چوہدری زاہد حیات
“*فوج نے ریسکیو کیا تو وہ اس کے اسے الگ سے پیسے کیوں دئیے جاتے”
جی بہت زیادہ پیسے لیتی ہے۔ ایک تو سپاہیوں کے کھانے کا خرچہ لیتی ہے کیونکہ ایسے آپریشنز میں وہ اپنی میس سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پیسے خرچ کر کےکھانا کھائیں تو ان کو ادائیگی کی جاسکے۔ یہ فی کس محض چند سو روپے ہوتے ہیں۔
دوسرا فوج گاڑیوں کے پٹرول کا خرچہ لیتی ہے۔ ضلعے کا ڈی سی استعمال شدہ پٹرول کا بل منظور کرتا ہے۔ وہ پیسے بھی براہ راست کیش کی شکل میں نہیں ملتے ایک محکمانہ اکاونٹ سے دوسرے اکاونٹ میں منتقل ہوتے ہیں۔جس کا باقاعدہ آڈٹ ہوتا ہے۔ جس کا باقاعدہ حساب ہوتا ہے
دنیا کے اکثر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ قانون ہے کہ انٹرنل سیکیورٹی اور سول معاملات پر دفاعی بجٹ خرچ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی فوجی افسر ایسا کرے تو یہ جرم ہوتا ہے۔ لہذا جب فوج کو آرٹیکل 245 کے تحت طلب کیا جاتا ہے تو کھانے اور پیٹرول کا خرچہ سولانتظامیہ کے ذمے ہوتا ہے۔ یہی ساری دنیا کا قانون ہے صرف یہ پاکستان میں نہیں ہے
” آدھے مری پر تو فوج کا قبضہ ہے اور دیوار پر لگی خار دھار تار عوام اور فوج میں فرق تھا۔ تار کے اس طرف فوجی پرسکون بیٹھ کر آگ تاپ رہے تھے اور دوسری طرف لوگ مر رہے تھے۔ “
مری میں فوجی کینٹ قیام پاکستان سے پہلے برٹش راج نے بنایا تھا۔ صرف اس لیے کہ یہاںموسم ٹھنڈا تھا اور آبادی نہیں تھی۔ بعد میں پاک فوج نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ سول آبادی بعد میں وہاں گئی اور بازار وغیرہ بنے۔ یوں سمجھیں کہ کینٹ سول آبادی میں نہیں گھسا بلکہ سول آبادی کینٹ کے ارد گرد آباد ہوگئی۔
اس میں فوجی برفباری کے مزے لینے نہیں بیٹھتے۔ بلکہ یہاں کچھ اہم نوعیت کے لاجسٹکس یعنی ہتھیاروں اور راشن کے ڈپو ہیں اور یہاں سے ایل او سی پر کھڑی فوج کو لاجسٹکس فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دو اے پی ایس سکول اور ایک ملٹری کالج ہے جہاں بچے پڑھتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ سب سے پہلی اور بھر پور مدد انہی خاردھار تاروں سے پہنچی۔ جس تصویر کو سب سے زیادہسرکولیٹ کیا جارہا ہے انہیں گاڑیوں کو سب سے پہلے ریسکیو کیا گیا تھا۔ اس کے لیے سول انتظامیہ کی کال کا انتظار بھی نہیں کیا گیا۔ فوج نے نہ صرف اپنا راشن لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کیا بلکہ زبردستی ان کو اپنے گیرژنز میں لے گئے۔ فوج کے زیر اتنظام جتنی عمارات ہیں بشمول ملٹری کالج سب کےدروازے عوام کے لیے کھول دئیے گئے۔ فوری ریلیف کیمپ الگ سے بنائے اور فوجی ڈاکٹرز بھی فوری طور پر پہنچ گئے۔ لوگوں کو ادوایات بھی فراہم کی گئیں۔ پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوجی گاڑیاں استعمال کی گئیں۔ جن کی گاڑیوں میں پٹرول ختم تھا ان کو پٹرول ڈلوایا گیا۔ مری کے داخلی راستوں پہفوری ملٹری پولیس تعینات کی گئی اور مزید گاڑیوں کا داخلہ روکا گیا کیونکہ لوگ بدستور آرہے تھے۔ حالت یہ تھی کہ ایک حاضر سروس برگیڈئر ٹریفک پولیس والے کی طرح چوک میں کھڑا گاڑیاں نکلوا رہا تھا۔ جنرل صاحب خود کھڑے سارا آپریشن دیکھ رہے تھے۔ اس ریسکیو آپریشن کے لیے آدھی رات کو آرمی چیف کا حکم آیا تھا کہ کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے مدد کرنے میں ۔ نتیجے میں دو دن میں کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ پھنسے لوگوں کو پاک فوج نے ریسکیو کیا ہے۔
یہ خاردار تاروں میں گھرے چند سو فوجی نہ ہوتے تو خدا کی قسم ہلاکتوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ۔ جو سرخے کہہ رہے ہیں خاردار تار کے اس طرف ایک دنیا ہے اوردوسری طرف دوسری دنیا تو حضور خاردار تار کے اس طرف فوجی ڈپو اور لاجسکٹس کی حفاظت کرنے کھڑے تھے جب کہ اس طرف لوگ اپنی اپنی گاڑیوں میں مری برفباری انجوائے کرنے گئے تھے۔
آفت فوج کی طرف سے نہیں اللہ کی طرف سے آئی۔ غلطی انتظامیہ کی ہے مری میں گنجائش سے زیادہ گاڑیاں کیوں جانے دی گئی اگر موٹروے کو بند کیا جا سکتا ہے تو مری کو بھی بند کیا جا سکتا تھا کیوں نہیں بند کیا گیا
اور ذرا یہ بتائیں کہ فوجیوں کے علاوہ وہاں اور بھی انسان تھے کہ نہیں؟
جنہوں نے کمروں کے کرائے 30 سے 40ہزار کر دئیے،
گاڑیوں کو دھکا دینے کے 1500 اور 3000 روپے مانگنے لگے؟
پانی کی بوتل 500 کی کردی؟
چائے کا کپ 300 کا؟ابلا انڈا 200 کا؟
اور عام کمبل 5000 کا کر دیا گیا؟
بطور قوم ہم میں کوئی ذرا سی بھی انسانیت بچی ہے کہ نہیں؟؟
” فوج پہلے ہی کیوں نہ آئی لوگوں کے مرنے کا اتنظار کیوں کیا؟ “
فوج کو ہمیشہ سول انتظامیہ طلب کرتی ہے جب معاملات سول انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہوجائیں۔ یہاں سول انتظامیہکی آمد سے کئی گھنٹے قبل ہی ٹین کور کے جوان ریسکیو کرنے پہنچ گئے جس کی