گدھوں کی دوڑ میں گھوڑوں کا کیا کام ؟

Spread the love

تحریر: محمد طاہر شہزاد

آج ہمارا ملک ایسے دوراہے پر کھڑا ھے کہ جہاں سے منزل کے راستے کا تعین کرنا بھی انتہائی دشوار نظر آرھا ھے ,
نہ قوم کے اندر اخلاق کا عنصر نظر آتا ھے اور نہ شعور کا ، جبکہ بدقسمتی سے بدزبانی بداخلاقی بدتہذیبی کو شعور کا نام دے کر قوم کو ایک ایسی منزل کی طرف دھکیل دیا گیا ھے جہاں رسوائی اور ناکامیوں کے سوا کچھ نہیں ,
آج وہی محب وطن ھے جو ترانوں اور ڈراموں کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلتا نظر آتا ھے ، بےضمیری بدزبانی بدتہذیبی بدکرداری ھی آج محب وطن ھونے کی علامت ھے ، قرآن میں بھی آیا ھے کہ سب سے بری آواز گدھے کی ھے مگر اس قوم کے شعور کا یہ عالم ھے کہ آج گدھوں کی آوازوں کی مانند شور کرنے والوں کو ہی سروں پر اٹھایا جاتا ھے اور مہذب اور شائستہ دلائل سے لبریز خوبصورت آوازوں کو کمزوری کی علامت جان کر پیروں میں روند دیا جاتا ھے ؟
مگر اس قوم کو اخلاق آداب اور دلائل کاشعور کس نے دیناھے ؟
کیا ان لیڈران نے جو خود اپنے کردار کے آئنے میں اس سے نابلد ہیں ،
یا ان باپ کے رتبے کے برابر مقام رکھنے والے اساتذہ نے جن کے شعور اور کردار کی مثالیں ہم روز شوشل میڈیا ، سڑکوں اور تعلیمی اداروں میں عصمتوں کے لٹیروں اور درندگیوں کی شکل میں دیکھتے چلے آرھے ہیں ؟
یا شائید وفاقی وزیر شہباز گل صاحب بھی انہی استادوں میں سے ایک استاد ہی ہیں جن کی زبان اور کردار کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ؟
یا پھر اخلاق آداب کردار اور دلائل کاشعور ان والدین نے دینا ھے جن کے اپنے کردار شائستہ اور مہذب الفاظ کی خوبصورتی سے محروم ھوں؟
چند سال پہلے میری ایک کالج کے سینئر پروفیسر سے بات ھوئی کالج کی بد انتظامیوں اور طلبہ کے ساتھ اساتذہ کی زیادتیوں اور کلاسسز میں طلبہ کو پڑھانے میں عدم دلچسپی پر تو موصوف پروفیسر صاحب کا صرف ایک جواب سن کر مجھے اپنے کالجز کے گرتے معیار کاجواب مل گیا ؟
ڈیڑھ لاکھ کے قریب سرکاری تنخواہ لینے والے پروفیسر صاحب کا جواب تھا کہ مفت میں پڑھنے والے طلبہ پر ہم اپنا دماغ کیوں کھپائیں ، یہ مفت خورے طلبہ جتنی فیسیں دیتے ہیں ہم اسی حساب سے انہیں اپنا دماغ اور ٹائم دے سکتے ہیں ، اگرمفت میں پڑھنے والے طلبہ کو اپنے مستقبل اور تعلیم کی اتنی ہی فکر ھے اور چاہتے ہیں کہ انہیں توجہ سے اور محنت سے پڑھایا جائے تو جائیں پرائیویٹ کالجز اور سکولوں میں اور دس دس ھزار فیسیں دیں پھر مطالبہ کریں کہ انہیں توجہ اور محنت سے پڑھایا جائے ، میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ بھی مفت پڑھاتے ہیں یا انتہائی معمولی تنخواہوں میں پڑھاتے ہیں ؟ جبکہ آپ تو پرائیویٹ کالجز کے اساتذہ سے کہیں زیادہ تنخواہ لیتے ہیں پھر ایسی سوچ اور کردار کیوں ؟ اس پر خوبصورت جواب دیا گیا کہ ہم وہ تنخواہ گورنمنٹ سے لیتے ہیں ان مفت خور طلبہ سے نہیں ؟
کیا اس ذہنیت کے بعد بھی سوچا جاسکتا ھے کہ ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے اچھی قوم دے سکیں گےکبھی اس ملک کو ؟ جبکہ میرا تو خیال ھے کہ گورنمنٹ کالجز میں میںرٹ پر داخلے کی پالیسی کو ھی ختم کر کے اوپن ایڈمیشن پالیسی بنانی چاہیے ، طلبہ کی رھائش کے قریب ترین کالجز میں ایڈمیشن کی پالیسی کی صورت میں ، آج گورنمنٹ کالجز میں طاقتور اساتذہ اپنی پوسٹنگز بڑے کالجز میں جن کا میرٹ ذیادہ ھونے کی وجہ سے مڈل اور لوئر کلاس صرف ذہین طلبہ ھی آتے ہیں میرٹ ذیادہ ھائی بنانے کی وجہ سے ، ایسے کالجز میں نااہل اور محنت سے نظریں چرانے والے اساتذہ اپنی پوسٹنگز کروا کر اپنی محنت سے پڑھانے کی دردسری سے جان چھڑوا لیتے ہیں ، جبکہ ذہین طلبہ اپنی محنت اور لگن سے اچھے نمبرز حاصل کر لیتے ہیں اور ان پہلے سے ذہین اور محنتی طلبہ کی ذاتی محنت کا کریڈٹ کالج لیتے نظر آتے ھیں ،
کیا ہمیں اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے اساتذہ کو بھی اخلاق کردار تہذیب اور محنت کے معیار کی کسوٹی میں نہیں پرکھنا چاہیے ؟
آج ہماری عدلیہ عدلوانصاف کے قتل عام میں پوری دنیا میں پہلے چند نمبروں پر آتی ھے اور یہی قوم عدل کے قلعوں میں بیٹھے عدلو انصاف کے انہی قاتلوں کے اپنی پسندو ناپسند کے فیصلوں پر دھمال ڈالتی نظر آتی ھے ؟
جس قوم کا معیار انصاف سے ذیادہ پسند و ناپسند ھو اس قوم کو تباھی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا ؟ آج انہی عدلوانصاف کے قاتلوں کی عزت کا معیار انصاف اور کردار کے اصولوں پر نہیں بلکہ توہین عدالت کے قانون کی طاقت پر متعین ھوتاھے ؟
کاش ہمارے قاضی اپنے کردار انصاف اور عدل سے اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرتے بھی نظر آتے ؟ مگرکاش؟
عدل کے اسی نظام کے بگاڑ نے آج کرپٹ بےضمیر بدکردار بدزبان بداخلاق اور ظالم و جابر عناصر کو طاقت بخشی ھے ، کہیں سے آواز آتی ھے کہ کرپشن اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی ھے تو کہیں سے آواز آتی ھے کہ جاگیری نظام تو کہیں سے تعلیمی نظام کےبگاڑ کی تو کہیں سے سیاسی کردار تو کہیں سے اسٹیبلشمنٹ اور ھائبرڈ وار تو کہیں سے کچھ آوازیں آتی ہیں اس ملک کی تباھی کےذمے داروں کی فہرست میں ، مگر کیا ان سب آوازوں کا محور عدلو انصاف کے ستون ھی نہیں؟
آج عدل کے سٹیج کو عدلوانصاف کےخوبصورت گلدستوں سےسجانےکی بجائے رقص وسرور کی محفلوں کو اسٹیج کی زینت بنادیاگیاھےاور اس قوم کےشعور اور کردار کی گراوٹ کا معیار اتنا بلند ھوگیاھے کہ ھر دو صورتوں میں کوئی نہ کوئی ان رقص وسرور کی محفلیں سجانےوالوں کے دلفریب رقص پر تالیاں بجاتانظر آتا ہیں ؟
کاش ڈفلی بجانے والے اور رقص و سرور کی محفلیں سجانے والے یہ بھی سوچیں کہ اس ملک کی معیشت انہی رقص وسرور کی محفلوں اور مجروں کی بھینٹ چڑھ گئی ھے ، آج انہی رقص و سرور کی محفلوں میں کیے گئے مجروں کی قیمت ایک غریب ماں اپنے بچوں کو اپنے ھاتھوں مار کر ادا کر رھی ھے ، ایک بے بس و لاچار مفلس باپ اپنے بچوں کوبھوک سے ٹڑپ تڑپ کر مرتے نہیں دیکھ سکتا اسی لیے مفلسی لاچاری و بے بسی میں اپنے ھی لخت جگر کو ندی میں پھینکنے پر مجبور نظر آتا ھے ،
نبی پاک اور خلفائےراشدین کے ادوار میں تو ملک کی بقاء اور ترقی کا معیار عدلوانصاف کو سمجھا جاتا تھا مگر افسوس آج ترقی کا معیار خوبصورت تقریروں اور عدل کے سٹیج پر سجے مجروں کو تصور کیاجاتا ھے ،
میرے خیال میں پاکستان کی تباھی کی بنیاد 1948 میں ھی رکھ دی گئی تھی جب ہم نے اپنی ائیرفورس کے بھارتی اور برطانوی فائٹرز کو رپلیس کرنے کے لیے یہودی فائٹرز کو اپنے ملک کی حفاظت پر معمور جوانوں کی ٹریننگ پر معمور کیا تھا ؟
ہم بھارت اور برطانیہ کی غلامی سے تو بظاھر نکل گئے مگر اپنے مستقبل کے سپاہ سالاروں کی ذہنی تربیت یہودی ٹرینرز کے ھاتھوں میں دے کر ہمیشہ کے لیے اپنے سپاہ سالاروں کو یہودیوں کا ذہنی غلام بنا دیا ؟ صرف 32 فائٹرز ٹرینرز کی چھوٹی سی غلطی نے آج اس قوم کو ان سپر پاور طاقتوں کا ہمیشہ کے لیے غلام بنا دیا ، کاش ہم اپنے ملک کی بنیادوں میں پہلی اینٹ کے چناؤ میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے ؟
آج ہماری عسکری سوچ بھی انہی سپر پاورز کی مرحون منت ھے تو ہماری قوم کی سیاست بھی ، اور سونے پے سہاگہ سب اطراف سے ھائبرڈوار نے قوم کی رہی سہی شخصیت کو بھی تباہ و برباد کر دیا ؟
ملک تباہ ھو جائیں تو دیانتداری محنت اور لگن سے چند سالوں میں پہلےسے ذیادہ خوبصورت اور طاقتور ملک کی بنیادیں رکھی جاسکتی ہیں ، مگر افسوس جس قوم کی شخصیت کردار زبان اور اخلاق کو تباہ کر دیا جائے تو ایسی قوموں کو دوبارہ بنانے کے لیے کئی نسلیں درکار ھوتی ہیں ؟
افسوس جہاں اس ھائبرڈ وار کے ذریعے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے قوم کی شخصیت کردار زبان اور اخلاق کو تباہ و برباد کیا وہیں پر ہمارے سیاسی دیوتاؤں یا خودکار بنائے گئے خداؤں نے بھی اس ھابرڈ وار سے قوم کی اخلاقی ذہنی اور کردار کی گراوٹ میں اہم رول ادا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ؟
آج سوشل میڈیا پر دیکھ لیں ھر طرف سجے مندر نظر آتے ہیں ، جہاں ھزاروں کی تعداد میں پجاری بیٹھے اپنےاپنے بنائے گئے خداؤں یا دیوتاؤں کی حمدوثناء بیان کرتے نظر آتے ہیں ، آج ہم اخلاقیات اور کردار کی اتنی پستیوں میں گر چکے ہیں کہ ہم اپنےاپنے خداؤں کی حمدوثناء میں اپنے حقیقی رب اور اس کے احکامات کو بھی رد کرتے نظر آتے ہیں آپنے آپنے بنائے گئے خداؤں کی پوجا اور پرستش میں ,
آج دین مذھب انسانیت کردار اخلاق سب پیچھے رھ گیا ھے اور ہمارے اپنے اپنے بنائے گئے خداؤں کے احکامات نے ہمارے دلوں اور ذہنوں میں بلند مقام حاصل کر لیا ھے ،
آج ہم اخلاقیات میں اتنی پستیوں میں گر چکے ہیں کہ ہمارے ذہنوں پر بغض اور نفرت کے غبار نے غلبہ پا لیا ھے ،
بغض اور نفرت میں ہم نے اپنے اندر کی انسانیت کو بھی مار ڈالا ھے ،
اخلاق اور کردار کی گراوٹ اور دین کی کم علمی اور اپنے رب کے احکامات سے ناواقف قوم کہیں سڑکوں پر جتھوں کی صورت میں مذہب کے نام پر بےقصور انسانوں کو ذندہ جلاتی نظر آتی ھے تو کہیں مذھب کے نام پر اپنے ملک اپنی قوم اپنے مذھب اپنے کردار کو ھی بدنام کرتے نظر آتے ہیں ، نبی پاک کی سیرت اور نام پر قربان ھونے والے ھی آج نبی پاک کے احکامات اور سیرت سے نا آشنا نظر آتے ہیں ،
کاش ہم جتنی محبت صرف دنیا کو دکھانے کے لیے یا اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنے کے لیے اپنے نبی پاک سے کرتے ہیں اتنی ھی محبت ہم اپنے نبی کے احکامات سے بھی کرتے ؟
مگر افسوس ہمیں تو صرف اپنے آپ کو سچا مسلمان ثابت کرنا ھے دنیا کی نظر میں ، اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانا نہیں ؟
آج انسانیت مذہب کارڈ ، عورت کارڈ ، لسانیت کارڈ۔ مظلومیت کارڈ کی صورت میں سڑکوں بازاروں میں بکتی تو نظر آتی ھے مگر افسوس ہمارے اپنے کرداروں میں یہی انسانیت نظر نہیں آتی ،
آج ایک عورت اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلی نعرے لگاتی تو نظر آتی ھے مگر اپنے ھی کردار کے آئنے میں جہاں اپنے لیے عزت قدر مقام محبت مانگتی نظر آتی ھے وہیں اپنی ساس ، اپنی بہو ، اپنی نند کے حقوق عزت اور کردار کو اپنے ھی پاؤں میں روندتی نظر آتی ھے ،
آج وہی عورت اسی مرد سے اپنے حقوق مانگتی نظر آتی ھے جس نے خود اسی مرد کی پرورش کی ؟
کاش آج کی عورت اپنی پرورش میں کل ھی خودغرضی کے عنصر کی ملاوٹ نہ کرتی ،
کل جس چھوٹے سے بچے کی پرورش کرتے وقت ایک عورت کی بیوی تھی تو اسی وقت اسی گھر میں ایک ماں ایک نند ایک بیٹی بھی موجود تھی جس کا عکس مرد کے شعور کا حصہ بن کر پختگی کی منزلیں طے کرتا ھوا درندگی کی صورت میں اسی عورت کے سامنے آتا ھے ،
مگر شائید عورت خود بھی بھول جاتی ھے کہ اگر وہ کسی کی بیوی ھے تو اسی وقت وہ کسی کی ماں بھی ھے ، کسی کی بیٹی بھی ھے ، کسی کی نند بھی ھے ، کسی کی دیورانی بھی ھے مگر افسوس اگر عورت ان سب رشتوں کو اپنے اندر تلاش کرلے تو شائید کبھی کسی عورت کو کسی مرد سے اپنے حقوق مانگنے نہیں پڑینگے . مگر کاش ؟
شائید ہمیں آج انسانیت کو سب سے پہلے اپنے اندر تلاش کرنے کی ضرورت ھے ،
انسانیت اور انسانوں کی قدروقیمت کا اندازہ آج لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد سے لگایا جاسکتا ھے ، بلوچستان سے شروع ھونے والی اس انسانیت سوز تیز اور گرم ہواؤں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ھے ،
جس تیزی سے یہ آندھی چل رہی ھے لگتا ھے ہمارے پیارے ملک کو تباہ و برباد کرنے کے بعد ہی تھم سکے گی ؟
کرداروں کی اصلاح محرومیوں اور ظلم وجبر کا ازالہ کرکے بھی ہم بہت اچھے نتائج حاصل کر سکتے تھے مگر شائید ہمیں جلدی اتنی ھوتی ھے ھر کام کرنے میں کہ آندھی کی تپش اور رفتار کو تیز کر کے صبح سے پہلے محرومیوں اور ظلم و ستم کی چکی میں پسی قوم کو اپنے پیروں میں جھکتا دیکھنا چاہتے ہیں ، کاش ہم اپنوں کو جھکانے کے لیے طاقت کی بجائے ظلم وجبر اور انکی محرومیوں کا ازالہ کر کے ان مظلوم و بےبس قوم کے دلوں کو جیتنے کی بھی کوشش کرتے ؟
ایک وقت تھا جب لیاری کو بلوچی تحریک سے
دور رکھنے کے لیے منشیات کا گڑھ بنایا گیا اور پھر ایک وقت آیا جب اسی لیاری پر اربوں روپیہ خرچ کر کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف کھیلوں اور تفریح کے پلیٹ فارم مہیا کیےگئے ۔ لیاری کے تجربے سے ہی ہماری حکومتوں کو سیکھنا چاہیے جبکہ لیاری میں ھر ٹیلنٹ کو نکھارنے کی سہولت دروازے تک پہنچائی گئی ھو تو کیسے ممکن نہیں بلوچستان کی نئی نسل کو مثبت ایکٹیوٹیز کی طرف راغب کر کے ان کی ذہنیت اور سوچ کے انداز کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ؟
مگر افسوس ہم ھائبرڈ وار کے لیے تو کھربوں روپے لگا سکتے ہیں مگر پارکس اور کھیلوں کی سہولیات اور عدلوانصاف کو ھر علاقے تک پہچانے سے عاری کیوں ؟ محرومیاں لیاری والوں کی بھی تھیں مگر جب ذہنوں کو بدلنے کی ضرورت محسوس ھو تو محرومیوں کا ازالہ کر کے بھی ذہن بدلے جاسکتے ہیں، مگرکاش ؟
ہم نے آج معاشرے سے شعور چھین لیا ھے اور شعور کی جگہ بداخلاقی بدتہذیبی بدزبانی کو شعور کا نام دے کر قوم کو گمراہ کیا جارھاھے ۔ ہمارے بزرگوں میں شعور تھا ، بات کرنے سننے اور سمجھنے کا شعور تھا مگر آج ھائبرڈ وار نے اس قوم سے اخلاق کردار صبر وتحمل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین کر قوم کو بدتہذیبی بداخلاقی بدزبانی کے راستے کیطرف گامزن کر کے شعور کے ڈھول پیٹنے شروع کر دئیے ہیں ؟
آج ہمارے سپاہ سالاروں نے قوم کو گانوں ترانوں اور ڈراموں کے پیچھے لگا کر اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑانے کا بہترین راستہ تلاش کر لیا ھے ، قوم گانوں ترانوں اور ڈراموں کے بیچھے لگ کر تالیاں بجاتے بجاتے یہ بھی بھول گئی کہ ان گانوں ترانوں کی قیمت میں ہمارے ملک کا بچہ بچہ دو لاکھ سے زیادہ کا مقروض ھو چکا ھے ، جبکہ آج ہماری معیشت اس قابل بھی نہیں رہی کے اب مزید ان گانوں ترانوں کا بوجھ مستقبل کی نسلوں پر ڈال سکے ، شائید اب ہمیں گانوں اور ترانوں سے باھر نکل کر اب اپنے پیارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سوچنا ھوگا ، کہیں ایسا نہ ھو کہ انہی گانوں ترانوں کے بوجھ تلے دب کر یہ قوم تاریخ کاحصہ ھی نہ بن جائے اور آنے والی نسلیں بھی کبھی ہمیں معاف نہ کریں ؟
آج ہمیں اس معاشرے اس قوم کو سمت دینے کے ضرورت ھے مگر شائید سب راستے دھول سے اٹے ھوے ہیں ، مٹی اور دھول میں آٹے ماحول میں راستے تلاش کرنا بہت مشکل ھے جب تک دھول نہیں چھٹتی منزل کی سمت کا تعین کرنا بہت مشکل ھے ، اور دھول ان گدھوں کی وجہ سے بہت زیادہ ھو گئی ھے جنہیں ہم نے گھوڑوں کے متبادل کے طور پر اپنے ملک کی ترقی کے راستوں پر دوڑانے کی کوشش کی ھے ،
فاطمہ جناح اور لیاقت علی خان ڈاکٹر عبدلقدیرخان جیسے ہم نے تمام تیز دوڑتے گھوڑوں کو اپنے ملک کی ترقی کی دوڑ سے باھر نکال کر اس دوڑ میں گدھوں کو چھوڑ کر اپنے ملک کے خوبصورت زرخیز سونا اور معدنیات اگلتے میدانوں کو مٹی اور دھول سے بھر دیا ھے ، آج ہر طرف انہی بے ہنگم دوڑتے لوٹ پوٹ ھوتے بےڈھنگی تیز آوازوں میں شور کرتے گدھوں کی بدولت ھر طرف دھول ھی دھول نظر آتی ھے ، اور ھر طرف صرف گدھوں کا بےہنگم شور ھی سنائی دیتا ھے ،
آج ھر طرف خوبصورت اور قدیمی نسلوں کے گدھے دھول اڑاتے دوڑتے اور لوٹ پوٹ ھوتے ڈھینچوں ڈھینچوں کی بد نما تیز آواز میں شور مچاتے تو نظر آتے ہیں مگر افسوس آج ہمیں اس ملک کی ترقی کے میدانوں میں چاک و چوبند آعلی نسلوں کے گھوڑے دوڑتے نظر نہیں آتے ،
کاش ہمارے ملک کے خوبصورت میدانوں میں عدلوانصاف اور کردار کی دوڑ میں کہیں گھوڑے بھی نظر آتے مگرکاش ؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں