق کائنات مسلسل پھیل رہی ہے یعنی اسکے سائز میں اضافے کا عمل تاحال جاری ہے۔چونکہ یہ عمل جاری ہے اس لئے قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے بارئے میں یہاں بات‏کرنا موضوع سے دور لے جائے گا۔لہذا ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت سائنس کے مطابق کائنات کا سائز کتنا ہے؟ تاکہ خالق کے عشق محمدی کی گہرائی کے بارئے میں تھوڑا بہت آگاہی حاصل ہوسکے تاہم یہ اظہر من الشمس ہے کہ اس گہرائی کو ماپنا کسی بھی پیمانے کے بس میں نہیں۔‏زمین جس پر ہم رہتے ہیں اسکا ڈایا میٹر 12742کلومیٹر ہے۔ اور قریب ترین سیارہ چاند ہے جو تین لاکھ چوراسی ہزار چوراسیکلومیٹر ہے۔اگر ہم 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مسلسل سفر کریں تو ہمیں بچوں کے چندا ماما پر پہنچنے کے لئے 166 دن لگیں گے۔جبکہ سورج کا زمین سے فاصلہ 147ملین‏کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔انسان اگر1000 کلومیٹر کی رفتار سے مسلسل 17سال سفر کرے تو سورج چاچو پاس تو آجائے گا لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ہم زمین پر اسکی تپش برداشت نہیں کرپاتے تو قریب جانے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟ جبکہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سورج کی روشنی کو زمین پر پہنچنے‏میں 8 منٹ لگتے ہیں حالانکہ روشنی کی رفتار 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ناسا نے 1977 میں وائجر ون نامی سیارچہ بھیجا جو 17 کلومیٹر فی سیکنڈ(38000 میل فی گھنٹہ) کی رفتارسے محور پرواز ہے۔اب تک 28بلین کلومیٹر زمین سے دور جاچکا ہے۔ سب سے زیادہ خلائی سفر کرنیوالوں مصنوعی سیارچوں کی‏فہرست میں پہلے نمبر پر یہ سیارچہ تاحال سورج کی کشش قوت سے باہر نہیں نکل سکا۔ اس وقت یہ انٹرسٹیلر اسپیس میں ہے جہاں سورج کی کشش قدرے کم ہوجاتی ہے۔نظام شمسی میں نیپچون اور سورج کا فاصلہ سب سے زیادہ ہے جو 4.5بلین کلومیٹرز کے برابر ہے۔ایک سولر سسٹم اور اسکے اجزاجس میں 100 بلین‏ستارئے ہوں ملکی وئے کہلاتا ہے۔ جسکا سائز 1 سے2 لاکھ نوری سال کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ ماہرین فلکیات اب تک 3200کے قریب سولر سسٹم دریافت کرچکے ہیں۔ کئی سولر سسٹمز کا حامل دائرہ گلیسی کہلاتی ہے۔جو حجم میں 3 لاکھ نوری سال کے برابر‏ہوتی ہے۔ناسا کی ہبل ٹیلی اسکوپ اب تک 100 بلین گلیکسیز دریافت کرچکی ہے۔یہ تعداد مزید کئی گنا بڑھنے کی امید ہے کیونکہ ہبل سے100 گنا طاقتور جیمز ویب نامی خوردبین روانہ ہوچکی ہے۔سینکڑوں سے ہزاروں گلیکسیز ملکر ایک کلسٹر بناتی ہیں۔اورکئی کلسٹر مل کر سپر کلسٹر بن جاتے ہیں۔ ماہرین‏کہتے ہیں کہ جتنی بھی کائنات اب تک دریافت ہوچکی ہے اس میں قریبا 100 ملین سپر کلسٹرز ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق کائنات میں صرف سیاروں کی تعداد 200 بلین ٹریلین ہے۔ اسکی آسان مثال ایسے ہے کہ ہم اتنے کپ بنائیں کہ پوری دنیا کا پانی ان میں بھر لیں۔ تو بھرئے ہوئے کپ کائنات میں موجود‏ستاروں کی تعداد کے برابر آجائے گی۔ زمین پر پانی کی مقدار کا تعین کچھ یوں ہے کہ زمین کا 71 فیصد رقبہ پانی جبکہ 29فیصد خشکی پر مشتمل ہے۔ 71 فیصد میں سے 97 فیصد سمندروں پر مشتمل ہے۔جبکہ قطبین پر جمی برف 2 فیصدپانی کے برابر بنتی ہے۔ باقی ایک فیصد پانی سے پوری دنیا اپنی تمام‏ضرروریات زندگی پوری کررہی ہے۔ اب تک کی قابل مشاہدہ کائنات کا ڈایا میٹر 93 بلین نوری سال کے برابرلگایا گیا ہے۔ جبکہ یہ73 کلومیٹر فی سیکنڈ پھیل بھی رہی ہے۔ اسکی مثال ایسے ہے کہ اگر ہم اپنی زمین کو کھو دیں اور پھر اسے ڈھونڈنے نکل پڑیں تو وہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ریت کے زروں کا فٹ‏بال بناکر اسے بکھیر دیں اور پھر اپنا درکار ذرہ تلاش کرنا شروع کردیں۔ ہم جتنی مرضی کوشش کرلیں کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکتے تاہم امید ہے کہ اب آپ جب بھی لفظ کائنات کسی بھی حوالے سے سنیں یا پڑھیں گے تو اسکی وسعت کا تصور ضرور آپکے ذہن میں بنے گا۔ اور یہ بھی امید ہے کہ‏آپکا دل ہر بار ضرور گواہی دیگا کہ سورۃ رحمن کی آئت واقعی سچ ہے۔ کہ ائے ایمان والو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے۔ آخر میں ان تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے DMکرکے خلائی سائنس کے بارئے میں مزید لکھنے کی ڈیمانڈ کی۔ اوپر لکھی گئی تمام معلومات کے بارئے میں‏یقیننا آپ پہلے بھی جانتے ہونگے بس میں نے انکو نیا رنگ دینے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔جو یقیننا آپکو پسند آئیگی۔ جبکہ نئے سال کی پہلی تحریر کا خالق کائنات کے بارے میں ہونا بھی باعث برکت سمجھتا ہوں۔۔۔اللہ کریم ہمیں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں