سیاسی اشرافیہ اور عمران خان کی رسہ کشی

Spread the love

چوہدری زاہد حیات
1988 میں پلیز پارٹی مقبولیت کی بلندیوں پر تھی اور واضح نظر آرہا تھا کہ پیپلز پارٹی شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں میدان مارنے کا رہی ہے تو
پیپلزپارٹی کو ٹکر دینے اور اس کی برتری کم کرنے کے لیے کیلئے 1988 میں IJI مختلف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد وجود میں ایا. جو بعد میں مسلم لیگ ن میں بدل گئی اور قومی سیاست کا حصہ بنی. دونوں جماعتوں کو 2-2 مرتبہ آزمایا گیا. دونوں جماعتیں دو بار بر سر اقتدار آئیں لیکن دونوں کا کام ملکی ترقی کی بجاے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا تھا اور کچھ۔ خاص ڈلیور کرنے میں ناکام رہیں ن لیگ پھر بھی کچھ نا کچھ کارکردگی دکھاتی رہی لیکن پیپلز پارٹی کارکردگی کے لحاظ سے کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں کامیاب نا ہو سکی. 2002 میں تیسری سیاسی قوت ق لیگ کے نام سے لائی گئی‏ تاکہ ان دونوں پارٹیوں کی سیاسی اجارہ داری توڑی جا سکے جسے دونوں پارٹیوں نے 2008 میں میثاق جمہوریت کرکے ناکام بنادیا اور ق لیگ ایک اقلیتی پارٹی میں بدل گئی. اور بکھرنے لگی اور سیاسی محاذ پر اس کا کردار محدود ہو گیا اس پر دونوں پارٹیوں نے پھر فرینڈلی میچ شروع کردیا. اور بظاہر ایک دوسرے کی سیاسی کرے لیتے نظر آئیں میاں صاحبان اور زرداری صاحبان نے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی لیکن پھر 2013 میں غیر روایتی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو حوصلہ دیا گیا تحریک انصاف کی سیاسی میدان میں انٹری بھرپور تھی تحریک انصاف کی سیاسی قوت واضح اشارے دے رہی تھی کہ وہ فرینڈلی اپوزیشن میچ کو بھر پور ٹکر دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے 2018 کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف ان دونوں بڑی جماعتوں کو شکست دے کر فاتح بنی تحریک انصاف کی نئی طرز سیاست اور بیانیہ عوام میں مقبول ہوگیا اور تحریک انصاف کے سربراہ پورے ملک میں ووٹ بنک رکھنے والے واحد لیڈر کے طور پر سامنے ائے. اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہرکوئی روائتی سیاست سے نکلنا چاہتا تھا. پیپلزپارٹی اور ن لیگ 2 صوبوں تک محدود ہوگئیں. تو دونوں جماعتوں کی قیادت نے طے کیا کہ الگ الگ اب تحریک انصاف کا مقابلہ اب ممکن نہیں اس لیے 2008 والی حکمت عملی چوبارہ اپنانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ تحریک انصاف کو بھی ق لیگ کی طرح ‏اقلیتی پارٹی بنادیا جاے اور اس کو ناکام بنا دیا جائے. جس پر پوری قوت اور پرآنے تجربے سے عمل شروع ہوا. بظاہر کامیابی حاصل ہوئی لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں عوام نے سب کو پہچان لیا کہ کون کون پاکستان کو 21ویں صدی میں بھی ایک ناکام ریاست کے طور پر چلانا چاہتے ہیں. چناچہ تحریک انصاف جو تقریباً اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ‏ناکام ہوچکی تھی. محض اس لئے دوبارہ مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ گئی کہ انکی جگہ آنیوالےکو عوام کئی بار آزما چکی تھی عمران خان کی شخصیت کا سحر ٹوٹ نہیں سکا تھا . ایک بار پھر تیسری پارٹی کا پتہ صاف کرنے کے لیے یہ دونوں بڑی جماعتیں اکٹھے تو ہوگئیں. لیکن اس کا ردعمل عوام میں شدید آیا عوامی حلقوں میں یہ بات تیزی سے گردشِ کر رہی ہے کہ دونوں پارٹیوں کا انجیڈا واضح ہے کہ وہ کسی ایسی سیاسی قوت کو برداشت نہیں کریں گی جو ان کے مفادات کے لیے خطرہ ہو یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت دو بڑے خاندانوں کے پاس ہے اور نسل در نسل چل رہی ہے تحریک انصاف کی سیاست روایتی سیاست کے ساتھ ساتھ مورثی اور خاندانی سیاست کے لیے بھی خطرہ ہے اس لیے اس جماعت کو ناکام کرنا پاکستان کی پرانی سیاسی جماعتوں اور سیاسی خاندانوں کا انجیڈا ہو سکتا ہے اب تحریک انصاف اپوزیشن میں ہے . اور عوامی واضح طور تیسری پارٹی کی حمایت میں نظر آتی ہے. اس لئے دونوں پارٹیوں کے پاس ملکر الیکشن لڑنے کا آپشن ہی باقی بچا ہے. تحریک انصاف کو سائیڈ لائن کرنیکی کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں اتی یہ واضح ہے. عمران خان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ملک کے نوجوان طبقے میں ان کا بیانہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور یہی نوجوان تحریک انصاف کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بن رہے ہیں عمران خان کی سیاسی طرزِ عمل پر بات کی جا سکتی ہے لیکن ان کے خلاف پاکستان بھر کی اشرافیہ کا متحد ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں