بلوچستان تاریخ کے آئینے میں
تحریر و تحقیق چوہدری زاہد حیات
بلوچستان کی سو کالڈ ازادی کی تحریک کو سچا ثابت کرنے کے لیے عام بلوچ نوجوانوں کو غلط تاریخی حقائق بتائے جا رہے ہیں اور غلط تاریخ پیش کی جاتی ہے اور ہماری لیفٹ کی انٹیلیجنشیاء اسکو من و عن اور درست تسلیم کر کے اگے پھیلاتی رہتی ہے. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بلوچ علیحدگی پسندوں کو اپنی دہشت گردی کی کاروائیوں کو آزادی کی جنگ کہنے کا موقع مل جاتا ہے حلانکہ یہ آزادی کی نہیں وطن عزیز کو کمزور کرنے کی سازشوں کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کے وجود کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کا تسلسل ہے
اس نام نہاد جنگ آزادی کی ساری تحریک کا تاریخی حقائق ، جو نوجوان بلوچوں کو بتائے جا رہے ہیں وہ ریاست قلات کے ساتھ قائدِاعظم کا ایک still agreement ہے جو 11 اگست کو ہوا. اس معاہدے میں قائداعظم نے قلات کو الگ non Indian ریاست تسلیم کیا لیکن 11 اگست کو قائداعظم کے پاس کوئی لیگل اتھارٹی نہیں تھی.اس still agreement کو اس وقت کے وائسرائے نے مسترد کر دیا اور منظورِ نہیں کیا اس لیے کہ اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت تسلیم نہیں کی جا رہی تھی سو وہ معاہدہ غیرموثر رہا. انگریز قلات کو British Indian State ہی تصور کرتا تھا. اور قلات عملاً انگریزی سلطنت کا ہی حصہ تھی
موجودہ بلوچستان، 1933 تک دراصل 5 حصوں پر مشتمل تھا.
چیف کمشنر صوبہ، قلات، خاران، لسبیلہ. یہ 4 ریاستیں/صوبہ جبکہ مکران ضلع تھا. 1933 میں انگریز حکومت نے خان آف قلات کو لسبیلہ اور خاران کا بھی کنٹرول دے دیا لیکن لسبیلہ اور خاران کو ریاست قلات میں شامل نہیں کیا اور نا قانونی طور پر قلات کا حصہ بنایا
خان آف قلات کا مطالبہ کہ قلات کو Non Indian state تصور کیا جائے، مسترد کر دیا گیا. اور انگریزی حکومت اس ایک الگ ریاست ماننے پر تیار نا ہوئی
قانون ازادی ہند کے تحت ہندوستان میں تمام princely states کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق الحاق کریں. ہندوستان میں 1947 میں 565 princely states تھیں، جو عملا انگریزی حکومت کے زیرِ اثر ہی تھیں. یعنی انگریز کو سالانہ ٹیکس دینے کے ساتھ ساتھ جنگ کے دوران افرادی قوت فراہم کرنے کی پابند تھیں princely states, یہ خودمختار ریاستیں، جیسے ریاست کشمیر، ازاد یا الگ حیثیت کے ملک نہیں تھے . انکو فوج رکھنے کی اجازت تھی نہ خارجہ تعلقات کی، نہ ریل بنانے کی اور نہ ہی بیرونی تجارت کی. نا ہی کسی دوسری ریاست سے دفاعی معاہدے کرنے کی تو پھر یہ کہاں سے ثابت ہوتا کہ یہ خودمختار ریاستیں تھیں
یہ صرف اندرونی معاملات میں خودمختار تھیں.
پورے ہندوستان میں ایسی 565 ریاستیں تھیں، قلات ان میں سے 1 تھی.قانون ازادی ہند کے تحت ان ریاستوں کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی 1 کا انتخاب کرنا تھا. کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنا تھا ازاد رہنے کا کوئی آپشن رکھا نہیں گیا تھا.
ازاد صرف 2 ریاستیں ہو رہی تھیں، ملک صرف دو بن رہے تھے یعنی پاکستان اور بھارت
یہ دونوں برٹش انڈیا کی successor state تھیں.
خودمختار یا princely states نے ان دو میں سے کسی 1 کا انتخاب کرنا تھااور قانون میں تھا کہ یہ princely states, الحاق کا فیصلہ جغرافیے اور اپنی ابادی کے مذہبی معاملات کو مدنظر رکھ کر کریں گی اپنی عوام کے منشا سے کریں گی
جوناگڑھ ہندو اکثریتی ریاست تھی، نے پاکستان سے الحاق کیا لیکن بھارت نے تسلیم نہیں کیا اور نا اس کو مانا کہ اس ریاست میں اکثریت ابادی ہندو تھی
ہندو اکثریتی حیدرآباد دکن نے ازاد رہنے کا فیصلہ کیا، بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیاکشمیر کے غیرمسلم حاکم نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا، پاکستان نے تسلیم نہیں کیا. اور آج تک یہ مسلہ حل طلب ہے
اسی طرح قلات تھی. قلات کے پاس ازاد رہنے کا کوئی اپشن ہی نہیں تھا. ریاست قلات، برٹش انڈیا کا حصہ تھی اور پاکستان برٹش انڈیا کی successor state ہے. ریاست قلات by default ہی dominion of Pakistan کا حصہ تھی ریاست قلات کے واحد دوسری اپشن بھارت سے الحاق کا تھا.
ازادی کی کوئی اپشن ہی نہیں تھا
قلات کی دو ذیلی ریاستیں، لسبیلہ اور خاران نے پاکستان سے الگ الحاق کیا. اور اپنی عوام کی منشا سے پاکستان سے الحاق کیا
قلات کی ابادی مسلمان اور جغرافیہ بھارت سے بہت دور تھا.اور عملا اس کا بھارت سے الحاق ممکن ہی نہیں تھا لہذا قلات بھارت کو جوائن نہیں کر سکی.
یہ ریاست قلات کی کُل کہانی ہے.باقی رہا موجودہ بلوچستان تو، اس صوبے کی موجودہ جغرافیائی شکل پاکستان نے تشکیل دی ہے.
بلوچ ابادی، بلوچستان کی کُل ابادی کا بمشکل 45٪ ہے، قلات کی ابادی اس سے بھی کم.
مکران، لسبیلہ، خاران کا قلات ریاست سے کوئی تعلق نہیں
گوادر کو پاکستان نے خرید کر بلوچستان میں شامل کیا یہ کسی طور پر پہلے بلوچستان کا حصہ نہیں تھا. نام نہاد بلوچ سرمچار اگر ریاست قلات کی بحالی چاہتے ہیں تو وہ پھر بھی پاکستان کے نیچے رہے گی.
اگر بلوچ نسل کی بنیاد پر ازادی چاہتے ہیں تو پھر بلوچستان کی اکثریت غیر بلوچ ہے، اور بلوچوں کی اکثریت بھی ان نام نہاد آزادی پسندوں کے ساتھ نہیں ہے. لہذا تاریخی اور سیاسی پس منظر میں تو انکا کیس کمزور ہے اور ان میں کوئی جان نہیں ہے.اب کچھ زمینی حقائق دیکھتے ہیں کہ کیا عملاً بلوچستان کی نام نہاد آزادی ممکن ہے
کہ کیا سو کالڈ بلوچ سرمچاروں کی مسلح جدوجہد انہیں ازادی دلوا سکتی ہے؟
امریکی جنگ ازادی ہو یا بنگلہ دیش یا پھر ترکی،
مزاحمت کاروں کو فتح تب ہوئی جب قابض افواج سمندرپار سے تھیں. اور مزاحمت کاروں کو بیرون ملک سے بھی بھرپور طور پر مدد حاصل تھی
اور یہ جنگیں پروفیشنل فوجیوں نے لڑی تھیں ناکہ گوریلا فائٹرز نے.گوریلا جنگ میں کامیاب مثالیں ویتنام اور افغانستان کی ہیں
لیکن وہاں بھی امریکی سمندرپار سے ائے تھےاور خود تھک ہار کر چلے گئے.
باقی گوریلا جنگ، بھلےکشمیر میں ہو یا فلسطین یا کردوں کی ترکی/عراق میں ہو یا تامل ٹائگرز کی سری لنکا میں
جہاں جہاں حکومت مقامی تھی، وہاں گوریلے ناکام ہوئےباقی فلسطین اور کشمیر کے پاس مبہم سی کامیابی کا امکان یہ ہے کہ انکا مسلہ عالمی ہے.
اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں
بلوچستان کا ایسا کچھ بھی نہیں ہے.
بلوچستان کے ایشو پر کسی بھی ملک نے ان نام نہاد بلوچ سرمچاروں کی کھلم کھلا حمایت نہیں کرنی. صرف پاکستان کو under pressure کرنے کے لیے خفیہ مدد دیں گےلہذا سوچنے کا مقام بلوچ intelligentsia کے لیے ہے.
پنجاب کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ عناصر یا لیفٹسٹ استادوں کی باتوں میں آکر ایک ہاری ہوئی بےمقصد اور فضول جنگ میں کودنے کا کوئی فائدہ نہیں.ان نام نہاد
بلوچ سرمچاروں کا پریشر بنا کر ان لوگ ریاست سے بہتر ڈیل لینا چاہتے اس کے علاؤہ اس جنگ کی کوئی حثیت نہیں ہے
اس نام جنگ کو شروع کرنے والوں کو بلوچ نوجوان سے کوئی ہمدردی نہیں یہ صرف سادہ لوح بلوچوں کو استعمال کر رہے ہیں ریاست نے بلوچستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا. یہ بھی ایک پراپیگنڈا ہے جو بلوچی عوام کو اکسانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے
غربت کے خاتمے میں ناکامی پورے پاکستان میں یکساں ہے. جو علاقے آج نسبتاً ترقی یافتہ ہیں، وہ علاقے 1947 میں بھی اتنے ہی آگے تھے باقی ملک سے.
اس بات کو دلیل بنا کر نوجوانوں کو اسلحہ پکڑانا، پاکستان کے ساتھ ان نوجوانوں کے ساتھ ظلم ہے اجنوبی پنجاب اور اندرونی سندھ کے علاقے بھی بلوچستان کی علاقوں کی طرح پسماندہ ہیں لیکن وہاں تو کبھی آزادی کی بات نہیں ہوئی نا کوئی مسلح جدوجہد وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کا مسئلہ اٹھارویں ترمیم کے بعد کافی حد تک حل کر دیا گیا ہے دولت کی غیر منصٹ تفریق ترقی پزیر ریاستوں کا مسئلہ ہے لیکن یہ مسلہ صرف پاکستان کا نہیں سارے ترقی پزیر ممالک کا یہی حال ہے
بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور انشاللہ ہمیشہ پاکستان کا حصہ رہے گا