تحریر(خانزادہ یونس خلجی)
میں لکھنا چاہتا ہوں مگر لکھنے کو جی نہیں چاہ رہا، میں کہنا چاہتا ہوں لیکن کہنے کوبہت کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں، یہ میری زندگی کی دوسری تحریر ہے جس کے ذریعے میں اپنے احساسات رقم کرنا چاہتا ہوں مگر سمجھ نہیں پا رہا کہ ابتدا کہاں سے کروں، میں مایوس بلکل بھی نہیں لیکن اداس ہوں کیونکہ ایک سوال نے مجھے پریشان کیا ہے، سوال یہ کہ آخر پاکستان کا خیر خواہ کون ہے؟ اپنا یہ جواب پانے کیلئے میں کافی عرصہ سے مسلسل کتاب بینی کررہا ہوں، اخبارات و رسائل پڑھتا ہوں، مختلف ٹیلی وژن چینلز دیکھ رہا ہوں، دانشوروں اور سیاست دانوں کو سن رہا ہوں، ہرایک خود کو پاکستان کا خیرخواہ بتاتا ہے، سب کہتے ہیں کہ ہمارا ہر کام پاکستان کے لئے ہے مگر میری ڈور سلجھنے کی بجائے مزید الجھے جا رہی ہے کیونکہ میرا مطالعہ، مشاہدہ، سمع و بصر حقیقت کے ساتھ الجھ رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ اگر میں صرف آج کے دن کی سچائی بیان کروں تو سماں کچھ یوں ہے کہ مسند اقتدار پر براجمان جماعت کا کہنا (بھی) یہی ہے کہ ان کا سب کچھ پاکستا ن کیلئے ہے جبکہ حقیقت اس کے یوں بر خلاف ہے کہ ان کی کابینہ کے کئی لوگ دوسرے ملکوں کی وفاداری کے حلف بردار ہیں وزیر اعظم صاحب کے صاحبزادگان بھی برطانیہ عظمیٰ کے شہری ہیں یا شاید ارکان کابینہ کی طرح دوہرے شہری، ملکی تاریخ کی بدترین مہنگائی، روپے کی بے قدری، بے روزگاری، بدترین ناکام خارجہ و داخلہ پالیسیاں، عوام کی بدحالی، کسمپرسی، انارکی اسی جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد واقع ہوئی ہے اور تو اور ان کے ہاتھوں پاکستان کی سیاست و معاشرت جس اخلاقی گراوٹ اور بد زبانی کا شکار ہوئی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی، کرپشن کی بات کی جائے اس حکومت ہی میں آئے روز بڑے بڑے میگااسکینڈلزسامنے آ رہے ہیں (جن کو دبا لیا جاتا ہے اس کا حساب ہی نہیں)یہی آج ہی کے مسند نشین کبھی آٹا کبھی چینی کبھی پیٹرول کبھی کھادتوکبھی جان بچانے والی ا دویات میں غبن کر کے عوام کی جیبوں پر اربوں اربوں کے ڈاکے ڈالتے رہتے ہیں، یہ تو خیرخواہ نہیں کاذب ہیں۔
اگر گذشتہ کل کے منظر نامہ پر نظر دوڑائیں تووہ پارٹیاں اور خاندان جو کئی کئی دفعہ برسہا برس تک برسر اقتدار رہے ہیں اور جن کا عین یہی کہنا تھا کہ ”وہ ہر کام پاکستان کی بہتری کیلئے کرتے ہیں ” مگر ان کی بدعنوانیوں، اخلاقی گراوٹ، جرائم کی سرپرستی، مکاری و موقع پرستی کی داستانیں سن کر شیطان بھی الامان ولحفیظ کہہ اٹھے دوسری جانب اگر ان کے پاکستان کو پہنچائے گئے نقصان کو دیکھا جائے تو دل کٹ کٹ جاتا ہے۔ ان کے دولت میں بے تحاشہ اضافہ اور عیاشیوں پر نظر پڑے تو پاک وطن کے عام آدمی کا (جس کے ووٹ کا غلط استعمال کر کے انہوں نے یہ سب کیا)احساس پارہ پارہ ہو جائے۔ یہ بھی خیرخواہ نہیں کاذب ہیں۔
یہاں قول و فعل کا تضاد دیکھ کر جلنے کڑھنے کے بعد سیاستدانوں کے علاوہ دیکھتا ہوں میں کھلاڑیوں کے پاس گیا ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ”پاکستان کے لئے کھیلنا ہمارا فخر ہے ”مگر ان میں بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا چلن موجود پایا، کچھ سالوں قبل ٹی 20کے ورلڈ کپ میں گروپنگ کی باتیں عام ہوئیں تھیں ان میں سے بھی کچھ کی آنکھیں دولت کو دیکھ کر چمک اٹھتی ہیں کبھی میچ فکس کرنے کا الزام سنائی دیتا ہے اور کبھی سٹے بازی کی تہمت لگتی ہے کیا ایسے کھلاڑی پاکستان کے خیرخواہ ہیں، میرے مطابق تو نہیں۔
فنکاروں کی ٹولی پہ نظر دوڑائی تو ان سے بھی یہی سناکہ ”ہمارے لئے پاکستان سے بڑھ کر کچھ نہیں ”لیکن من کی شہرت اور دولت کی آرزو میں دشمن ملک جانے تک کیلئے ترستے ہوئے دیکھا کیا ایسے فنکار پاکستان کے خیرخواہ ہیں، جواب وہی نفی میں۔
کچھ سانحات یاد آئے کہ بسوں سے معصوم لوگوں کو اتا ر کر شہید کیا گیا، قصو ر میں بد فعلی کا شکارہونے اولے درجنوں بچے، کراچی کی بلد یہ فیکٹر ی میں زند ہ آگ سے جل جانے والے سینکڑوں لوگ، اے پی ا یس پشاور کے معصو م شہید، باچا خان یو نیورسٹی میں مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہونے والا نو جوان طالب علم، جعفر آباد میں 10سالہ بچہ جو زیادتی کے بعد قتل ہوا اسی طرح کے لاتعدادبچے اور بچیا ں جو درندگی اور ظلم کا شکار ہوئے، مردان میں نادر ا کے دفتر پر اپنے خان کے لئے قربانی دینے والا گا رڈ پرویز خان، مسلم باغ میں مافیا کا شکار ہوکر داخلہ نہ ملنے پر ایک طالبہ ثاقبہ کاکڑ کی خودکشی، سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تعلیم یافتہ و غیر تعلیم یافتہ نوجوان جو قانونی و غیر قانونی طریقوں سے رزق کی تلاش میں ملک چھوڑ کے جاتے ہیں جن میں سے کچھ راستے میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کچھ قید ہو جاتے ہیں کچھ سالوں تک ذلیل ہو کے واپس آجاتے ہیں جنہیں ان کی ماؤں نے نوجوان بھیجا ہوتا ہے واپسی پران کومیکسم گورکی کے ناول کے کردار کی طرح وقت سے پہلے بوڑھا پاتیں ہیں، یہ سب جو کر رہے ہیں جن کی وجہ سے پاک وطن اور اس کے باسیوں کو ان اذیتوں کا سامنا ہے کیا یہ پاکستان کے خیرخواہ ہیں، یقینا جواب نفی ہے اور یہ سب کرنے والے دشمن ہیں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ اور بھی ہیں خدا کے کچھ اور بندے بھی ہیں اس دھرتی کے کچھ بچے اور بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا سب کچھ پاکستان ہے اور وہ اپنے قول میں صادق ہیں جیسے ایک عبدالستار ایدھی نا م کا بوڑھا ہوا کرتا تھا جس نے ہزاروں لاوارثوں کو اپنا نام دیا، ہزاروں کا کفن دفن کیا، لاکھوں کو کھانا اور چھت مہیا کی مستقبل سنوارا اور دنیا کی سب سے بڑی ایبولینس سروس چلا دی۔ایک تنہا لڑکی ملالہ یوسفزئی جو انتہا پسندی کے خلاف اور تعلیم کے فروغ کیلئے برسرپیکار ہے اور متمدن دنیا کا سب سے بڑا انعام (نوبل) پایا یہی انعام علم کی دنیا میں حاصل کر کے ڈاکٹر عبدالسلام نے پاک پرچم بلند کیا۔عرفہ کریم نے مائیکروسافٹ سرٹیفیکیشن کر کے، علی معین نوازش نے اے لیول کے امتحان میں 22 (A)حاصل کر کے، موسیٰ فیروزنے ریاضی کا عالمی مقابلہ جیت کے وطن کے وقار کو بلند کیا۔وہ ہزاروں مزدور جو دنیا کو اس کی ضرورت کی پچاس فیصد فٹبال ہاتھوں سے سی کر دیتے اور ملک کی معیشت کو اپنے ناتواں کندھوں پر سہارے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر عمر سیف دنیا کے ٹاپ 35موجدین میں سے ایک، امن اور انصاف کا عالمی ایواڈ اپنے نام کرنے والے کرامت علی، ڈاکٹر امجد ثاقب جو دنیا کی سب سے بڑے بلاسود چھوٹے قرض کی ا سکیم چلا کر وطن عزیز کی خدمت کر رہے ہیں، ڈاکٹر رئیس مشتاق جو انڈس ہسپتال بنا اور چلا رہے ہیں جو بڑے سے بڑا علاج بھی بلکل مفت کرتے ہیں اسی طرح درجنوں مخیر ادارے، تعلیمی ادارے، رفاہی و فلاحی ادارے ہیں جو اس دھرتی کے بچے چلا رہے ہیں اسی طرح ہزاروں بے لوث اساتذہ جو معمولی گزران کے عوض علم کی شمعیں روشن کر کے ملک کی بنیادیں بنارہے ہیں یہ لوگ نہ صرف مادروطن کا نام روشن کر رہے ہیں بلکہ اپنے ناتواں عوام کی خدمت بھی کر رہے ہیں، یہ ہیں خیرخواہ پاکستان کے، یہ ہیں اس دھرتی کے بچے۔
دعوے بے شمار کرتے ہیں کام چند کرتے ہیں، نامور ہر ایک خود کو گردانتا ہے مگر سچی خدمت کے سہرے جن سروں پر سجے ہیں وہ سربلند ہیں انہیں دنیا انعام و اکرام اور داد تحسین سے نوازتی ہے۔
آئیے عہد کریں کہ ہم نے اپنی سر زمین اپنے پاک وطن اپنے لوگوں کی سچے دل اور جواں ہمت و حوصلے کے ساتھ حقیقی و سچی خدمت کر کے اس مٹی کا خیرخواہ بننا ہے، خیر سے خیر پھیلے گا اور ہمارا وطن پھلے گا ہماری مائیں بہنیں بچے بوڑھے اور جوان سرفراز ہوکر نامور ہوں گے اور دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے۔آج مرحوم احمد فراز کی اس بات پر اتفاق کر ہی لیتے ہی کہ؛
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے