کوئی اُنہیں سمجھائے ہم سمجھائیں کیا؟

Spread the love

تحریر ابوسنین ایم ڈی چلاسی

گلگت بلتستان جہاں معاشی. دفاعی.جغرافیاٸی معدنی ۔معاشی.مذہبی سیاسی اور علاقاٸی اعتبار سے انتہاٸی اہمیت کا حامل ہے وہاں پر اس علاقے کی خوبصورت وادیوں،
بہتے جھرنوں،۔شر شر کرتی آبشاروں۔۔برف پوش پہاڑوں ۔۔
سنگلاخ چٹانوں ۔اور
پوشيدہ قدرتی وسائل سے مالا مال، محبِ وطن لوگوں کا مسکن اور انتہائی اہم جغرافیائی محلِ وقوع پر واقعہ علاقہ دیامر گلگت بلتستان ہر لحاظ سے وطنِ عزیز کیلئے کسی بھی تحفہ خُداوندی سے کم نہیں۔کیونکہ اس خطے کو چیرتا ہوا سی پیک اور محب وطن اور بہادروں کی سرزمین دیامر جہاں پر ملکی سطح کا تعمیر ہونے والا میگا منصوبہ دیامر بھاشہ ڈیم انتہائی اہم محل وقوع پر تعمیر ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے دشمن طاقتوں کی نظریں اس علاقے پر ہمیشہ سےمرکوز رہی ہیں۔چونکہ گلگت بلتستان کا رقبہ تقریباً 73 ہزار مربع کلومیٹر (28 ہزار مربع میل) سے زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ 2015 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی لگ بھگ 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔جو اب بڑھ کرساڑھے اٹھارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے گلگت۔بلتستان کے جنوب میں پاکستان کا زیر انتظام کشمیر، مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا، شمال میں افغانستان کی واخان راہداری، مشرق اور شمال مشرق میں چین کا سنکیانگ خطہ اور جنوب مشرق میں ہندوستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر اور لداخ واقع ہیں۔گلگت بلتستان آج تک پاکستان کی کسی دستوری دستاویز کے مطابق متنازع نہیں ہے۔جبکہ گلگت بلتستان سیاسی طور پر مسئلہ کشمیر کا حصہ ضرور بنا دیا گیا ہے۔اور ریاست پاکستان کا اقوام متحدہ میں بھی یہی موقف رہا ہے لیکن اہم بات یہ کہ آئین پاکستان نے آج تک گلگت بلتستان کو متنازع نہیں لکھا۔یہ علاقہ زرعی اور معدنی اعتبار سے بھی زرخیز قرار دیاجارہا ہے۔جس طرح زراعت ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ھڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسی طرح زمین کی تہہ میں پوشیدہ قیمتی معدنیات اوردھاتیں بھی ملکی اور علاقاٸی سطح کی معاشی و صنعتی ترقی میں بے پناہ اہمیت کی حامل ہیں۔اس کی مثال ریکو ڈیک سے دریافت ہونے والے سونے چاندی کے اربوں ڈالر مالیت کے معدنی ذخائر اور پنجاب میں چنیوٹ رجوعہ ،کالا باغ ڈیم اور دیگر مقامات سے ملنے والے خام لوہے، کوئلے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی دریافت ہے۔ماضی میں معدنیات کی تلاش اور دریافت شدہ قیمتی دھاتوں کی بہتر اندازمیں مارکیٹنگ اور نجی شعبے کو سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنے کی کوئی خاص سنجیدہ کوشش نظر نہیں آٸی۔،
تاہم حالیہ دنوں وزیر اعلی گلگت بلتستان بیرسٹر خالد خورشید نے دبٸی ایکسپو میں بین الاقوامی کاروباری کمپنیوں کو گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری پر آمادہ کرتے ہوۓ محکمہ ۔کان کنی و معدنیات ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے گلگت بلتستان میں کانوں اور معدنیات کی کھوج اور کھدائی کے فروغ و ترقی کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تاکہ اس خطے کی مجموعی پیداوار میں مثبت تبدیلی کو یقینی بنایا جا سکے۔چونکہ اللہ تعالی نے اس خطے کو بے تحاشہ نعمتوں سے مالا کیا ہے ۔یہ خطہ نہ صرف سیاحتی ۔معاشی ۔جغرافیاٸی ۔دفاعی۔مذہبی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ قدرتی معدنیات کے اعتبار سے بھی یہ خطہ منفرد مقام رکھتا ہے۔مگر بدقسمتی سے ماضی سے لیکر تاحال اس خطے کے سادہ عوام کو کبھی علاقاٸیت ۔کبھی قومیت۔کبھی لسانیت۔اور کبھی مذہبی منافرت۔اور کبھی قوم پرستی کا نعرہ لگاکر باہم دست و گریباں کردیا گیا۔آپس میں نفرتیں پھیلاٸی گٸی۔اس علاقے کو بدامنی کیطرف جبرا دھکیلا گیا کیونکہ یہ خطہ سی پیک کی گزرگاہ بھی ہے۔اور اس خطے میں ملکی سطح کا میگا منصوبہ دیامر بھاشہ ڈیم بھی تعمیر کیا جارہاہے۔جس سے ملک پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوجاتا آبی اور بجلی کے بحران سے نکل کر خودکفیل ہوجاتا اور مظبوط ہوجاتا۔ان تمام خطرات و خدشات کے پیش نظر دشمن طاقتوں کی نظریں اس خطے پر مرکوز ہیں جو کسی بھی طریقے سے اس علاقے کے عوام کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔اس خطے کو کبھی پرامن دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس خطے میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو جی بی آنے سے روکنے کے لٸیے مختلف راستوں میں روڑے اٹکاٸینگے۔جب سے گلگت بلتستان میں بیرسٹرخالدخورشید نے حکومت سنبھالی تب سے یہ خطہ انتہاٸی پرامن رہا تھا نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہونا شروع ہوچکی تھیں۔سرمایہ کار آنے لگے تھے لوگوں کو تھوڑا شعور آنے لگا تھا اتنے میں بیروزگار سیاسی چلے ہوۓ کارتوس نے الناصر سوساٸٹی کا خودساختہ ایشو کھڑا کرکے عوام کو سڑکوں میں لاکر ایکبار پھر سادہ عوام کو قوم پرستی اور مذہب پرستی کے خول میں پھنساکر پورے گلگت بلتستان کو فرقہ واریت کے طرف دھکیلنے کی تیزی سے کوشش جاری رکھی۔آج اس پرامن خطے میں ایک مخصوص زہنیت کے لوگ الناصر سوساٸٹی کے نام سے ملک پاکستان کی مشہور و معروف کمپنی مہمند داداکے زمہ داران کی انسانیت نواز متوازن پیروکاروں کو نہایت مذموم وقابل نفرت شکل میں پیش کرنے اور اسے مذہب کے لبادے میں اوڑھنے کی سعی کررہی ہے۔پورے گلگت بلتستان کے ذرائع ابلاغ آج اپنی پوری قوت وتوانائی الناصر نامی سوساٸٹی کے حمایت اور انکے حریف کے دشمنی میں صرف کررہی اور نت نئی چیزیں ایجاد وگھڑ کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ لوگ مہمند داد کمپنی سے قدر ے متنفر ہوجائیں کہ کوئی ان سے قریب ہونا اور ان کی بات اور سچاٸی کو دیکھنا سننا بھی پسند نہ کرے۔آج حقاٸق کو تروڑ مروڑ کر اس کمپنی کے خلاف کی جانے والے اس منفی پروپیگنڈوں کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی تیاری ہورہی ہے۔ اور عوام کے ذہن کو مسموم کرکے اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن اس منفی پروپیگنڈوں ، مکارانہ منصوبوں۔ اور دروغ گوئیوں پر مبنی سرگرمیوں کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ پورے گلگت بلتستان میں بڑے بڑے محققین ، انصاف پسند باشندے، کھلی ذہنیت رکھنے والے اہل علم ودانشور،
خیر وشر کے درمیان امتیاز کرنے کے خواہاں حق کے متلاشی کے دعویدار بھی حقاٸق کو چھپاتے ہوۓ اپنے تیر و ترکش ملک کی مشہور و معروف اور نامور کمپنی مہمند دادا کیطرف موڑنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔جبکہ اپنے حمایتی تیر و ترکش ملک کی ایک معمولی اور غیر معروف کمپنی امین ہاشوانی کیطرف کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔مگر اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن نہیں کہ مہمند دادا نامی کمپنی ملک پاکستان کی مشہور و معروف اور منرلز کے شعبے کا ایک مستند حوالہ اور معیاری امور کے انجام دہی کا ایک معتمد نام اور ملکی برانڈ بن چکی ہے جس نے نہ صرف ملک پاکستان کے مختلف صوبوں کے مختلف علاقوں میں اپنے معیاری کام کی انجام دہی کرتے ہوۓ ایمانداری اور سچاٸی کی کھلی علامت بن کر بین الاقوامی سطح پر ملک پاکستان کی پروڈکٹ متعارف کرانے میں بہت جلد کامیاب ہوچکی ہے
یہاں پر اس نکتے کی وضاحت ضروری ہوگی کہ جب اتنی بڑی کمپنی کو گلگت بلتستان میں کام کرنے سے روکنے والے مہم کے پس پردہ حقاٸق جاننے کی کوشش کی تو اس نتیجے پر پہنچا کہ اصل کہانی مہمند دادا سے نہیں بلکہ اصل مقصد اس الناصر کے مخصوص لوگوں کے ایشو کو عوامی ایشو بناکر پیش کیاجاۓ تاکہ سادہ عوام کی طاقت کا استعمال آسانی سے کرکے اپنی بوسیدہ سیاسی دکان چمکاٸی جاۓ۔ اس دکان کے پرچار کے لٸیے مذہبی کارڈ کے علاوہ کوٸی اور طریقہ واردات کامیاب نہیں ہوسکتا تھا تو الناصر سے جڑے چلے ہوۓ کارتوس اور سیاسی پنڈتوں نے بڑی چالاکی اور انتہاٸی مہارت کے ساتھ مذہبی کھوکھلا نعرہ لگاتے ہوۓ اسکے مقابلے میں الناصر سوساٸیٹی کے مخصوص ممبران پیراشوٹ کے زریعے اپنے مذہبی ہمنوا ہاشوانی نامی کمپنی کے لٸیے راہ ہموار کرنے کے لٸیے لوکل اور نان لوکل کا خودساختہ ایشو کھڑا کرکے گلگت بلتستان کے پرامن ماحول کو سبوتاژ کرنے کا عمل تیز سے تیز کر دیا۔سنجیدہ عوامی اور انتظامی سیاسی اور گلگت بلتستان کے مذہبی طبقوں کا خیال ہیکہ اگر الناصر نامی سوساٸٹی کے ممبران کے ماضی میں کی جانے والی علاقاٸی کارکردگی کو ٹٹولی جاۓ تو قوم پرستی کے نام پر انٹی سٹیٹ سرگرمیوں میں نہ صرف ملوث نظر آٸینگے۔بلکہ انکے سربراہان میں سے۔ح ۔م۔دال نے طویل جلا وطنی اختیار کرنے کے بعد دوبارہ وطن عزیز سے جعلی معافی تلافی کرکے اپنے علاقے میں قدم جمانے کی کوشش بھی کی ہے جبکہ دوسرا بابا کی جان تھانہ جلا کر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد خود کو لیڈر ظاہر کرنے کی کوشش کرکے اپنی مردہ سیاست کو زندہ رکھنے کے لٸیے سخت گرمی میں بھی جبھہ پہن کر کبھی علاقاٸی حقوق کے حصول۔کبھی قومی حقوق۔کبھی آٸینی حقوق کے حصول کے کھوکھلے نعرے کے بعد اب گلگت بلتستان کے شعبہ منرلز کو بلیک میلنگ کرنے متعلقہ سوساٸٹی کے چند ممبران کے کاندھوں پر مذہب کا لیول لگاکر مذہبی صوباٸی مارکیٹ میں متعارف کراتے ہوۓ لوکل اور نان لوکل کا نعرہ لگایا۔جس سے مذہبی فریق مخالف کے زہنوں میں سخت جذبات جنم لینا شروع ہوچکا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہیکہ گلگت بلتستان کے معیشت کو مستحکم کرنے کے لٸیے قدرتی وساٸل سے فاٸدہ اٹھاکر ملکی سرمایہ داروں کو جی بی کیطرف راغب کرنے سے پہلے مہمند دادا کمپنی کو تمام قانونی اور علاقاٸی رسم و رواج کے عین مطابق کام کرنے کی اجازت دی جاۓ تاکہ انہیں دیکھکر دیگر کمپنیوں کا رخ بھی گلگت بلتستان کے طرف ہوجاٸے۔ اور گلگت بلتستان معاشی خوشحالی کے نہج پر چل پڑیگا۔بصورت دیگر اگر یہی روش برقرار رہی تو زمینی حقاٸق کے مطابق۔نہ صرف ملکی سرمایہ دار کمپنیاں اس خطے سے بھاگ جاٸینگی اور سلامتی اداروں کے زمہ داران اور مقتدر حلقوں کی یہی خاموشی برقرار رہی تو قوی امکان ہیکہ مذہبی فریق مخالف کیطرف سےبھی شدید ردعمل دیاجاسکتا ہے ۔جس کا مرکز اور منبع ۔توحید پرستوں کا ضلع۔۔ اسلام کا مظبوط ترین قلعہ دیامر ہوسکتا ہے۔جس سے گلگت بلتستان کا پرامن ماحول بری طرح متاثر ہونے کا واضیح اشارہ دے رہا ہے ۔۔۔۔
(نوٹ۔)۔۔۔الناصر سوساٸٹی ایشو کی اندرونی ۔حقائق پر مبنی اصل تحقیقاتی رپورٹ تفصیل سے بہت جلد منظرعام پر لاٶنگا۔۔۔۔

ہماری یہ عرضی ہے ,باقی آگے تمہاری مرضی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں