والدین کے حقوق

Spread the love

تحریر : مرزا فیصل محمود
اللہ عز وجل ارشاد فرماتا ہے ۔ جب والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نا کہنا ۔ اللہ عز وجل انسان کو حسن سلوک کا درس دیتا ہے ۔ آج کل معاشرے میں رواج ہو گیا ہے کہ سال میں ایک بار مدر ڈے منا لیا جائے اور ایک بار فادر ڈے منا لیا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ ناعوذبااللہ ہم نے والدین کا حق ادا کر دیا ہے اور سالا سال ماں باپ کی نافرمانی کرتے رہیں اور ان کے دل دکھاتے رہیں اور اپنی من مانیاں کرتے رہیں اور کہتے رہیں میری زندگی میری مرضی اور توقع یہ رکھیں کہ ہماری زندگيوں میں امن وسکون رہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ کامیاب شخص وہ ہی ہے جو اللہ کے حقوق کے ساتھ حقوق العباد بھی کرتا رہے ۔ اور والدین کے حقوق تو ان کے وفات پانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتے ۔ میری والدہ کو فوت ہوئے ایک سال کا عرصہ بیت گیا ہے ان کا انتقال 20 نومبر (۲٦ ربیع الثانی) 2022 کو ہوا تھا اور والد مرحوم کا انتقال 18 نومبر(۳محرم الحرام) 2012 کو ہوا ۔ اور والد کا انتقال ہوئے تقریبا گیارہ برس بیت گئے ہیں ۔ ان کے انتقال کے بعد میری زندگی میں اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جس کو بیان نہيں کر سکتا ۔ میری دعا ہے کہ مجھ سمیت جتنے بھی لوگوں کے والدین فوت ہو چکے ہیں رب العزت سب کی بے حساب مغفرت فرمائے اور جن کے والدین حیات ہیں ان کا سایہ ان کے بچوں پر تا دیر قائم دائم رکھے۔ آمین میرے والد مرحوم 50 کی دھائی میں زریعہ معاش کے لئے میں پنجاب سے کراچی تشریف لائے تھے ۔ وہ ایک بہت محنتی ,ایماندار,دیانتدار اور انسانيت سے پیار کرنے والے شخص تھے رشتے داروں اور محلے داروں سے خیر خواہی کرنے والے اور مختلف مساجد کی کمیٹیوں کے رکن اور خدمت گزار بھی تھے اور راہ خدا میں دیتے رہتے تھے ان کی زندگی کے بہت سے پہلوں ہیں مگر میں صرف ایک بیان کرنا چاہ رہا ہوں انہوں نے اپنے بچوں کو رزق حلال کہلایا اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی ۔ 80 کی دہائی میں کراچی میں فرقہ وارئیت اور لسانیت عروج پر تھی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا آئے روز آگ اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی کراچی کرچی کرچی ہونے لگا اور ایک وقت ایسا آیا کہ میں اپنے مرحوم والد سے گزارش کی کہ ہم کراچی سے پنجاب یا اسلام آباد کیوں نا شفٹ ہو جائیں تو انہوں نے مجھے جوابا کہا اس شہر کراچی نے انہیں بہت کچھ دیا ہے ۔ ہمارا جینا اور مرنا یہی ہے ہم کراچی چھوڑ کر ہر گز نہیں جائیں گے۔ ہاں امن کے قیام کے لٰئے اپنا کردار ادا کرنے اور باہمی بھائے چارہ کو فروغ دینے کے لئے کچھ اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ان کی ان باتوں کے بعد میں نے بہت سے اقدامات اٹھائے جس میں کھیلوں کے فروغ کے لئے ینگ پاکستانی اسپورٹش مین ارگنائزیشن کا قیام ,آل پاکستان بلیک بیلٹ ارگنائزیشن اور بعد اذں مختلف سیاسی جماعتوں کے اعلی اوصاف کے نوجوانوں کے ساتھ ملکر ; نوجوان سوسائٹی : کی بنیاد رکھی اس تنظیم نے اتنے فلاحی اور معاشرتی کام کئے جس کی مثال نہیں ملتی ۔ میں سمجھتا ہو اس نوجوان سو سائٹی کے کاموں کی وجہ سے کراچی ساؤتھ کے اس حصہ میں امن اور بھائی چارئے کا ایسا ماحول رہا کہ آج تک اس حصہ میں ایک بھی ناخوشگوار واقع نہیں ہوا ۔جس کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے ۔ اور میں حقیقی معنوں میں یہ سمجھتا ہوں کہ کراچی کے امن کے قیام میں پس پردہ میرے والد مرحوم کی سوچ بھی شامل ہے ۔ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا والدین کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے پانچ حقوق ہیں نمبر 1) ایک ان کے لئے دعا مانگی جائے. 2)دوسرا ان کے لئے استغفار کیا جائے ۔3) تیسرا اگر انہوں نے کسی سے کوئی وعدہ کیا تھا تو پورا کیا جائے ۔4) ان کی جانب سے رشتہ داروں ,دوستوں ,عزیزوں سےسلا رحمی کی جائے اور پانچویں بات والد کے دوستوں کی تعظیم کی جائے۔ ایک اور جگہ پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے والد یا والدہ کی قبر پر جا کر زیارت کی تو اس شخص کوبخش دیا جاتا ہے ۔ ایک اور جگہ پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ! جس نے اپنے والد یا والدہ کے چہرہ کی عزت و تکریم کے ساتھ زیارت کی تو اس کو ایک مقرب حج کا ثواب دیا جاتا یے۔ اسلام تو اتنا زبردست مذہب ہے کہ تمام رشتوں کی قدر سکھاتا ہے مگر چند بد بخت والدین کے ساتھ صیح برتاؤ نہیں کرتے انہیں اولڈ پیپل ھاؤس یا ایدھی سینٹر جیسے اداروں میں چھوڑ آتے ہیں اور جب والدین زندہ نہیں رہتے تب ان کو ان کی قدر یا کمی محسوس ہوتی ہے ۔میرے مرحوم والد کی خواہش تھی کہ ان کے آبائی گاؤں میں کوئی درس گاہ قائم کی جائے ۔الحمداللہ ان کی خواہش کے مطابق مدرستہ المدینہ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے اور ان شاءاللہ والدہ کے آبائی گاؤں میں بھی اسلامی بہنوں کے لئے جلد کسی ادارہ کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا ۔ اس کے لئے الحاج مرزا سجاد حسین اینڈ سکینہ بیگم میموریل ٹرسٹ کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ انسان کے مرنے کے بعد اس کے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے ۔ ایک صدقہ جاریہ ۔ دوسرا ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک وصالح اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے مرحومین کی جانب سے بلکہ امت محمدیہ ﷺ کی جانب سے صدقہ خیرات کرتے رہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں