( تحریر -طارق جاوید ملک بیورو چیف یو جی نیوز )
تخلیق کائنات محبت کی مرہون منت ہے.خالق کائنات نے اپنی پہچان کے لئے محبوب حق کا نور تخلیق کیا اور اپنی ذات کو محبوب کی ذات کے ذریعے آشکار کرنے کے لئے کائنات کی تمام مخلوقات کا وجود قائم کیا. کائنات کی تمام رنگینیاں ذات حق کی شان کامظہر ہیں.مخلوقات میں انسان کو فضیلت کا شرف عطا کیا گیا جس کی فضیلت کا سبب صرف یہی ٹھہرا کہ رب کریم نے اپنی ذات کے جلووں کے مظہر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو انسان کے روپ میں مبعوث فرمانا تھا.
مالک رحیم وکریم اپنی شرف یاب مخلوق انسان سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس نے اس کی راھنمائی کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے. تاکہ اپنی پسندیدہ مخلوق کو جہالت کے اندھیروں اور آخرت کے عذاب سے محفوظ بنا کر عظمت کی منزلوں سے آشنا کیا جا سکے.
کائنات میں وجہہ وجود کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس کا مبعوث ہونا خالق کل کی رحمت و محبت کی انتہا ہے اور رحمتہ اللعالمین کی ذات کا وجود پوری انسانیت کے لئے وہ روشن قندیل ہے جس کی ضیاء سے تمام جہانوں کی مخلوقات روشنی حاصل کر سکتی ہیں. رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشن کردہ راہوں پر گامزن ہونے کے لئے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اولیاء کرام کو راہبری کا نشان بنا کر قیامت تک کے انسانوں کی دستگیری کر دی گئی.
تزکیہ باطن کے لئے روحانی بالیدگی ضروری امر ہےاور روحانیت کے فروغ کے لئے کاملین کی درگاہیں راہ حق کے متلاشی لوگوں کے لئے چشمہ ھدایت بنی ہوئی ہیں. آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توجہات اور فیوض و برکات سمیٹنے کے لئے قائم کئےگئے روحانی مراکز میں ایک منفرد درگاہ آستانہ عالیہ سہروردیہ سوھدرہ شریف ہے.جہاں رنگ و نسل اور ذات پات کی تفریق سے ماوری! ہر طالب حق کو سیراب کرنے کا سامان موجود ہے.
آستانہ عالیہ سہروردیہ سوھدرہ شریف وزیرآباد سے سات کلو میٹر کے فاصلہ پر جانب مشرق واقع ہے جس میں باطن کو جلاء بخشنے کے لئے روحانیت کے میدان کے بے مثل قائد اور آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قابل فخر فرزند حضرت پیر سید بشیر احمد خورشید نے برسہا برس قبل وہ قندیل روشن کی تھی جس کی ضیاء سے مستفید ہو کر ہزاروں افراد طریقت و روحانیت کے سمندر سے فیض یاب ہو رہے ہیں. حضرت پیر سید بشیر احمد خورشید کی دنیوی حیات روحانی دنیا کی طرح انسانی خدمت و راھنمائی کی بے مثل خدمات سے مزئین ہے. زمانے کے ٹھکرائے ہوئے طبقات سے محبت اور ان کی بحالی آپ کاوطیرہ حیات تھا.مادی منفعت کی سوچ سے بالا تر خالص انسانی محبت و خدمت کا جذبہ آپ کی زندگی کا مشن رہا جس سے متاثر ہو کر ہزاروں لوگ جہالت و گمراہی کے راستوں کو خیر باد کہہ کر اسلام کی حقیقی زندگی میں شامل ہو کر صراط مستقیم کے حقیقی راہی ہو گئے. تحریک پاکستان، تحریک ختم نبوت، تحریک آزادی کشمیر،مہاجرین کی بحالی اور پاک بھارت جنگوں میں اگلے مورچوں پر امدادی کاروئیوں میں آپ کا مجاہدانہ کردار اپنی مثال آپ ھے. تحریک ختم نبوت میں آپکو ساہیوال جیل میں پابند سلاسل کر دیا گیا مگر ہر قسم کا جبر وتشدد آپکے عزم و استقلال کے سامنے زیر ہو گیا آپ ان چند جانثاروں میں شامل تھے جنہوں نے رہائی کے بدلے معافی نامہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا.تحریک آزادی میں آپکی بے مثل قربانیوں کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے گولڈ میڈل کا اعزاز دیا گیا پاکستان سے آپکی محبت کا یہ عالم تھا کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد آپ نے کبھی بنگلہ دیش کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مشرقی پاکستان کا نام پکارتے. پاک بھارت جنگوں میں اگلے مورچوں پر امدادی سرگرمیاں آپکی حب الوطنی اور جراءت کی واضح دلیل ھیں.قیام پاکستان کے موقع پر مہاجرین کی بحالی کا کام آپکے ایثار اور انسان دوستی منہ بولتا ثبوت ھیں.
شاہسوار میدان طریقت حضرت پیر سید بشیر احمد خورشید کے جاری کردہ مشن کو ان کے صاحبزادگان پوری جانفشانی سے بلندیوں کی منزل سے آشنا کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں اور حقیقت کے سفر کی یہ گاڑی پوری رفتار کے ساتھ آگے بڑھتی جا رہی ہے.
حضرت پیر سید بشیر احمد خورشید کی روحانی تعلیمات اور فیوض و برکات کو مخلوق کی فیض یابی کے لئے پھیلانے میں ان کے فرزند اکبر حضرت پیر سید صفی اعظم چن پیر کی زندگی زمانے میں مثال بن چکی ہے مخلوق سے محبت اور برائی سے نفرت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے اور ان کی مجاہدانہ زندگی کا زمانہ معترف ہے.
آپ رح کی انسانی خدمت کے وصف کے وارث ان کے صاحبزادگان پیر سید لخت حسنین ستارہ امتیاز پاکستان اور پیر سید ضیاء النور فلاح انسانیت کے میدان میں قومی اور عالمی سطح پر روشن نشان بن چکے ہیں
