تحریر : سلمیٰ عروج بنت حسین آزاد
مصنف کون ہوتے ہیں۔
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے “قسم ہے قلم کی اور اسکی جسے لکھتے ہیں “سوره القلم۔
مصنف وہ ہوتے ہیں جن کے پاس وہ عظیم طاقت ہوتی ہے جسکی قسم اللّه نے اٹھائی یعنی قلم کی طاقت ۔مصنف اپنی سوچ ،جذبات اور احساسات کے رنگوں کو صفحہ قرطاس کے کینوس پہ بکھیرتے ہیں۔لفظوں کے یہ موتی لوگوں کے ذہنوں پہ اثر انداز ہو کے لوگوں کے دلوں کو بدلتے ہیں،ان کے افکار کو رنگتے ہیں ۔قلم کی طاقت سے قدرت ہر ایک کو نوازا نہیں کرتی۔بہت خاص لوگوں کو یہ وصف عطاء ہوتا ہے۔اس وصف سے متصف لوگوں کو لکھاری یا مصنف کہا جاتا ہے۔اللّه کی ہر نعمت ایک امانت ہے سو لکھنے کی امانت جسکو عطاء ہوئی اس نے اس طاقت کو سب سے پہلے اپنے رب کی عظمت ،بھٹکی مخلوق کو خالق حقیقی سے ربط جوڑنے کے لیے استعمال کرناہے ۔ہر لکھاری اپنے قلم کی طاقت چاہتا ہے اور یہ طاقت تبھی نصیب ہوتی ہے جب طاقت ور کے لیے کام کیا جاتا ہے ۔ایک عقل مند مصنف ہمیشہ بڑے اور ہمیشہ رہنے والےمقصد کا انتخاب کرتا ہےوہ کبھی بھی تلوار سے سبزی نہیں کاٹتا بلکہ باطل کا سر کاٹتا ہے ۔لکھنے والے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے لکھے روشن چمکتے الفاظ کی روشنی اور نور صدیوں تک لوگوں کی زندگیوں کو منور کرتے ہیں ۔انسان مر جاتے ہیں الفاظ سدا زندہ رہتے ہیں۔اچھے مصنف سچائی اختیار کرتے ہیں اپنے عمل میں اپنے لفظوں میں وہ یکساں ہوتے ہیں۔اللّه کی راہ میں یہ باطل سے نہیں ڈرتے اللّه کے سپاہی اللّه سے حوصلہ پاتے ہیں۔قلم ایک ہتھیار ہے اس ہتھیار کا حق استعمال کر کے لوگوں کی اصلاح کرتے ہیں انہیں گمراہی سے بچاتے ہیں۔معاشرے کی اصلاح یا فساد میں لکھاری کا کردار بہت اہم ہے۔ہم نے اکثر دیکھا ہے کچھ لکھاری لفظوں کی تاریکی سے لوگوں کے دلوں کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں نسلوں کی گمراہی مقدرکر دیتے ہیں ان کا قلم سراسر گمراہی ہے اور کچھ کا قلم حق کے لیے چلتا ہے نور ہے روشنی ہے نسلوں تک اس کی روشنی رہتی ہے وہ قلم ضیاء پاتا ہے ۔ اللّه سب لکھنے والوں کو قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔انکو حق لکھنے،سننے اور سمجھنے والا بنا دے۔امین یارب العالمین ۔لفظ بخشش ہیں ،عطا ہیں، لفظ وہ خزانہ ہیں جو ہمیں اللہ کی علم میں سے عطا ہوتے ہیں ،یہ وہ بارش ہے جو آسمانوں سے برستی ہے اور ہمارے دل کی بے آب و گیاہ سر زمین کو سیراب کرتی ہے ،کچھ لوگ سمجھتے ہیں لفظ ہماری ذاتی تخلیق ہیں لفظ ذاتی تخلیق کبھی نہیں ہوا کرتے ،یہ عطا ہوتے ہیں ان کے سوتے اللہ کے علم سے پھوٹتے ہیں،یہ شاخیں ہیں جن کی جڑ آ سمان میں ہے،یہ رنگ ہیں جوآپ کے بے رنگ وجود کو آگہی سے رنگتے ہیں ،یہ امانت ہیں جس کے ذریعے انسانوں کے بھٹکے ہوئے ریوڑ کو اس کے مالک سے ملانا ہے ،لفظ جوآپ پہ الہام کی طرح اترتے ہیں ،لفظوں سے پہلے خود کو تراشنا ہے پھر اس امانت کو پوری دیانت داری کے ساتھ دوسروں کے دلوں میں اتارنا ہے ،اس سارے سفر میں بس ایک بات کا دھیان رکھنا ہے جو لفظ آپ کو ودیعت کئے گئے ان میں کسی دوسرے کہ لفظوں کو اپنا کہہ کر رنگین نہ کرنا ورنہ جو تاثیر آپ کو عطا ہوئی وہ بھی چھن جائے گی ،اور ہاں سب سے ضروری بات علم کے موتیوں کو چنتے ہوئے ،لفظوں کے تتلیوں جیسے پروں کو پکڑتے ہوئے ،بہت نرمی سے ،سر کو جھکا کے نیاز سے اس نعمت کو لینا یاد رکھنا گردن اکڑا کے ناز سے لیتے ہوئے ان تتلیوں کے پروں جیسے نازک لفظوں کے وجود چھلنی ہو جاتے ہیں اور پھر سے وہ کبھی آپ کے ہاتھ نہیں آتے۔ اللہ آپ کو مخلوق کی راہوں میں راحت کے پھول بکھیرنے والا بنائے انسانوں کی راہ میں درد کے کانٹے بچھانے والا نہ بنائے
اللہ آپ کو دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں عطا فرمائے ۔