صحبت صوفیاء اور اولیاء

Spread the love

تحریر:بریگیڈیئر احمد حسین مشوانی پرنسپل کبیر میڈیکل کالج

پیر سید محمد طیب شاہ صاحب کی صحبت کے فیوض و برکات

یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ عبادت بے ریا

a. جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ مسجد لے گئے اور میں ان کی گود سے اتر کر جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہو گیا–والد صاحب نے مجھے روکنے کی کوشش کی کہ مسجد کے اندر جانے سے پہلےمیرے جوتے اتار دیں مگر پیر صاحب سید محمدطیب شاہ کے والد گرامی سید احمد شاہ باباجی نے ،جن کا اب شفتالو شریف ، سری کوٹ میں مزار ہے،میرے والد صاحب سے کہا کہ مت روکو یہ بچہ پاک صاف ہے اس کے جوتوں سمیت مسجد میں آنے سے کوئی گناہ نہیں ہوتا-والد صاحب کو بڑے باجی ،( جو حرف عام میں سب ان کو کہہ کر پکارتے ہیں ،)کی یہ بات سار ی عمر یاد رہی اور اکثر اس کا ذکر کرتے تھے کہ آپ کی تو بچپن میں بڑے بابا جی نے تعریف کی کہ یہ بچہ پاک صاف ہے اور مجھے آپ کو ڈانٹنے سے منع کیا-
b. پیر سید احمد شاہ باجی کے بارے میں یہ جاننا ضروری بھی ہے اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ باعث رہنمائی بھی ہے کہ انہوں نے اپنے پیر طریقت کے حکم پر اس وقت مشرق میں سارے ہندوستان اور برما کے علاقے رنگون کے علاوہ افریقہ کے انتہائی جنوب میں جنوبی افریقہ تک تبلیغ دین کا سفر پیدل یا بحری جہازوں کے ذریعے کیا اور مختلف علاقوں میں اسلامی مدرسوں کی بنیاد ڈالی اور یہ سلسلہ ان کے بعد ان کے بیٹے اور پوتوں نے جاری رکھا اور ماضی کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلا دیش میں ان کے لاکھوں سے زیادہ پیروکار اور مریدین ہیں ، جنہوں نے ان مدرسوں کو رواں دواں رکھا ہے اور دین کی خدمت کر رہے ہیں- ان کے ایسے ہی مریدین اور پر ستار سعودی عرب اور مشرق وسطٰی کے مختلف ممالک کے علاوہ یورپ اور امریکہ تک پھیلے ہوے ہیں- انُ ممالک میں بنگلہ دیش کے کئی لوگوں کے ایسے واقعات مجھے اپنے دوستوں اور جاننے والوں نے سنائے کہ ہمارے علاقے یا صوبہ خیبر پختون خواہ اور پاکستان کے کسی بھی علاقےکے لوگوں کو انہوں نے پیر صاحب کے علاقے سے تعلق کی وجہ سے بہت عزت اور احترام دیتے ہوے کئی موقعوں پر ناقابل یقین حد تک خدمت بھی کی-
c. ابتدائی دینی تعلیم:-ہم بچپن میں دینی تعلیم پیر سید محمد طیب شاہ صاحب کے گھر میں ہی حاصل کرتے تھے ان کے گھر کے دو حصے تھے ایک گھر والوں کے رہنے کا ،دروازے کے اندر اور دوسرا حصہ گھر کے بیٹھک کا جو گھر سے ایک بند دروازے کے ذریعے الگ تھا -بعد میں جب بچوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو ہم مسجد میں منتقل ہو گئے
d. ہم بچپن میں اپنے الف ، ب اور بغدادی قاعدہ ( یسرن القرآن قاعدہ کو ہم بغدادی قاعدہ کہتے تھے) میں سبق اور صفحہ کی نشانی کے طور پر مور کے پر ، جس کو ہم طاؤوس کہتے تھے، اور چاکلیٹ، پیپلمیٹ یا ٹافیوں کے پھولدار اور رنگ بر نگے ورق اور باریک پلاسٹک کے ٹکڑے رکھتے تھے اور اپنے قاعدے اور قرآن کو گھر میں خود کاٹھی۔ یا جلد لگاتے اور قرآن کے لئے خوبصورت کپڑے کا غلاف بناتے تھے –
e. ہمارے اساتذہ کا پڑھانے کا انداز یہ تھا کہ شروع میں ایک ایک اور بعد میں دو دو حرف اس وقت تک دھراتے جب تک وہ اچھی طرح یاد نہ ہو جاتے یا ہم اچھی طرح سمجھ نہ جاتے اور اس کے بعد اگلے سبق ، حرف یا لفظ پر جاتے- مجھے اکثر یہ طریقہ اس وقت یاد آتا ہے جب میں کسی استاد یا پروفیسر کے بارے میں سنتا ہوں کہ ایک گھنٹے کا سبق آدھے گھنٹے میں اور ایک سال کا کورس چھ ماہ میں ختم کر کے، آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کے مصداق- اپنے آپ کو بری الزمہ سمجھتا ہے اور ان کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں کہ بچوں کو بھی کچھ سمجھ آئی ہے کہ نہیں- ہمارے سکول کے زمانے میں اگر کسی استاد کا نتیجہ اچھا نہیں آتا تو کئی دن تک کھانا کھانا چھوڑ دیتا-آج کل یا تو فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے تو اتنے بچے پھڑکا دئیے مطلب فیل کر دئیے اور ان کو اپنے شاگردوں کے فیل ہونے پر نہ توشرمندگی ہوتی ہے نہ ہی اس بات کی ذرہ برابر پرواہ ہوتی ہے-
f. ہمارا دینی تعلیم کا وقت صبح سویرے نماز کے بعد سکول جانے سے پہلے ہوتا تھا- کیونکہ کوئی بھی لڑکی سکول نہیں جاتی تھی اس لئے لڑکے پہلے پڑھ کے فارغ ہوتے -جب سارے لڑکے ختم ہو جاتے تو لڑکے اور لڑکیاں دو قطاروں میں آمنے سامنے کھڑے ہو جاتے اور اونچی آواز میں چھ کلمے ، ایمان مفصل، ایمان مجمل، دعائے قنوت اور آیت الکرسی اس طرح پڑھتے کہ پہلے بڑے بچے پڑھتے پھر ان کے پیچھے چھوٹے بچے دھراتے- اور اس کے بعد لڑکے سکول چلے جاتے باقی لڑکیاں اس کے بعد سبق ختم کرتیں-
g. ہائی سکول کے زمانے میں جب ہم ذرا بڑے ہو گئے تو جب کبھی بڑے باجی اور بڑے صاحبزادہ گھر پر نہیں ہوتے تو ماسٹر عطا ء اللہ شاہ صاحب یا میں اور پیر صابر شاہ ( سابقہ وزیر اعلٰی اور موجودہ سینیٹر) سکول جانے سے پہلے مسجد میں بچوں کو قاعدے اور قرآن پڑھا کر اس کے بعد سکول جاتے-

پیرصاحب کے پکے اور بعض أوقات اکلوتے مقتدی:-اس زمانے کی ایک اور خاص بات صبح، ظہر اور عصر کی نماز میں نمازیوں کی کم تعداد تھی – ایک تو آبادی کم تھی اور اکثر لوگوں کے گھر مسجد سے دور تھے – دوسرا ہمارے علاقے کے اکثر مرد ملازمت کے سلسلے میں گاؤں سے باہر تھے اور جو گاؤں میں تھے وہ صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی گھروں سےکچھ فاصلے پر واقع کھیت اور زمین میں کھیتی باڑی یا فصل اور گھاس کاٹنے کے لئے نکل جاتے تھے اور اکثر مغرب کی نماز کے آس پاس ہی گھرا واپس آتے ، میں چونکہ ظہر کی نماز کے وقت تو سکول میں ہوتا مگر فجر، عصر اور مغرب کی نماز میں اور کوئی ہو نہ ہو میں مسجد میں پیر صاحب کا پکا مقتدی تھا -اور کئی دفع صبح اور عصر کے وقت میں واحد مقتدی ہوتا تھا- سکول کے آٹھ دس سال کی نماز اور مسجد کی رفاقت کا یہ اثر ہوا کہ پیر صاحب مجھ سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اگر ان کے اپنے بچوں سے زیادہ نہیں تھی تو کم بھی نہیں تھی جو کہ ان کی زندگی کی آخری سانس تک برقرار رہی-جب میں فوج میں افسر تھا اور راولپنڈی میں تھا تو میں ہر اتوار ( اور کچھ عرصہ جب ہفتہ وار چھٹی جمعہ کے دن ہوتی تھی ہر جمعہ کے دن) گھر جاتا تھا اور پیر صاحب سے ضرور ملتا تھا کیونکہ ہمارے گھر ساتھ ساتھ تھے،اور اگر کسی ہفتہ میں نہیں آتا تو وہ انتظار کرتے اور میرا پوچھتے کہ کیوں نہیں آیا-میرا خیال ہے کہ ان کے تمام شاگردوں اور شاید اکثر رشتہ داروں میں میں نے ان کی صحبت میں سب سے زیادہ وقت گزارا ہے ، ان کی سب سے زیادہ باتیں سنی ہیں اور سب سے زیادہ نصیحت آموز اور سبق آموز گفتگو میں نے ہی سنی ہے

-کتب کا تفہ:-مجھے اکثر وہ کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کے لئے دے دیتے- میں نے انہی کی دی ہوئی داستان مجاہد دسویں جماعت میں پڑی اور شاید اسی سے متاثر ہوکر میں نے فوج کی زندگی اپنائی-اس کے علاوہ دسویں کے امتحان اور نتیجے کے درمیانی عرصہ میں انہوں نے مجھے بہار شریعت نامی دینی کتاب دی جو شاید علماء کرام عالم فاضل کے درس میں پڑھتے ہیں – اس سے میرے عقائد اور اعمال میں کافی راہنمائی ہوئی-اور دینی معاملات میں میرا اعتماد بڑھا

گورنمنٹ کالج کا زمانہ:- جب میں گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد میں تھا تو پیر صابر شاہ اور میں کلاس فیلو تھے ، تو جب بھی پیر صاحب ایبٹ آباد آتے تو ہم سے ملتے مگر زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے اور ہمیں اپنی پڑھائی جاری رکھنےاور وقت ضائع نہ کرنے کا مشورہ دیتے- ایک دفع انہوں نے ہمیں نصیحت کی کہ جب بھی گاؤں سے کوئی مہمان آئے تو اس کی تواضع کریں مگر جلدی فارغ کرکے اپنی پڑھائی پر توجہ دیں- اس سے کوئی ناراض نہیں ہوگا بلکہ آپ سے خوش ہوگا کہ آپ محنت کرتے ہیں اور اپنا وقت ضائع نہیں کرتے-

میڈیکل کالج :- اس زمانہ میں بھی ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا اور ان سے راہنمائی بھی حاصل کرتا رہا اور کب ایک بار وہ خیبر ہسپتال ، جس کو اس وقت شیر پاؤ ہسپتال کہتے تھے، میں وہ داخل تھے تو مجھے بھی ان کی خدمت کا موقع ملا- یہ سلسلہ میری فوج کی نوکری کے دوران بھی جاری رہا اور سیک بار راولپنڈی میں میڈیکل کور کے میس میںُانُکی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا ، انُکی صحبت اور رہنمائی کا یہ سلسلہ ان کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا-

ان کی صحبت کے بے شمار فوائد میں سے چند ایک کا ذکر سبق اور دلچسپی سے خالی نہ ہوگا-
a. پیر صاحب کی صحبت کا سب سے بڑا اثر اور فائدہ یہ ہوا کہ میں گاؤں کے ایک عام غریب بچے سے ان کی باعزت اور اعلٰی مجلس اور محفل کا ایک مہذب فرد اور نمائندہ بن گیا-اور مجھے اپنے معاشرے اور دوستوں کے حلقے میں عزت سے دیکھا جانے لگا- کئی دفعہ جب میں پشاور اور راولپنڈی یہاں تک کہ سعودی عرب میں کسی سے ملا اور اپنا تعارف کروایا تو کئی لوگوں نے کہا ہاں مجھے یاد آیا آپ سے تو میری ملاقات پیر صاحب کے ہاں ہوئی تھی- جو کہ میرے لئے ایک اعزاز کی بات ہوتی تھی-
اچھے لوگوں کی صحبت کا انسان کے اوپر اثر ہونے کے بارے میں مجھے ایک کہانی یاد آئی – وہ کچھ یوں ہے کہ ایک جوہری نے اپنے بیٹے کو ہیرے کی انگوٹھی دی کہ اسے باہر جاکر بیچ دو مگر بیچنے سے پہلے جو بھی آپ کو قیمت بتائے پہلے مجھے بتانا- بیٹا گاؤں میں نکلا ایک آدمی سے قیمت پوچھی اس نے چند روپے قیمت بتائی جو اس کی اصلی قیمت سے ہزاروں گنا کم تھی- جوہری نے کہا نہیں اس قیمت پر نہیں دینی تم بازار جا کر قیمت کا پتا کرو- بازار میں سڑک کے کنار بیٹھے کاروباری نی نے جو قیمت بتائی وہ گاؤں کی قیمت سے کئی سو گنا زیادہ تھی وہ بہت خوش ہوا اور واپس آکر باپ کو قیمت بتائی کہ سڑک کے کنارے بیٹھے کاروباری آدمی نے یہ قیمت بتائی ، جوہری نے کہا نہیں یہ قیمت بھی بہت کم ہے- تم بازار کے صرافہ بازار جا کر کسی ہیروں کے جوہری کا پتہ کرو اور اس سے اس کی قیمت معلوم کرو-جب بیٹے نے ایسا ہی کیا اور ہیروں کے جوہری سے قیمت پوچھی تو حیرت سے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں – جوہری نے اس انگوٹھی کی قیمت چند ہزار روپے بتائی – وہ خوشی خوشی آیا اور اپنے باپ کو قیمت بتائی – باپ بڑا خوش ہوا اور اپنے بیٹے سے پوچھا آپ کو اس ساری مشق اور بار بار جا کر ایک ہی چیز کو مختلف جگہوں پر مختلف لوگوں سے قیمت معلوم کرنے سے کیا سبق ملا ، تو بیٹے کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں تھا-باپ نے اس کو کہا اس میں دو بنیادی سبق ہیں -پہلا سبق یہ ہے کہ ہیرے کی اصل قدر صرف جوہری کے پاس ہوتی ہے چونکہ اس کو اس کی اصلیت کو پتہ ہوتا ہے- عام لوگوں کے لیئے ہیرا بھی عام پتھر ہوتا ہے-
دوسرا سبق یہ ہے کہ وہی ہیرا جب عام گلی کوچوں میں عام پتھروں کے ساتھ تھا تو عام پتھر تھا اس کی قیمت بھی عام پتھر کی طرح تھی – لیکن جب وہ ہیروں کے ساتھ آگیا تو اس کی پہچان بھی ہیرے کے طور پر ہو گئی اور اس کی حیثیت اور قیمت بھی ہیروں کی طرح بیش بہا ہو گئی-اسی طرح انسان بھی عظیم لوگوں کی صحبت میں عظیم اور پست محفل میں پست ہو جاتا ہے- اس موقع پر ہمارے ایک پیارے دوست سالم خان خلیل کا سنایا ہوا ایک پشتو شعر یاد آیا-
پہ دکان دہ عطاری سڑے عطار شی
پہ اور سوَزِی چہ ملگرے دہ لوہار شی
b. پیر صاحب کی روحانی قربت اور تربیت اور دعاؤں کا یہ آاثر ہوا کہ میری خود اعتمادی اور اللہ پر پختہ ایمان اور پیر صاحب اور دوسرے بزرگوں کی دعاؤں کی وجہ سے میں کبھی بھی ناامید اور مایوس نہیں ہوا اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی کبھی ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہوا-
c. ان جیسے اچھے لوگوں کی صحبت اور نماز کی باقاعدگی سے میری زندگی میں بچپن ہی سے ترتیب اور نظم ضبط شامل ہو گیا تھا – جس کا عملی زندگی میں مجھے کافی فائدہ ہوا-
d. ان کی صحبت میں مجھے ان کی عمر بھر کی دینی اور دنیاوی علوم ، مشاہدات اور تجربات سے براہ راست مستفید ہونے کا موقع ملا۔ اور مجھ میں علم کا تجسس اور مطالعہ کا شوق پیدا ہوا اور مجھ میں سوال پوچھنے کی ایک خاص عادت پیدا ہو گئی جو کہ علم حاصل کرنے کی بنیادی شرط ہے-
e. انہوں نے مختلف موقعوں پر مجھے دینی، ادبی اور متفرق کتب مطالع کے لئے دیں جو میں نے بہت کم عمری میں پڑھیں جس سے میری سوچ اور علم کو وسعت ملی-
f. ان کی صحبت میں مجھے زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر سطح کے لوگوں سے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملا اور بہت سی چیزیں سیکھنے کا موقع ملا-کیونکہ ان سے ملنے والوں میں ایک عام غریب آدمی سے لے کر ملکی اور غیر ملکی علماء، مشائخ، عدلیہ کے اعلٰی ترین جج ، وزیر اعظم، ُقومی اسمبلی کے سپیکر، وزراء، سیکریٹری ، غرض ہر شعبہ زندگی کے اعلٰی ترین عہدوں پر فائض لوگ شامل تھے –
g. پیر صاحب کی صحبت کا ایک اور بیش بہا اثر ان کے پاس آنے والے لوگوں سے میرا ملنا ان سے تعلقات اور اس کی وجہ سے میرے حلقہ ااحباب میں وسعت ہے (Social net working ) جو ہر دور میں علم اور محنت کے ساتھ ساتھ کامیابی کے لئے ایک اہم ضرورت اور ذریعہ بھی ہے-
h. ایک خاص طبقہ جو ان سے باقاعدگی سے ملنے آتا تھا وہ پہلے مشرقی پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش سے آنے والے مریدین کا تھا-جن کی وجہ سے ہمیں گھر بیٹھے بیٹھے ایک دور دراز ملک کے ترقی یافتہ شہروں ڈھاکہ اور چٹاگانگ کےلوگوں سے مل کربات چیت اور گفتگو کا موقع ملا اور ان کی عادات اور رہن سہن، معاشرے اور بات چیت کا علم ہوا -جب کہ اس دور میں ہم جیسے دیہاتیوں کے لئے شہر سے آنے والے لوگ ایک عجوبہ سے کم نہ ہوتے اور اکثر اوقات بچے ان سے کئی قدم دور قطار میں کھڑے ہوکر ان کو ایسے دیکھتے جیسے کوئی عجیب مخلوق ہو-
ہمارے علاقے میں اس زمانے میں ملک کے دیگر دیہاتوں کی طرح لوگ رفع حاجت کے لئے گھروں سے دور کھیتوں اور پہاڑوں میں جاتے تھے، اور رفعحاجت کے بعد صفائی کے لئے مٹی کے لوتھڑے یا پتھر استعمال کرتےتھے مگر پیر صاحب نے ان مہمانوں کے لئے گھر سے دور اس وقت کے مروجہ بناوٹ کا بیت الخلا بنایا اور وہ لوگ صفائی کے لئے پانی استعمال کرتے- اور ہمیں بچپن میں ہی حفظان صحت کے ایک اہم عنصر کا پتہ چلا – جو شاید گاؤں کے بہت سارے لوگوں کو شہر میں جا کر یا کالج میں جا کر پتہ چلتا ہے-
i. ان کی صحبت کا ایک اثر یہ بھی تھا کہ میں برے بچوں اور لوگوں کی صحبت سے بچا رہا اور ہمیشہ اچھے لوگوں کے آس پاس ہی رہا، اور انہی اچھے لوگوں کی وجہ سے مجھے بھی لوگ اچھا سمجھ کر عزت کی نظر سے دیکھتے کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے لوگوں میں ہے- جیسا کہ مشہور ہے” انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے”-
j. ویسے تو گاؤں ہو یا شہر ہر جگہ کی کچھ اچھی اور کچھ بری چیزیں ہوتی ہیں ، مگر میں سمجھتا ہوں کہ گاؤں اور دیہات کے لوگ ایک بڑے ، پھیلے ہوے خاندان کی طرح ہوتے ہیں ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور اپنائیت کا احساس بھی ہوتا ہے اور اظہار بھی کرتے ہیں – اس لئے اکثر بچے کوئی بھی ناپسندیدہ کام کرتے ہوے اپنی عزت کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان اور قبیلے کے نام کا بھی خیال رکھتا ہے- اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ کسی نے دیکھ لیا تو سب کی بدنامی ہو گی- اس بات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ میں نےایبٹ آباد کی کالج کے دور میں صرف اسی خوف سے کوئی فلم نہیں دیکھی کہ وہاں پولیس اور فوج میں علاقے کے لوگ تھے اور میں ڈرتا تھا کہ گاؤں والوں اور والد صاحب کو پتہ چلا تو کیا سوچیں گے – کیونکہ اس زمانے میں فلم دیکھناہمارے ہاں ایک نا پسندیدہ فعل تھا- پیر صاحب کی صحبت کا اثر یہ تھا کہ میں اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ پیر صاحب کے قابل احترام مقام کا بھی لاج رکھنے کی خاطر زیادہ محتاط رہتا تھا -بلکہ میں اتنا شریف یا مولوی نما ہو گیا تھا کہ مجھے اکثر لوگ ملا صاحب یا تو رہ طالبہ (کالا طالب ، کیونکہ میں اتنا زیادہ کالا تو نہیں تھا مگر عام پٹھانوں کی طرح سفید بھی نہیں تھا)کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ میں اس زمانے میں عام مروجہ چار خانوں والا دینی طلبا کا مخصوص رومال ہر وقت سر پر رکھتا تھا- ( جو آجکل مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے سر پر ہوتا ہے)- اور حالت یہ تھی کہ مجھے اس عمر کے لحاظ سے ذرہ سا بھی کھل کر بات یا مزاق کرنے کی آزادی نہیں تھی- جونہی کوئی ایسی بات کرتا سب کہتے ،” یار تو بھی ایسی بات کر تا ہے” -بہر حال اب جب میں سوچتا ہوں تو مجھے ان سب چیزوں کا فائدہ ہی ہوا- کیونکہ تھوڑا بہت شریف تومیں خود تھا مگر زیادہ مجھے دوستوں اور لوگوں نے بنایا-

ان کی چند یاد گار باتیں
a. میں سمجھتا ہوں کہ میں بہت ہی خوش قسمت بچہ تھا بچپن سے ہی باقی لوگوں کی طرح پیر صاحب بھی مجھ سے عام بچوں کے مقابلے میں زیادہ محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے-اور طالبعلمی کے زمانے میں مجھے کبھی ان سے مار نہیں پڑی تھی-
b. پیر صاحب نے اک دفع مجھے ان سے بیت کرنے کا مشورہ دیا – مگر مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں کیا کروں اور کیسے کروں ، نہ ہی مجھ میں اتنی ہمت تھی کہ ان سے پوچھوں کہ میں کس طرح کروں ، جو کہ شاید میری زندگی کی چند ایک پچھتاؤں میں سے ایک ہے- اور مجھے جون ایلیا کا وہ شعر یاد آجاتا ہے –
وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو
جو باتیں پی گیا تھا میں
c. نئی مسجد کی تعمیر:-میری ایک اور خوش نصیبی یہ تھی کہ میرے سکول کے دور میں ہماری نئی مسجد بن رہی تھی ، میں چونکہ سکول کے بعد گھر پر ہی رہتا تھا اور عصر اور مغرب کی نماز مسجد میں پڑھتا تھا تو میں اور پیر صاحب مسجد کی تعمیر میں یہ حصہ لیتے اور سیمنٹ کی تازہ لپائی/ پلاستر کو پانی دیتے تھے –
d. رمضان کی یاد گار افطاری:- رمضان کے مہینے میں زیادہ تر بلکہ تقریبًا سب لوگ گھر پر یا کام سے واپسی پر رستے میں افطاری کرتے تھے- جب تک میں گاؤں میں تھا تو ہر رمضان میں میں افطاری مسجد میں کرتا تھا، اور وہ افطاری میری زندگی کی ناقابل فراموش افطاری بن گئی- زندگی میں بے شمار ایسی افطار یاں کیں جن میں چالیس پچاس قسم کے پھل ، میوہ جات اور مختلف قسم کے کھانے ہونے کے علاوہ چار اور پانچ ستاروں کے معیار کے ہوٹل کی ساری لوازمات بھی ہوتی تھیں مگر جس افطاری کی میں بات کر رہا ہوں اس کا اپنا مزہ تھا جو آج تک کسی اور چیز یا جگہ میں نصیب نہیں ہوا-اس کی خاص بات سادگی، محبت ، احترام،خلوص اور انصاف کا اظہار تھا- پیر صاحب کے گھر سے دستر خوان میں لپٹی تندور کی ایک روٹی اور سادہ پلیٹ میں گھر کی بنی ہوئی ترکاری ، جو کبھی سبزی، کبھی دال یا کری گوشت ہوتی تھی- پانی مٹی کے نئے گھڑے میں ہوتا اور پانی پینے کے لئے اکیلا ایک کھلا برتن ہوتا تھا جس کو ہم کنڈول کہتے تھے- اس موقع پر مجھے پشتو کا ایگ شعر یاد آیا-
بادشاہان بہ اوبہ سکی پہ جام دہ زور
ما غریب لرہ دہ خاورو کنڈول خطہ دے
رمضان میں افطاری کے وقت ہم تین آدمی ہوتے تھے ایک پیر صاحب، دوسرے ماسٹر عطاء اللہ شاہ صاحب اور تیسرا میں-آذان کے بعد ہم تینوں روزہ افطار کرنے کی دعا پڑھ لیتے پھر باری باری مٹی کے برتن میں پانی پی لیتے -اس کے بعد پیر صاحب روٹی کے چار برابر ٹکڑے کر لیتے اور ایک ایک ٹکڑا ہم دونوں کو دے دیتے اور ایک ٹکڑا خود لے لیتے- جب وہ ٹکڑے ختم ہو جاتے تو پھر چوتھے ٹکڑے کو تین برابر حصوں میں توڑ کر تینوں میں تقسیم کردیتے اور جب افطاری ختم کر دیتے تو اس کے بعد با جماعت نماز مغرب پڑھ لیتے- مجھے ہر رمضان میں تقریبّا ہر افطاری کے وقت وہ افطاری مٹی کے برتن میں پانی کا وہ ذائقہ اور گھر کی ترکاری کے ساتھ تندور کی روٹی نہ صرف یا د آجاتی ہے بلکہ وہ ذائقہ بھی منہ میں محسوس ہوتا ہے اور وہ سارا ماحول اور منظر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے-

بلا معاوضہ بچوں کی تعلیم اور مسجد کی امامت:ق- – پیر صاحب گاؤں کے بچوں کو قرآن اور دینی تعلیم مفت دیتے تھے اور اسی طرح مسجد کی امامت بھی خود کرتے تھے اور اس کا بھی کوئی معاوضہ نہیں لیتے کیونکہ سارے گاؤں میں ان کی مالی حیثیت سب سے اچھی تھی –

بچوں کی اصلاح کا پیارا انداز:-ان کا نالائق بچو ں یا شرارت کرنے والے بچوں کو سزا دینے کا انداز بھی بہت دل چسپ تھے ، کبھی کسی کو پوریے ہاتھ سے تھپڑ نہیں مارا، ہمیشہ صرف چار انگلیوں سے اس طرح مارتے کہ انگلیوں اور ہتھیلی کو ملانے والے جوڑ پر ہی حرکت ہوتی- اس سے درد بھی کم ہوتا اور بچوں کے کان کا پردہ پھٹنے کا خطرہ بھی کم ہوتا-

نیکی کا بدلہ اور پردہ پوشی:-ہر دور اور ہر معاشرے میں اچھے برے ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جس وقت پیر صاحب اور ان کے بچے گاؤں کے بچوں کو قرآن پڑھاتےتھے عین اسی وقت کچھ بچوں کے نادان والدین یا رشتہ آر ان کی زمینوں سے گاس اور لکڑی کی چوری کرتے -کہ اس وقت ان کو دیکھنے یا پکڑنے والا کوئی نہیں ہوگا-اس معاملے میں زیادہ دلچسپ اور سبق آموز بات یہ تھی کہ پیر صاحب کو چور اور اس کی چوری کا علم ہو جانے کے باوجود کبھی عامیانہ انداز میں بات کر دیتے کہ کچھ لوگ اس طرح کرتے ہیں – جس سے چوری کرنے والے سمجھ جاتے ،مگر پیر صاحب ان کا پردہ رکھ کر سب کے سامنے ان کو ذلیل ہونے سے بچا دیتے تھے-

آستانے میں سالانہ عرس کا احتمام :-
a. ہماری خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ ہر سال بڑے باجی کے مزار پر عرس ہوتا تھا جس میں دور دراز سے ملکی اور غیر ملکی علماء تشریف لا کر تقاریر اور وعظ و نصیحت کرتے -اس طرح ہمیں گھر بیٹھے بٹھائے انتہائی اعلٰی پائے کے بہترین علماء کے علم سے مستفیض ہونے کا موقع ملتا-
b. دوسرا بڑا فائدہ یہ بھی تھا عرس کے موقع پر ہم نعت خوانی بھی کرتے جس سے ثواب کے علاوہ ہمیں اظہار خیال اور اجتماع سے مخاطب ہونے اور اس کا تجربہ حاصل ہونے کا موقع بھی ملتا –
c. پیر صاحب کا انداز گفتگو:-میں دیکھتا تھا کہ پیر صاحب ہر چھوٹے بڑے سے احترام، پیارے اور نرم لہجے میں بات کرتے، دوسرے کی بات غور سے سنتے، جب دوسرا آدمی بولتا نہ اس کی گفتگو کے دوران بولتے نہ ٹوکتے اگر کوئی بات مبہم ہوتی یا وضاحت طلب ہوتی تو آخر میں پوچھ لیتے،ہر ایک سے جی کہہ کر بات کرتے،اگر کسی کی بات ناگوار بھی گزرتی تو نہایت برد باری سے سنتے اور سکون سے جواب دیتے کبھی جذباتی نہیں ہوتے-
d. انصاف سےصلح صفائی کرنا:- اگر گاؤں کے لوگوں کا کوئی تنازع ہوتا تو انہی کے پاس فیصلہ کے لیئے آتے اور وہ نہایت انصاف سے فیصلہ کرت جس سے دونوں فریق خوش بھی ہو جاتے اور ان کا احترام بھی کرتے-
e. رمضان میں ختم قرآن کا اعتمام :- ہر سال رمضان میں قرآن کا اعتمام ہوتا تھا – شروع میں تو پیر صاحب مشرقی پاکستان جاتے کیونکہ ادھر کے مدارس کے طلباء کی دستار بندی اور تقسیم اسناد کا یہی وقت ہوتا تھا ، بعد میں وہ اپنی مسجد میں نماز تراویح پڑھاتے جس کی خاص بات روزانہ کا درس قرآن ہوتا تھا ،وہ دیہات کے کم تعلیم یافتہ عوام کے عقل اور علم کے معیار کے مطابق قرآن کا جامع اور عام فہم ترجمعہ اور تشریح بیان کرتے-

حقوق العباد اور حقوق اللہ:- پیر صاح کا ایک دلچسپ واقع مجھے دوران حج انکے ایک دوسرے معتقد نے سنایا-انہوں نے بتایا مسجد کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا ، رمضان کا مہینہ شروع ہونے وال تھا تو عطاء محمد مستری پیر صاحب کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور ان سے کہا روزے شروع ہونے والے ہیں تو کچھ مسجد میں کام کرنے کے معاوضے کی مزدوری دے دیں کہ گھر کے لئے کچھ سودہ سلف خرید لوں -پیر صاحب نے اس سے کہا مزدوری تو آپ ہمیشہ لیتے ہیں آج آپ کے ساتھ ایک بہتر معاملہ اور سودا کرتے ہیں – مستری صاح نے کہا ٹھیک ہے جی ، جیسے آپ کی مرضی – پیر صاحب نی فرمایا آپ اس مہینے کے مسجد کا کام فی سبیل اللہ کر دیں اور اس کی مزدوری مجھے معاف کردیں -اس بات سے مستری صاح کا رنگ فق ہو گیا اور اور وہ گھبرا گیا -کہ ادھر گھر میں فاقوں کی نوبت ہے اور رمضان سر پر ہے اور پیر صاحب نے مزدوری معاف کرنے کا کہہ دیا – بہر حال اس نے پرانے تعلقات اور احترام کی وجہ سے خاں بھر دی- پیر صاحب نے پوچھا آپ دل سے معاف کرتے ہیں نا – بچوں کی فکر نہ کریں ان کی روزی کا ذمہ اللہ تعالٰی نے اپنے ذمے لیا ہے- مستری صاحب نے کہا جی ہاں میں نے دل سے اپنی مزدوروں اللہ تعالٰی کی رضا کے لئے معاف کر دی ہے- اس کے بعد پیر صاحب نے اپنی جیب سے کچھ پہلے نکالے جو کہ شاید اس کے مہینے کی مزدوری سے کچھ زیادہ ہی تھے اور وہ عطاء محمد مستری کع دیتے ہوے کہا یہ میری طرف سے ایک نذرانے کے طور پر قبول کر لو- اس پر مستری صاحب حیران بھی ہوے اور پریشان بھی اور پوچھا پیر صاحب گستاخی معاف مجھے اس مذاق کی سمجھ نہیں آئی آپ نے مجھ سے مزدوری نہ لینے کا کہہ دیا جس سے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی پھر آپ نے مجھے میری مزدوری سے زیادہ پیسے دے دئی-یہ سب کیا تھا- پیر صاحب نے کہا عطا محمد بات دراصل یہ ہے کہ یہ جو حقوق اور فرائض کے معاملے ہوتے ہیں بہت نازک ہوتے ہیں اور حساب کتاب بہت باریک چیز ہے-مجھے پتہ ہے آپ کے کام کا وقت آٹھ گھنٹے ہیں مگر آپ وقت کی پرواہ نہیں کرت -مسجد کا کام سمجھ کر کبھی نو گھنٹے تو کبھی دس گھنٹے کام کرتے ہیں جب کہ میں آپ کو مزدوری آٹھ گھنٹے کے حساب سے دیتا ہوں- تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ کی حق تلفی میں نہ پکڑا جاؤں، اس لئے آپ سے درخواست کی کہ اپنا کام اللہ کے نام پر معاف کرو- دوسری طرف مجھے آپ کی بھی فکر ہے- باقی جگہوں پر تو میں مزدوروں اور کام کرنے والوں پر نظر رکھتا ہوں مگر آپ جب مسجد میں کام کرتے ہیں تو کوئی نگرانی والا نہیں ہوتا – آپ۔ بھی انسان ہیں کبھی تھک کر بیٹھ جاتے ہونگے کبھی تیز کام کرتے ہونگے کبھی آہستہ ۔ پتہ نہیں آپ اپنے کام سے کتنا انصاف کرتے ہونگے جب کہ مزدوری تو پورے وقت کی میں دونگا- تو مجھے یہ ڈر بھی ہے کہ آپ کا گلا نہ پکڑا جائے- اس لئے میں نے ان پیسوں کو مزدوری کے بجائے اپ کی خدمت میں نذرانے کے طور پر پیش کیا- اس پر مستری صاحب خوش ہوے اور پیر صاحب کا شکریہ ادا کیا-

صحت اور صفائی :- میں نے ہمیشہ پیر صاحب کو سفید رنگ کے صاف ستھرے لباس میں دیکھا اور عمر کے آخری وقت تک روزانہ شام کو چار پانچ میل چل کر ورزش کے علاوہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال بھی کرتے یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب ان کی بیماری کی وجہ سے وہ چل پھر نہیں سکتے تھے –

پیر صاحب کی دور اندیشی:-
a. جدید تعلیمی ادارہ :- پیر صاحب نے ساتھ اور ستر کی دہائی میں ایک ایسے دینی تعلیمی اداری کی منصوبہ بندی کی جس میں طلباء دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی اور دنیاوی تعلیم سے آراستہ ہوکر جدید دور کے تقاضوں کو پورہ کریں-جو بعد میں طیب ال علوم کے نام سے قائم ہوا-
b. شجر کاری :-ساتھ اور ستر کی دھائی میںہمارے علاقے کے زیادہ تر پہاڑ خشک تھے یا جو تھوڑے بہت جنگلات تھے بھی تو وہ ایندھن کے لیئے استعمال ہونے والے جنگلات تھے ایسے میں پیر صاحب نے اپنی زمینوں میں چیڑ اور اس قسم کے دوسرے قیمتی عمارتی لکڑی کے درختوں کی شجر کاری کی جو آجکل گھنے جنگل کی شکل میں موجود ہیں – انکی شجر کاری کی کامیابی دیکھ کر محکمہ جنگلات اور دوسرے لوگوں نے بھی جر کاری کی اور اب علاقے کے اکثر پہاڑ اچھے جنگلات سے ڈھکے ہوے ہیں-
c. پانی کے مسئلے کا حل:-ہمارے لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا تھا-سال کے کچھ مہینے تو ہم پہاڑی چشموں اور سطحی کنؤوں(Shallow wells) سے پانی بھر کر پیتے مگر ان کے خشک ہونے پر ہم دور دراز سے سروں اور گدھوں پر پانی بھر کر لاتے-پیر صاحب ساری عمر اس مسئلے کے حل کے لیئے کوشاں رہے جو با لآخر ان کے فرزند پیر صابر شاہ کے سیاست میں آنے اور وزیر اعلٰی بننے پر ہری پور کے قریب سے گاؤں تک پانی کے منصوبے کی تکمیل سےحل ہو گیا-
d. ملکی سیاست میں حصہ لینا:-ہمارے عوام میں سیاسی شعور کا فقدان تھا اور لوگوں کو اس کی اہمیت کا احساس ہی نہیں تھا-اگرچہ ہمارے قوم کی آبادی اتنی تھی کہ ہم آسانی سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیت سکتے تھے لین قوم میں اتفاق کے فقدان کی وجہ سے ہمارے ووٹوں سے آس پاس کی دوسری قوموں کے نمائندے جیت کر ہماری نمائندگی کرتے جن کو نہ تو ہمارے مسائل کا علم ہوتا نہ احساس ہوتا- نتیجتًا ہمارے لوگ مسائل میں گرے ہوے تھے اور کوئی پرس ان حال نہیں تھا-ایسی میں پیر صاحب نے قوم کو اکٹھا کیا اور ان سے قوم کے اندر سے اپنا نمائندہ منتخب کرنے کی درخواست کی اور اس کے لئے اتفاق رائے سے ایک نمائندہ مانگ لیا-اور سب لوگوں نے ان کے صاحبزادے پیر صاحب صابر شاہ کے نام پر اتفاق کیا – جو بعد میں ۱۹۸۵ کے قومی انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوے اور اس کے بعد صوبہ سرحد ( خیبر پختونخواہ ) کے وزیر اعلٰی بھی بنے-اس طرح ہمارے علاقے کے کافی سارے مسائل حل ہو گئے
e. میری شخصیت اوراولیاء :- میرے بچپن کی اسی تربیت کی وجہ سے سو فیاء اور نیک لوگوں سے ملنا جلنا اور ان کی محفل میں بیٹھنا اور ہر سال مختلف علاقوں میں مزارات پر جانا جہاں میری روحانی تسکین کا باعث بنتا وہاں اسی بہانے مختلف علاقوں کی سیر وتفریح کا سامان اور مختلف لوگوں سے ملنے اور نئی نئی چیزیں دیکھنے کے مواقع بھی فراہم کرتا تھا.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں